گزشتہ کئی دنوں سے ہمارے ہاں کراچی سے پشاور تک کاروبار حیات کئی اعتبار سے معطل رہا۔تاریخی اعتبار سے لاہور کو راولپنڈی سے شہ رگ کی طرح ملانے والی جی ٹی روڈ خاص طورپر خوف وبے یقینی کی زد میں آئی ہوئی ہے۔اس قضیے کی جو وجوہات ہیں ان کے بارے میں آج بھی میرا مؤقف وہی ہے جو 2017میں تھا۔اس برس مگر وطن عزیز میں آپ کی حب الوطنی اورایمان کی حرارت جانچنے کا فقط ایک پیمانہ تھا اور وہ یہ کہ آپ نواز شریف جیسے مبینہ چوروں اور لٹیروں کو جیلوں میں بھیج کر ہماری سپریم کورٹ کی جانب سے صادق اور امین ٹھہرائے عمران خان صاحب کو ہر صورت اقتدار میں لانے کو تیار ہیں یا نہیں۔
میں بضد رہا کہ معاشرتی تضادات کو محض ایک نکتے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔’’اور بھی غم ہیں زمانے میں…‘‘ کے علاوہ التجا یہ بھی کرتا رہا کہ سیاسی میدان میں جو روش کسی ایک فریق کو اپنے لئے کسی وقت نہایت ضروری اور مناسب محسوس ہوتی ہے مکافات عمل کی بدولت مخالفین کے ہاتھوں کسی روز اسے بے بس بھی بناسکتی ہے۔نہایت خلوص سے بیان کی یہ باتیں مگر بکائو صحافیوں کے خیالات ٹھہرادی گئیں۔طویل انتظار کے بعد ان دنوں کی حکومت اقتدار میں آئی تو چند ہی ہفتوں بعد میرے لئے رزق کمانے کے راستے بھی بند ہونا شروع ہوگئے۔
مجھ جیسے فرسودہ اور بکائو صحافیوں کے مقابلے میں عوام کی ذہن سازی کے لئے اب محب وطن حق گو افراد کی نئی کھیپ تیار ہوچکی ہے۔وہ ٹی وی سکرینوں پر چھائے ہوئے ہیں۔یوٹیوب کے ذریعے بھی ہماری رہ نمائی فرماتے ہیں۔ایسی طاقت ور اور توانا کھیپ مگر ان دنوں اپنے سرپرستوں کے کام نہیں آرہی۔جمعہ کی رات ان کی ایک کثیر تعداد کے لئے تفصیلی بریفنگ کا اہتمام بھی ہوگیا۔گزشتہ ہفتے کا آخری کالم لکھا تھا تو ریڈ لائن کھینچ دی گئی تھی۔ گوجرانوالہ میں جمع ہوا جتھہ مگر اسے پار کرتے ہوئے وزیر آباد میں براجمان ہوگیا۔ریاست اپنی رٹ بحال کرنے کو تاہم اب بھی بے چین ہے۔مذاکرات کے ذریعے اگرچہ خون خرابے اور خلفشار کو روکنے کی کاوشیں بھی جاری ہیں۔روزمرہّ زندگی کے تقاضوں کے ہاتھوں بدحال ہوئے پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میں بھی دُعا گو ہوں کہ بلاکسی صورت ٹل جائے اور یہ کالم لکھتے ہوئے اطلاعات آرہی ہیں اس کے چھپنے تک شاید کوئی حل بھی نکل آئے۔
جو قضیہ جاری ہے اس کو نظرانداز کرنے کے لئے ذاتی طورپر میں نے کرکٹ سے بھی دل لگالیا ہے۔ورلڈ کپ کے لئے ٹی -20کے جو میچ ہورہے ہیں انہیں نہایت شوق سے دیکھ رہا ہوں۔پاکستان کا بھارت اور نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوا میچ دیکھنے کے بعد افغانستان کے ساتھ ہونے والا مقابلہ بھی آغاز سے انجام تک بہت چائو سے دیکھا۔ذات کا رپورٹر ہوں۔کھیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی بدولت رونما ہوتے سیاسی پیغام پڑھنے کی علت لاحق ہے۔ افغانستان کی ٹیم طالبان حکومت کے قیام کے بعد سنگین ترین مخمصوں کا شکار ہے۔اس کی وجہ سے نازل ہوا تنائو ان کے چہروں پر عیاں ہے۔اس کے باوجود وہ داد کے مستحق ہیں۔میدان میں جیت کو یقینی بنانے کے لئے اترتے ہیں۔پاکستان کے خلاف میچ کھیلتے ہوئے انہوں نے چند لمحات کے لئے گیم کو گلی کی زبان میں ’’پھنسا‘‘ بھی دیا۔پاکستان کی ٹیم ان دنوں مگر ناقابل تسخیر نظر آرہی ہے۔پھنسے ہوئے میچ کو بھی آصف علی جیسے بلے باز چوکوں چھکوں کی بوچھاڑ سے بالآخر جیت لیتے ہیں۔
