کے پی کے ، کس کا…؟۔۔۔تحریر نوید چوہدری


بلدیاتی انتخابات کے پہلے اور اہم ترین مرحلے میں جے یو آئی (ف)نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ طلسم بھی ٹوٹ کر بکھر گیا کہ کے پی کے ، پی ٹی آئی کا ہے ۔ اب لاکھ تاویلیں پیش کی جائیں حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ ایک ایسی پارٹی جو صوبے کے ساتھ مرکز میں بھی حکومت کررہی ہو الیکشن ہار جائے تو اسکا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ ڈلیور کرنے میں ناکام رہی ۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ انتخابی عمل اور نتائج کو کنٹرول کرنے والا سسٹم بعض وجوہات کی بنا پر اپنا کام نہیں دکھا سکا ۔یہ شکست تحریک انصاف اور خود وزیر اعظم عمران خان کے لئے اتنا بڑا جھٹکا ہے کہ جس کے اثرات سے نکلنا بہت ہی بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہم ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی وجہ سے ہارے اس لئے اب اگلے مرحلے کے انتخابات کی نگرانی میں خود کروں گا ۔ ادھر کئی صوبائی وزرا کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی نے مہنگائی کی وجہ سے مات کھائی ۔ وفاقی وزرا کی باتیں سنیں تو وہ الگ ہی کہانیاں بیان کرتے ہیں ۔ کے پی کے نا صرف پی ٹی آئی کا سٹرانگ ہولڈ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس پارٹی کو الیکشن میں پہلی بار حکومت بھی اسی صوبے کی ملی۔ 2018 کے الیکشن میں دوبارہ مینڈیٹ ملا تو ایک نیا ریکارڈ قائم ہوگیا کیونکہ اس سے پہلے اس صوبے میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ جس جماعت یا اتحاد کی حکومت ایک ٹرم مکمل کرتی تو اگلی ٹرم میں اس کی چھٹی ہو جایا کرتی تھی ۔ پی ٹی آئی جب صرف صوبائی حکومت ہی چلا رہی تھی تو اسی وقت سے یہ مضبوط تاثر قائم ہوچکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی حمایت سے یہ نہ صرف کے پی کے میں اپنی حکومت دوبارہ بنائے گی بلکہ وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی حکومتیں بنائے گی ۔ ایسا ہوا بھی کیونکہ منصوبہ سازوں کو یقین تھا کہ وہ تمام پرانی اور آزمودہ سیاسی جماعتوں کا وجود مٹا کر تبدیلی پارٹی کے ذریعے ہی نظام چلایا جائے گا ۔ 2013 میں پہلی بار کے پی کے میں تحریک انصاف کو حکومت دی گئی تو اس کے ساتھ ہی یہ خصوصی اہتمام کیا گیا کہ میڈیا کے ذریعے کچھ ایسا ظاہر کیا جائے کہ صوبہ جنت نظیر بنتا جارہا ہے ۔ اس سے پہلے ‘‘ مثبت خبروں ‘‘ کا معاملہ محض دفاعی معاملات اور نام نہاد ‘‘قومی مفادات ‘‘ کی حد تک ہوتا تھا ۔پہلی بار کسی حکومت کی خاطر معمول کے پراپیگنڈے سے ہٹ کر ‘‘ مثبت خبروں ‘‘ کا پورا پیکیج تیار کیا گیا اور مخصوص میڈیا ہائوسز کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا ۔ کے پی کے کے شہروں اور دیہاتوں میں جانے والوں کو اس وقت سخت حیرانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب انہیں پی ٹی آئی اور مخصوص میڈیا کی پیش کردہ خوشنما تصاویر کے برعکس ماحول ملتا ۔ بہر حال یہ پراپیگنڈے کا ہی کمال تھا کہ خود صوبے کے کئی رہائشی بھی کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگے۔ کے پی کے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر تھے ، ٹوٹی ہوئی سڑکیں ، گلیاں ، ابلتے گٹر ، جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیرظاہر کرتے تھے کہ ان معاملات کا کوئی والی وارث نہیں۔ بلین ٹری سونامی کے جعلی دعوے کے برعکس ہرابھرا صوبہ تیزی سے درختوں سے پاک ہوتا جارہا تھا اور اس کا حسن ماند پڑ رہا تھا ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ سکولوں کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا گیا جو بے بنیاد تھا ۔ ریاستی مشینری کے ذریعے خوب پراپیگنڈہ کیا گیا کہ سرکاری سکولوں کا معیار اتنا بلند ہوگیا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں سے نکال کر وہاں داخل کرارہے ہیں ۔ حالانکہ ایسا کچھ تھا نہ ہے ۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں امریکا جیسی سہولتیں فراہم کرنے کے نعرے لگائے گئے مگر حالت یہ رہی کہ لیڈی ریڈنگ جیسے بڑے ہسپتال میں بھی علاج کے لئے جانا مشکل ہوگیا ۔ مریضوں کو سہولتیں ملنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ۔ صحت کارڈ کا اجرا تو کردیا گیا مگر جب علاج کے لئے مناسب ہسپتال ہی موجود نہ ہوں تو ایک بے کار مشق اور پیسے کے زیاں کے سوا کچھ نہ تھا ۔ کے پی کے میں صحت کی سہولتیں اس قدر ناقص تھیں کہ صوبائی حکومت کی ایک ٹرم مکمل ہونے کے بعد اگلا الیکشن جتوانے کی ڈیوٹی پر مامور مہروں میں سے ایک اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار
ایبٹ آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں پہنچے تو برس پڑے ۔ ان کے یہ الفاظ ریکارڈ پر ہیں کہ یہاں انسان تو کیا کتے کا علاج بھی نہیں ہوسکتا ۔ پولیس ریفارمز بھی ایک ڈھکوسلا تھا ۔ کے پی کے جیسے چھوٹے اور روایات پر چلنے والے صوبے میں چند شہری علاقوں کو چھوڑ پولیس کو ایک مخصوص دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے ۔ بہت پہلے بھی ایسا ہی تھا ، اب بھی کافی حد تک ایسا ہی ہے ۔ صوبے میں کرپشن کے حوالے سے کئی رپورٹیں باربار سامنے آتی رہیں مگر طاقتور ہاتھ اسے دباتے رہے ۔ مفادات کا ٹکرائو پی ٹی آئی حکومت کا خاصہ رہا بالکل ویسے ہی جس طرح اب وفاق میں ہورہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ شہباز شریف کی نقل کرتے ہوئے بی آر ٹی منصوبہ بنایا تو اس کے اخراجات نے ہوش اڑا دئیے ۔ اپنی نالائقی کے سبب اس کو اس طرح ڈیزائن ہی نہیں کیا جاسکا کہ زیادہ سے زیادہ شہری مستفید ہوکر داد دے سکیں۔ اس پراجیکٹ میں کرپشن کی داستانیں عالمی میڈیا کی زینت بنیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس کیس کو بھی کھولنے نہیں دیا ۔ جب ہر شعبے میں برا حال ہو تو محض ایک پیج کے دم پر لوگوں کو آخر کتنی دیر تک دبایا اور بے وقوف بنایا جاسکتا تھا۔2018 تک کے پی کے کے لوگوں کو بھی آخری لارا یہی لگایا گیا کہ صرف صوبے سے کام نہیں چلتا وفاق میں بھی ہماری حکومت آئے تو دیکھنا پھر کیا ’’چمتکار ‘‘ ہوتا ہے ۔ پی ٹی آئی کو وفاق کے ساتھ پنجاب میں بھی حکومتیں دی گئیں تو ’’اصل کارکردگی ‘‘ کے پول کھل گئے ۔ پورے ملک کی طرح کے پی کے میں بھی عوام سخت بے چینی اور اضطراب کا شکار تھے ۔ بلدیاتی انتخابات میں موقع ملتے ہی انہوں نے اپنا غصہ نکال دیا۔ صوبے میں جے یو آئی کی مقبولیت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ اس تمام عرصے میں مولانا فضل الرحمن ڈٹ کر نہ صرف حکومت بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے رہے۔ پہلے لاکھوں کا آزادی مارچ اسلام آباد لے جاکر اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ۔ طاقتور ترین شخصیت اپنے گھر بلا کر بات چیت کرنے پر مجبور ہوگئی ۔ پی ڈی ایم کے اصل بانی بھی مولانا فضل الرحمن ہی ہیں ۔ یہ ایسا اپوزیشن الائنس ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ آزاد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتیں مختلف وجوہات کی بنا پر پیچھے نہ ہٹتیں تو ملک میں وہ کچھ ہوسکتا تھا جو 1947 کے بعد سے آج تک نہیں ہوا ۔ بہر حال یہ سب کے سامنے ہے کہ خصوصاً تبدیلی سرکار آنے کے بعد مولانا نے سیاسی سرگرمیوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ کردیا ۔ ملک کے کونے کونے میں جلسے ، ریلیاں ، اجتماعات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ایک موقع پر روائتی ریاستی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے مولانا کو نیب کے ذریعے دھمکانے کی کوشش کی گئی تو جے یو آئی نے اعلان کردیا کہ انتقامی کارروائی جن کے ایما پر کی جارہی ہے ، احتجاج بھی انہی کے خلاف ہوگا ۔ نیب نوٹسز کا جواب کورکمانڈر ہاؤس کے سامنے دھرنا دے کر دیا جائے گا ۔ اس اعلان کے بعد نیب اور نوٹس آج تک غائب ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اندازہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی خوامخواہ درد سر بن سکتی ہے ۔ دوسرے یہ بھی سوچا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی آسانی سے جیت جائے گی ۔ دھاندلی اور دھونس کی کوشش حکومت کی جانب سے کی گئی ۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کی واضح ہدایت کو روند کر پشاور جاکر نئے منصوبوں کا اعلان کیا ۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے بھی قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائیں ۔ گنڈا پور اور دیگر دندناتے رہے مگر پی ٹی آئی عوامی عتاب سے نہ بچ پائی ۔ اب ایسا بھی نہ نہیں اس تمام معاملے سے اسٹیبلشمنٹ لاتعلق ہوگئی ہے ۔ ایسے نیک ارادے ہوتے تو ای وی ایم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لئے مقتدر شخصیات براہ راست زور نہ لگاتیں ۔ یہ تاثر بھی پوری طرح درست نہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد جے یو آئی کے لئے جگہ بنائی گئی ۔ یقیناً اس پیش رفت سے جے یو آئی کو تقویت ملی ہے مگر انتخابی میدان میں اس نے اپنی جگہ خود بنائی ہے ۔ ان نتائج سے تمام سیاسی اور جمہوری قوتوں کو پیغام ملا ہے کہ ڈٹ کر میدان میں رہا جائے تو دھاندلی کا تدارک بھی کیا جاسکتا ہے ۔ کے پی کے سمیت پورا پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ۔ عوام کو اپنے نمائندے خود چننے کا پورا حق حاصل ہے ۔اسی دوران آصف زرداری کے ایک بیان نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے چھٹکارے کے لئے ان سے رابطہ کرکے فارمولے پوچھ رہی ہے ۔ اگرچہ اس حوالے سے ایک نامعلوم دفاعی ذریعے نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس شخص نے رابطہ کیا ہے ، زرداری اس کا نام بتائیں ۔ ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس ذریعے نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات بد قسمتی ہیں ۔ اس ردعمل کے باوجود یہی سمجھا جارہا ہے کہ آصف زرداری سے رابطے کئے گئے ہیں ۔سابق صدر کی جانب سے اس موقع پر ایسا کھلا اور تیز بیان یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کو مشکل میں ڈالنے والی بات ہے ۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے ایسا کرکے اپنا غصہ نکالا ہے۔ انہیں رنج ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے آپریشن بلوچستان سے لے پی ڈی ایم پر کڑا وار کرنے تک ہر معاملے میں بھرپور ساتھ دینے کے باوجود انہیں ان کی خدمات کا صلہ نہیں ملا ۔ الٹا مقدمات میں رگڑا جارہا ہے ۔ادھر دوسری جانب مسلم لیگ ن کے اندرونی حلقے بھی یہی تاثر دے رہے ہیں کہ ان سے بھی رابطے کئے جارہے ہیں ۔ ہوسکتا یہ سب سیاسی جماعتوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھنے کے لئے ہی ہو ۔ کوئی بڑی تبدیلی اس تک ممکن جب تک حالات کی خرابی کے اثرات براہ راست اسٹیبلشمنٹ پر نہیں پڑتے۔ کیونکہ عوام اور ان کے مسائل سے کسی کے لئے اہم نہیں ، قومی اور ملکی مفادات کی تشریح بھی اپنی اپنی ہے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات