آئیے! ملتے ہیں کتاب میلے میں۔۔۔تحریر:محمود شام


شہر قائد والے کتنے خوش قسمت ہیں کہ ابھی پاکستان آرٹس کونسل سے لپکنے والی شاعری۔ افسانوں۔ ناولوں۔ اُردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی خوشبوئیں ان سے لپٹ رہی تھیں کہ آج ایکسپو سینٹر میںلاکھوں کتابیں بنی سنوری ان سے ہاتھ ملانے کو بے تاب ہوں گی۔ عبداللہ شاہ غازی کی اس بستی میں سال جاتے جاتے اداس کرکے نہیں جاتا بلکہ نئے خیالات۔ نئی امیدیں۔ نئی حکمت بانٹ کے جاتا ہے ۔ سمندر کنارے آباد یہ گلی کوچے۔ محلے۔ شاہراہیں پورے ملک میں حرف و دانش بانٹ دیتی ہیں۔ کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہورہا ہے کہ وہ عملی طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ حرف اپنے معانی کے ساتھ زندہ ہے کتاب اپنے متن کے ساتھ آج بھی قابل اعتبار ہے۔ مصنّفوں کے ذہنوں میں خیالات کی فصلیں پک رہی ہیں۔ قرطاس پر منتقل ہورہی ہیں۔ پلیٹیں بن رہی ہیں۔ فرمے چھپ رہے ہیں۔ جلد ساز تہ بندی کررہے ہیں۔ کتابیں رنگا رنگ جلدیں پہن کر کتاب میلے سے اپنے اپنے گھر رخصت ہونے کے لیے اسٹالوں پر انتظار کررہی ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ مصنّف غربت کی لکیر سے نیچے جارہے ہیں۔ پبلشر لالو کھیت سے ڈیفنس۔ بھاٹی، درجے سے گلبرگ منتقل ہورہے ہیں۔ مگر اب ’’آن لائن‘‘ خریداری کی یلغار نے پبلشر اور مصنّف کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔ کتابوں کی دنیا میں انقلاب آرہا ہے۔ جہاں جہاں اس انقلاب کی آہٹیں پہلے سے سنی جارہی تھیں۔ وہاں کتاب کی قاری تک ترسیل اور تقسیم کے ذرائع بدلے جارہے ہیں۔ بہت سے من چلوں نے گزشتہ صدی میں ہی دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا۔’ کتاب مرگئی ہے‘ ان کے منہ میں خاک۔ کتاب آج بھی زندہ ہے۔ لائبریریوں میں بھی ۔ کتابوں کی دکانوں پر بھی۔ اس نے سانس لینے کے نئے راستے تلاش کرلیے ہیں۔ گوگل۔ امیزون۔ اور ایپل نے اپنے وسیع آنگن کتاب کو پیش کردیے ہیں۔ہر لحظہ تبدیل ہوتی ٹیکنالوجی نے صرف کتابوں کے مصنّف کو ہی متاثر نہیں کیا، اس سے موسیقار بھی مجروح ہوئے ہیں۔ فلم ساز بھی۔ نقاد۔ صحافی اور سب سے زیادہ فوٹو گرافرز۔ لیکن انسان تو ایسی تبدیلیوں کا مقابلہ صدیوں سے کرتا آرہا ہے۔ جنگلوں غاروں سے نکل کر جب اس نے بستیاں بسانا شروع کیں تو رہن سہن میں۔ سفر میں کتنے انقلاب آئے ہیں۔ پہیے نے اسے کہاں کہاں سے پہنچادیا ہے۔ انسان اس کائنات کے خالق کا نائب ہے تو یہ کائنات اس پر کیسے غالب ہوسکتی ہے؟

پہلے تو یہ بتائیے کہ آج آپ سے ایکسپو کے کس ہال میں ملاقات ہورہی ہے۔ کتابیں تو ہماری راہ تک ہی رہی ہوں گی۔ ہم بھی ایک دوسرے سے ہم سخن ہونے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ کتنے مصنّفوں سے آپ مصافحہ کرسکیں گے۔ آپ کے بہت سے پسندیدہ قلمکاروں کی نئی نئی کتابیں اسٹالوں پر تڑپ رہی ہوں گی۔ دنیا کتنی تیزی سے بدلتی جائے۔ کتاب کاغذ سے اسکرین پر منتقل ہوجائے مگر عبارت آرائی کا فن تو باقی رہے گا۔ اس طرح لکھنے والے اور پڑھنے والوں کا سنگم ہوتا رہے گا آپ کو آوازیں، مفروضے مایوس کرتے ہیں کہ کتاب کوئی نہیں پڑھ رہا ہے۔ کتابیں بہت کم بک رہی ہیں۔ مصنّف کو رائلٹی نہیں ملتی ہے۔ یہ مسائل مغرب کے ادبی حلقوں میں یقیناً زیادہ ہوں گے۔ وہاں ناول لکھتے مصنّف لکھ پتی کروڑ پتی ارب پتی ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے خطّے میں ایسی روایت نہیں رہی ہے۔

پاکستان میںکاغذ کی کھپت بہت ہےلیکن کاغذ کے کارخانے نہیں ہیں۔ اخبارات کی جس زمانے میں بہت دھوم رہی ہے ان دنوں بھی نیوز پرنٹ کا کوئی کارخانہ نہیں تھا۔ آج بھی نہیں ہے۔ حالانکہ گنّے کا پھوک بھی دستیاب ہے۔ درختوں کی چھالیں بھی۔ ریاست بھی اگر چاہتی تو نیوز پرنٹ کا کارخانہ لگاکر اخبار مالکان کو تگنی کا ناچ نچاسکتی تھی۔ مگر ہمارے ہاں متبادل طریقوں کی تلاش نہیں کی جاتی ہے۔ ہمیں پرانی چوکھٹوں پر سر رگڑنے میںمزا آتا ہے۔ سب وبائوں۔ بلائوں ۔ ناکامیوں۔ نامرادیوں کی ذمہ داری ہم اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ کوئی اور راستہ تلاش کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

مغرب میں بہت بحث ہورہی ہے کہ کتاب کا مستقبل کیا ہے۔ کتاب کا دائرۂ اثر کم ہورہا ہے یا اسی طرح برقرار ہے۔ وہاں روشن پہلو دیکھنے والے غالب ہیں۔ ایک جائزہ گروپ نے کہا کہ اس سال24فی صد نے کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ اس شماریات سے مایوس ہونے کی بجائے کتاب دوستوں نے اعلان کیا کہ ہمارے لیے خوش آئند یہ حقیقت ہے کہ 76 فیصد نے کتابیں پڑھی ہیں۔ ضروری نہیں کہ کتاب ایسی خوبصورت شے کو کہا جائے جو اوراق پر مطبوعہ ہے۔ خوبصورت جلد میں لپٹی ہو۔ ایسی چیز کو پڑھنا ہی پڑھنا نہیں ہے۔ پڑھے تو کمپیوٹر۔ موبائل پر ابھرتے حروف بھی جاتے ہیں۔ عبارت اور قاری کا رابطہ اسی طرح ہے۔ حرف سے آنکھ کا رشتہ اسی طرح استوار ہے۔ برقی کتابیں تصنیف کی جارہی ہیں۔ پڑھی جارہی ہیں۔ایک دوست کو پی ڈی ایف میسر ہوجاتا ہے وہ بہت سے احباب کو بلا معاوضہ فراہم کرسکتا ہے۔مغرب میں ایسے مصنّفین کے بھی وارے نیارے ہوگئے ہیں جنہیں بڑے پبلشر گھاس نہیں ڈالتے تھے۔ ان کی تصنیفات پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے تھے۔ وہ برقی بازار میں اپنی کتابیں بٹھارہے ہیں۔ مقبول بھی ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہم جیسے جغادری کالم نویس جو اپنے آپ کو بہت بقراط اور ارسطو سمجھتے تھے۔ نئے لکھنے والے ہم سے کہیں زیادہ پڑھے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے اگر اعداد و شُمار دیکھے جائیں تو لکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور پڑھنے والوں کی بھی۔ اور ان کا آپس میں رابطہ بھی ہورہا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے موجدوں اور سوداگروں کو بھی اپنی مقبول ترین ایجاد کے لیے ’بک‘ کا حرف اختیار کرنا پڑا ہے۔ فیس بک۔ چہرہ کتاب یا کتاب رُخ۔ ہم کتابی چہرے سے کتنی صدیوں میں فیس بک تک پہنچے ہیں۔ کتنے کروڑوں اس کتاب کے اوراق میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب روزانہ کتنی پڑھی جاتی ہے۔ٹیکنالوجی یوٹیوب۔ سوشل میڈیا۔ فیس بک۔ انسٹا گرام۔ واٹس ایپ۔ ٹوئٹر اور جو آئندہ برسوں میں نئے آلات آنے والے ہیں وہ سب حرف اور خیال کے محتاج ہیں۔ حرف اور خیال ہی کتاب کو جنم دیتے ہیں۔ آج پھر آپ سے کتاب میلے میں ملاقات ہونی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