ذات کے رپورٹر کے لئے اہم ترین بات مگر افغان کھلاڑیوں کے بجائے انہیں سراہنے والے تماشائیوں کا رویہ تھا۔یہ رویہ افغانستان کی خصوصی شناخت اجاگر کرنے کو بے چین نظر آیا ہے۔وہ اس جھنڈے ہی کو قومی علامت گردانتے ہیں جو کئی دہائیوں سے ان کے ملک کی شناخت ہے۔ افغانستان میں کئی نظام اور حکمران آئے اور چلے گئے۔یہ جھنڈا مگر اپنی جگہ برقرار رہا۔طالبان کی فاتحانہ انداز میں کابل واپسی کے باوجود افغانوں کی اکثریت اب بھی اس جھنڈے سے کنارہ کشی کو آمادہ نظر نہیں آرہی۔ دلوں میں کھولتی افغان قوم پرستی کے اس ماحول میں ایک پاکستانی صحافی نے افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان سے یقینا احمقانہ سوال کئے۔
جانے ہم پاکستانیوں کی اکثریت خود کو طالبان کی ترجمان ثابت کرنے کوکیوں بے تاب رہتی ہے۔ ایسا کرتے ہوے فراموش کردیا جاتا ہے کہ افغانستان نام کی ریاست قیام پاکستان سے تقریباََ دو سو سال قبل دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی تھی۔اس ریاست نے دلی میں بیٹھے مغل شہنشاہ کو کمزور تر بنایا تھا۔کشمیر سے لے کر آج کے پنجاب اور سندھ کے وسیع تر علاقے بھی مذکورہ ریاست کے باجگزار رہے ۔افغان قوم پرستی اس حقیقت کو یاد رکھے ہوئے ہے۔
ہمیں اس گماں میں مبتلا ہونے سے احتیاط برتنا ہوگی کہ طالبان کی کامرانی کے بعد تاریخ کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے۔ایسا واقعہ فقط ایک بار رنجیت سنگھ کے دور میں ہوا تھا۔اس کا اقتدار مگر طورخم پار نہیں کرپایا تھا۔آج کے خیبرپختونخواہ کو ہتھیانے پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔سیلاب کی صورت دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلتا برطانوی سامراج بھی بالآخر افغانستان کو اس زمانے کے انڈیا اور روس کے درمیان اپنے تحفظ کو یقینی بنانے والی نام نہاد ’’بفرسٹیٹ‘‘ کی حیثیت دینے کو مجبور ہوا۔
محض سوشل میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کے عادی ہوئے افراد مگر تاریخ کی گہرائی اور گیرائی کو زیر غور لانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے۔ فرض کرلیا گیا ہے کہ ابلاغ کے تمام تر ذرائع کو کامل طورپر اپنے قابو میں لانے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں فقط وہ سوچ بٹھائی جاسکتی ہے جو حکمرانوں کو آسانیاں فراہم کرے۔1857میں لیکن اخبار بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔اس کے باوجود برطانیہ کے زیر تسلط علاقوں میں بنگال سے خیبر تک ایک بیانیہ فروغ پایا۔ اس کی وجہ سے جنگ آزادی ہوئی جسے سامراج نے غدرپکارا اور اس پر نہایت سفاکی سے قابو پانے کے بعد مزید ایک سو برس تک ہم پر راج کیا۔
مذہب کی بنیاد پر جو بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے اپنے فروغ کے لئے دورِ حاضر میں ذہن سازی کے مؤثر ترین ٹولزشمار ہوتے ذرائع کا ہرگز محتاج نہیں ہے۔یہ مساجد اور مدرسوں کے خیرہ کن حد تک پھیلے نیٹ ورک کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔ محض ریاست کی رٹ قائم کرنے والا ورد اس بیانیے کا مؤثر توڑ نہیں ہے۔جوابی بیانیہ فروغ دینے کے لئے ابلاغ کے تخلیقی ذرائع ڈھونڈنا ہوں گے۔ہمارے میڈیا کی اجتماعی ساکھ کو موجودہ حکمرانوں نے مگر اپنے ہاتھوں نہایت لگن اور یکسوئی سے تباہ کیاہے۔ صفائی ستھرائی کے بعد بندے کا پتر بنائے اس میڈیا سے اب یہ امید نہ رکھیں کہ وہ خوف و بے یقینی کے عالم میں موجودہ حکومت کا کسی بھی صورت مددگار ہوسکتا ہے
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت