استنبول میں شکست۔ ترکی میں شکست۔نیو یارک میں شکست۔ امریکہ میں شکست۔
شہری انتخابات کی عالمی سطح پر یہ اہمیت ہے۔ شہری نظام برسوں کی تحقیق کے بعد جمہوری نظام کی بنیاد قرار پایا ہے۔ لوگوں کو گھر کے دروازے پر انصاف، پانی اور دوسری سہولتیں پہنچانے کی نیت۔ یہ مہذب ملکوں کی بات ہے۔ فوجی حکومتیں آتی ہیں تو ہم مہذب ہوجاتے ہیں۔ اختیارات کی بڑی متوازن تقسیم ہوتی ہے۔ سیاسی حکومتیں آتی ہیں تو شہر، قصبے، گائوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے مرہونِ منت بن جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کئی سال سے اصرار کررہی ہے تو سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخابات پر مجبور ہورہی ہیں۔ کے پی میں انتخابات میں شہریوں نے دل کھول کر رکھ دیے ہیں۔ وفاق لرز کر رہ گیا ہے۔
پشاور میں شکست۔ پاکستان میں شکست لگ رہی ہے۔ اسلام آباد نے فوراً تختِ لاہور کا رُخ کیا ہے۔ کہیں لاہور میں بھی پشاور نہ دہرا دیا جائے۔ وزیر اعظم کو اب بھی یہ خوش فہمی ہے کہ وہ 2017 کی طرح ہی پاکستانیوں کے آئیڈیل ہیں۔ وہ جب کہتے ہیں کہ اب میں خود نگرانی کروں گا تو مجھے ہنسی آتی ہے کہ معاملہ تو یہیں سے خراب ہوتا ہے۔ جس کا منصب ہے، اسے کرنے دیں۔ یہ پنجاب کی پارٹی کی ذمہ داری ہے انہیں متحرک کریں۔ احساس دلائیں۔ آپ ایک اہم اور حساس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ جہاں رعایا مہنگائی سے تڑپ رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہورہا ہے۔ درآمدات پر زر مبادلہ زیادہ خرچ ہورہا ہے۔ لوگ مایوس ہورہے ہیں۔ خطرہ بڑھ رہا ہے کہ عوام نے آپ کو جن کا متبادل سمجھ کر ملک کی باگ ڈور سونپی تھی، وہ پھر نہ آجائیں۔ تین سال میں تو ایک وزیر اعظم کو ادراک ہوجانا چاہئے کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔ اگر یہ احساس ہو کہ آپ کے رفقاء، مشیر آپ کو سیدھے راستے کی طرف نہیں لے جارہے ہیں تو آپ حکومت سے باہر، پارلیمنٹ سے ماورا بکھری ہوئی دانش کے سامنے حاضری دیں۔بے شُمار درد مند اساتذہ ہیں۔ پروفیسرز ہیں۔ اچھے ریکارڈ والے سابق وزراء ہیں۔ سابق میئرز ہیں۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز ہیں۔ ان سے تعاون حاصل کریں۔ وہ آپ کو بالکل درست تصویر پیش کریں گے۔ صحیح راستے کی رہنمائی کریں گے۔
وزیر اعظم یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ مغرب کو وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں کیونکہ وہ وہاں رہ چکے ہیں۔ کیا انہیں یاد ہے کہ لندن کے میئر کو کیا کیا اختیارات حاصل ہیں؟ نیو یارک کے شہر کے باپ کے پاس کون کون سے محکمے ہوتے ہیں؟ایک بہتر شہر میں زندگی کا معیار کیا ہوتا ہے؟رہن سہن، نقل و حرکت کھانے پینے کی کسوٹی کیا ہوتی ہے؟ جنگلوں غاروں میں رہنے اور گزشتہ صدیوں کی مسلسل تحقیق،ایجادات کے بعد اکیسویں صدی کے شہروں میں کیا آسانیاں ہیں؟ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے شہروں قصبوں میں رہائش کتنی آرام دہ ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی شہر اس معیار کا کوئی کیوں نہیں ہے۔ دنیا اپنے دریائوں، سمندروں سے زندگی کی آسائشیں ڈھونڈ رہی ہے۔ یہاں قبائلی سردار اور جاگیردار، شہروں سے رہی سہی سہولتیں چھین رہے ہیں۔
