صحافت کا آغاز تو انگریزی اخبارات کے لئے رپورٹنگ سے کیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں لیکن ا ردو بولنے اور لکھنے کی وجہ سے رزق میں کشادگی نصیب ہوتی محسوس ہوئی۔ لاہور کی گلیوں میں پیدا ہوکر جوان ہوئے کسی بھی پنجابی کی طرح مگر اردو زبان کے بے شمار الفاظ سے آج بھی ناواقف ہوں۔مذکورہ الفاظ میں شب یلدا بھی شامل تھا۔ 21دسمبر 2021کی رات نیند سے محروم ہوا سوشل میڈیا پر وقت گزاری کرتے ہوئے بالآخر علم ہوگیا کہ یہ دسمبر کی اس رات کو کہا جاتا ہے جو طویل ترین ہوتی ہے۔
قدیم ایران اور اس کی ثقافت کے زیر اثر علاقوں میں اس رات دیر تک جاگا جاتا ہے۔ خاندان کے تمام افراد آگ کاالائو جلاکر اس کے گرد جمع ہوتے ہیں۔غالبا یہ روایت آتش پرستوں نے متعارف کروائی ہوگی۔ سرد موسم کی طویل ترین رات میں روشنی اور حرارت کی تلاش جو بھرپور زندگی کی علامت تصور ہوتی ہیں۔اکثر گھرانے اس رات فارسی کے عظیم شاعر حافظ کے دیوان سے کوئی شعر نکال کر یہ جاننے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آئندہ برس کے لئے ان کے مقدر میں کیا لکھا ہے۔
شب یلداسے وابستہ روایات ورسومات مجھے بہت پسند آئیں۔آگ جلانے کی مگر ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔سردیوں کی آمد سے قبل ہی سرکاری محکموں نے ایک دوسرے کو جو مکتوبات لکھے تھے ان کی بدولت دریافت کرلیا تھا کہ نومبر سے فروری تک میرے گھر میں نصب ہیٹروں اور گیزروںکو گیس باقاعدگی سے میسر نہیں ہوگی۔حکومت نے وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ اگر گیس کے بجائے گھروں کو گرم رکھنے کے لئے برقی آلات سے رجوع کیا جائے تووہ بجلی کی قیمت میں رعایت فراہم کرے گی۔ مجھے خبر نہیں کہ مذکورہ وعدہ پر حقیقتا عمل ہوگا یا نہیں۔اپنے کمرے میں تاہم بجلی سے چلنے والا ہیٹر نصب کروالیا ہے۔اسے بے دریغ انداز میں چلائے رکھتا ہوں۔بل آئے گا تو بیوی کی ڈانٹ ڈپٹ ڈھٹائی سے برداشت کرلوں گا۔ شب یلدا گزرنے کے بعد اگرچہ امید یہ بھی باندھ لی کہ اداس کرنے والے اندھیرے کے دن تمام ہوئے۔آئندہ برس کو اب بھرپور توانائی کے ساتھ گزارنے کی تیاری کی جائے۔
عمران حکومت نے ویسے بھی مجھے گھر سے باہر نکلوانے کا اہتمام کررکھا تھا۔شب یلدا کے عین دوسرے دن بدھ کی سہ پہر چار بجے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس طلب کرلئے گئے۔ امید تھی کہ وہاں ساڑھے تین سو ارب کے نئے ٹیکس لگانے والا منی بجٹ پیش ہوگا۔حکومت کو یہ ٹیکس لگانے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی ہے کیونکہ اس کی دانست میں اب کی بار ہمارے ہاں گندم،چاول اور گنے وغیرہ کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔اس کی بدولت جو خوش حالی آئی اس سے شاداں ہوئے پاکستانی عوام ریکارڈ تعداد میں نئی موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ شہروں میں جو مہنگے ترین ریستوران ہیں وہاں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے صارفین کو کئی گھنٹے انتظار کرنا ہوتا ہے۔ عوام خوش حال ہوں تو انہیں ریاست کو توانا تر بنانے کے لئے اپنی اضافی آمدنی سے مزید ٹیکس بھی دینا چاہیے۔خوش حالی میسر ہوجانے کے بعد ریاست سے بجلی اور گیس کے رعایتی نرخوں کی توقع رکھنا بھی زیادتی ہے۔ خوش حالی آپ کو خودار بناتی ہے اور حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے والوں سے مہنگے داموں بجلی خرید کر صارفین کو نسبتا کم داموں فراہم کرنا ایک نوعیت کی خیرات ہی تو ہے۔خوش حالی پھیل جانے کے بعد ایسی خیرات کا جواز باقی نہیں رہا۔
