ہم سب ہی آزاد پیدا ہوتے ہیں اور پھر غلام بنادیئے جاتے ہیں۔
خواہشوں کے، اولاد کے، دین کے، دنیاکے، سرکار کے، احتساب کے، سیاست کے پتہ نہیں کس کس کے۔
ایک طرف سے آزادی حاصل کرو تو دوسری طرف غلامی زنجیریں لئے کھڑی ہوتی ہے۔
میں کوئی رستم زماں نہیں تھا۔ میں نے بھی یہ سب غلامیاں بھگتی ہیں پر میں نے کوشش کی کہ اس ساری غلامی کے باوجود اپنی سوچ کو آزاد رکھ سکوں۔ کوشش جاری ہے پر مجھے اس کی بہت قیمت چکانا پڑی اور چکا رہا ہوں۔ جب مجھے پتہ چلا کہ پاکستان ریاست مدینہ بننے جارہی ہے تو سب سے زیادہ خوش میں ہی تھا۔ میں کئی سالوں سے انتظار میں ہوں کہ کوئی تو میرے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا چاھنے والا آئے گا اور اس غلام کو خرید کر آزاد کروائے گا۔
میں بھی آزادی سے لطف اندوز ہو سکوں گا۔
میں بکتا تو روز ہی ہوں پر مجھے کوئی آزاد نہیں کرواتا۔
اپنے اپنے کام کرواتا ہے اور آگے بیچ دیتا ہے۔
جب بھی میرا سودا ہوتا ہے تو میری امید پھر جاگ جاتی ہے اب شاید ریاست مدینہ بن جائے پر جب میری آنکھ کھلتی ہے تو زنجیروں میں جکڑا کبھی گندم پیسنے والی چکی چلا رہا ہوتا ہوں اور کبھی میری زنجیریں ڈھیلی کر دی جاتی ہیں اور تیل نکالنے والے کوھلو کے بیل کی جگہ میری ڈیوٹی لگا دی جاتی یے۔
میرے اوپر کوئی موسم اثر نہیں کرتے اور نہ ہی مجھے آج تک دن اور رات کے چھوٹے بڑے ہونے کے فرق کا پتہ چل سکا۔
کیونکہ میں نے کبھی دن اور رات دیکھا ہی نہیں بس غلامی کی ہے۔
پھر سجدہ شکر بجا لاتا ہوں کہ کتنوں سے میں بہتر ہوں یااللہ تیرا شکر ہے۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ اس کال کوٹھری میں کوئی اور آیا ہی نہیں جس سے میں اپنا تقابل کرسکوں۔
جب سردیوں میں مجھے بخار چڑھتا ہے تو شکر ادا کرتا ہوں یہ اندرونی ھیٹر نہ ہوتا تو سردی سے مرجاتا اور جب کمزوری سے گرمیوں میں سردی لگتی ہے تو میں پھر سجدے میں پڑ جاتا ہوں کہ یااللہ تیرا شکر ہے کہ اتنا کمزور بنایا کہ گرمیوں میں سردی اور ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے ۔
میں بہت کمزور اور ناتواں ہوں پر میرے رب کی مہربانی ہے کہ اس نے میری سوچ کو آزاد پیدا کیا۔
میں اس کال کوٹھری میں پڑا گھومتا رھتا ہوں۔
شاید میں وہ واحد شخص ہوں جو سردیوں اور گرمیوں میں کے ٹو، ماونٹ ایورسٹ ، نانگا پربت اور تمام بلند بالا چوٹیاں ہر سال سر کرتا ہوں پر میرے پاس نہ تو اس بات کا کوئی سرٹیفیکیٹ ہے اور نہ ہی کوئی تصویر۔
کیونکہ سوچنے پر کوئی ورلڈ ریکارڈ نہیں بنتے۔ ورنہ شاید گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں صرف میرے ہی کارنامے درج ہوتے۔
مجھے تو شملہ پہاڑی لاہور بھی کے ٹو سے کم محسوس نہیں ہوتی کیونکہ نہ میں اس پر چڑھ سکااور نہ اس پر ۔ بستر پر لیٹ کر کسی بھی پہاڑی کا سوچو تو اس کی چوٹی نظر نہیں آتی بے شک وہ ڈی گراونڈ لائلپور کی پہاڑی ہی کیوں نہ ہو۔
بچپن شاید کچھ لوگوں کا آزاد گزرا ہو۔
پر ہمیں تو غلامی کی زنجیریں پہنے بھوسے کے ڈھیر بھی ماونٹ ایورسٹ ہی نظر آتے تھے۔
میری سوچ شاید آزاد ہے پر میں بہت بے بس ہوں ۔ میرے اللہ نے مجھے میری ذات یا میری فیملی کے حوالے سے کبھی بے بسی نہیں دکھائی شکر الحمدللہ ۔
پر جب ھسپتالوں کے کاونٹر پر میں اپنے علاج کیلئے نقد رقم ادا کرتا ہوں ۔ اور ساتھ کھڑے مریض سے وہ کاونٹر والا کہتا ہے جاو جی زکوۃ فارم لیکر آو، مجھے نہیں پتہ اس پر کیا گزرتی ہے پر میں اپنی بے بسی ہر مر جاتا ہوں۔ میرا ادارہ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن بہت اچھا ادارہ ہے جو ہمیں علاج کی تمام سہولیات مہیا کرتا ہے۔ اس کے لئے ہم اس کے شکر گزار ہیں۔ کہ وہ نفع میں ہو یا نقصان میں اپنے تمام ملازمین کو میڈیکل کی سہولیات مہیا کرتا ہے۔
اب میرے فنڈز ھسپتال کو ٹرانسفر ہوچکے ہیں۔
اب میرے علاج کی پیمنٹ پینل پیمنٹ ہوگئی ہے۔ اور مجھے نقد جمع نہیں کروانے پڑتے۔
مجھے ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ الحمدللہ ہماری کامیابی کا تناسب 90 فی صد ہے۔ پر وہ مجھے نہیں جانتے ۔ میں تو ہمیشہ سے ہی ٹھیک ٹھاک ہوں الحمدللہ ۔
پر میں کسی کی تکلیف اور بے بسی نہیں دیکھ سکتا اس لئے روز جیتا اور روز مرتا ہوں۔
الله تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کی یا باری تعالیٰ میں بہت کمزور اور ناتواں ہوں مجھ سے کسی کا دکھ، درد بے بسی برداشت نہیں ہوتی یا تو مجھے یہ سب دکھایا نہ کر یا پھر میرے وسائل اتنے بڑھادے کہ تیرے حکم اور اجازت سے میں انکی مدد کرسکوں۔
مجھے محسوس ہورھا ہے کہ میری سوچ بھی آزاد سے غلام ہوتی جارہی ہے کیونکہ یہ اب اپنا نہیں سوچتی لوگوں کا سوچتی رھتی ہے۔ اب کیش کاونٹر پر بھائیوں کو بھیجتا ہوں کیونکہ لوگوں کی بے بسی دیکھ کر میری سوچ کی آزادی سلب ہورھی ہے۔ دعاوں کی درخواست ہے میری صحت کے لئے اور ان سب بے بسوں کے لئے جو دن میں کئی بار علاج کے خرچ کا سوچ کر ہی مرتے ہیں ۔