سندھ جہاں پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب کے آثار بتاتے ہیں کہ موہنجو داڑو کے لوگ کس قرینے اور سلیقے سے زندگی گزارتے تھے۔ اب سندھ کے حکمران شہری حکومتوں کے قرینے اور سلیقے پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ شہروں کے باپ منتخب کرنا چاہتے ہیں لیکن اس باپ کو بچے کا فیڈر نہیں دیتے۔ اس کا پنگھوڑا اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اسکول کالج درسگاہیں غصب کرلیتے ہیں۔ بڑے شہروں کا میئر صدر اور وزیرا عظم کے بعد ملک کا دوسرا اہم عہدیدار ہوتا ہے۔ غیر ملکی سربراہوں کو استقبالیے شہر کا میئر دیتا ہے۔ وہی مرکزی شخصیت ہوتا ہے۔ وزیر اعظم صدر مہمان کے طور پر آتے ہیں۔بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ شہری حکومت کے پاس شہر کے پانی بجلی گیس کی فراہمی، کوڑے کرکٹ کی منتقلی، آگ بجھانے کے اختیارات ہوں۔ تعلیم، صحت کے ادارے ہوں۔ شہروں کا انتظام شہری اپنے منتخب ارکان بلدیہ کے ذریعے ایسے مستحسن انداز میں کریں کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے لیے کوئی مسائل پیدا نہ ہوں۔
میئر کو Father Of The City کیوں کہا جاتا ہے؟ شہر کا ناظم ایک باپ کی طرح شفقت اور تردد کرتا ہے۔ شہر کی اسی طرح حفاظت کرتا ہے جیسے باپ بچے کی کرتا ہے۔ اس میں تعلیم، تربیت، صحت، غذائیت، پانی کی فراہمی، آگ سے بچانے کی تدابیر، بجلی کی فراہمی، کوڑے کرکٹ، غلاظت ٹھکانے لگانے کے انتظامات، پبلک ٹرانسپورٹ، لوگوں کی استطاعت کے مطابق اپنے گھر، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت معاشرے کی ڈیجیٹلائزیشن سب میئر یا چیئرمین کے اختیار میں ہوتا ہے۔ رہنے کے قابل شہروں کی تعریف بھی یہی کی جاتی ہے۔ جہاں اچھی محلّے داری ،دفتر سے گھر، گھر سے کارخانے تک رسائی، مقامی معیشت اور عوامی مقامات، پارک وغیرہ ہوں اور یہ سب بلدیاتی اداروں کا منصب ہوتا ہے۔ اس وقت زندگی میں عمدگی کے حوالے سے سر فہرست کوپن ہیگن۔ ڈنمارک ہے۔ پھر 2:اوسلو ناروے۔3:زیورچ سوئٹزر لینڈ۔4: لندن۔5:اسٹاک ہوم(سویڈن)۔ 6: سنگا پور۔ 7: ایمسٹرڈیم۔8:سڈنی۔9: نیو یارک۔ 10: میونخ۔11: برلن۔12: وینکوور۔13: سان فرانسسکو۔14: پیرس۔15: ہمبرگ۔ 16:ہانگ کانگ۔17: تائیوان۔18:واشنگٹن۔19: برسبین، آسٹریلیا۔20:بارسلونا( اسپین)۔ ان شہروں میں آپ کے رشتے دار بھی رہتے ہوں گے۔ ان سے دریافت کیجئے کہ وہاں شہریوں کو کیا کیا سہولتیں حاصل ہیں۔ یہ دنیا کے بہترین اسمارٹ سٹی ہیں۔
یہ ترقی یہ سکوں لائے ہیں انساں ہی یہاں
شہر اپنے بھی نہ کیوں ایسے بنائیں ہم لوگ
ضرورت یہ ہے کہ جس طرح آمریت کے دَور میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدو جہد کی جاتی ہے۔ اس طرح جمہوری ادوار میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کیلئے تگ و دو کی جائے۔ سٹی لیڈرز کی ہر سال ایک قومی کانفرنس منعقد ہونی چاہئے۔ با اختیار بلدیاتی ادارے صوبے اور وفاق کیلئے مستحکم بنیاد ثابت ہوں گے۔ ان کیلئے خطرہ نہیں۔ یہاں سے سیاسی جماعتوں کو مستقبل کی قیادت بھی میسر آئے گی۔