خوش حالی پر واجب ٹیکسوں کے اطلاق کو یقینی بنانے والے منی بجٹ کی توقع میں بن سنور کر پارلیمان ہائوس پہنچ گیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں مگر زندگی نظر نہیں آئی۔ کافی انتظار کے بعد چند اراکین بالآخر جمع ہوئے تو اجلاس شروع ہوا۔ اس کا آغاز ہوتے ہی مگر پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔سپیکر کو طیش میں یاد دلایا کہ ایجنڈے پر کئی صدارتی آرڈیننس رکھے گئے ہیں۔ قانون سازی اس طرح تو نہیں ہوتی۔
سید نوید قمر 1988سے قائم ہونے والی ہر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ان جیسے تجربہ کار قانون ساز کو اب تک یہ دریافت کرلینا چاہیے تھا کہ عمران حکومت نے قانون سازی کے عمل کو تیز تر بنانے کے لئے نہایت کارآمدشارٹ کٹ دریافت کرلئے ہیں۔پارلیمان میں موجود دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور معاونت سے حکومت نے ایک اہم ریاستی ادارے کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون بارہ منٹ کی تاریخی عجلت میں منظور کروایا تھا۔اسکے علاوہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے بھی مختلف قوانین کا بھاری بھر کم پلندہ دونوں ایوانوں سے بغیر کسی بحث کے منظور ہوگیا۔ عمران حکومت کے کسی وزیر نے مذکورہ قوانین کو منظور کروانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے ناز نخرے نہیں اٹھائے تھے۔اس ضمن میں بنیادی ہوم ورک ہماری ریاست کے نگہبانوں نے کیا۔زمین ہموار ہوگئی تو متحدہ قومی موومنٹ کے پاکستان ورژن سے مستعار لئے وزیر قانون جناب فروغ نسیم صاحب مذکورہ قوانین منظور کروانے کے پوائنٹ مین بنادئیے گئے۔انہوں نے کمال مہارت سے اپنا فرض نبھادیا۔
اہم ترین قوانین کی تاریخی عجلت میں منظوری کے عمل میں دل وجان سے حصہ ڈالنے کے بعد سید نوید قمر اور دیگر اپوزیشن رہ نمائوں کو اب قانون سازی کی کتابوں میں واضح انداز میں لکھے ضوابط کی عمل داری نہ ہونے کی بابت احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔گزشتہ تین برس سے نیب کے ہاتھوں سہمی اپوزیشن جماعتوں نے سو پیاز اور سوجوتے کھانے کی جو روایت متعارف کروائی ہے وہ آئندہ کئی برسوں تک حکومت میں بیٹھی ہر جماعت کی معاون رہے گی۔ پارلیمان میں مسلسل جی حضوری دکھاتی اپوزیشن جماعتیں اگرچہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے روبرو اب بھی پارلیمان کی بالادستی اجاگر کرنے کو بے تاب ہونے کے ڈرامے رچاتی ہیں۔ کم از کم میں تو ان کی بڑھکوں پر اعتبارکرنے کو تیار نہیں ہوں۔
بہرحال اپنا خطاب مکمل کرنے کے بعد سید نوید قمر نے کورم کی نشان دہی کردی۔حکومت مطلوبہ اراکین دکھا نہیں پائی اور قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی ہوگیا۔ ہمارے نام نہاد نمائندوں کو مگر جمعرات کے روز بھی کام کرتا ہوا شمار کیا جائے گا۔وہ چھٹی کا بھی معاوضہ وصول کریں گے۔ کوئی تنکا توڑے بغیربھاری بھرکم تنخواہ اور مراعات سے فیض یاب ہونے والے یہ اراکین ان لاکھوں پاکستانیوں کے درد کا اندازہ کیسے لگاسکتے ہیں جو دن کے کئی گھنٹے خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود اپنے پیاروں کو دو وقت کی روٹی بھی فراہم نہیں کرسکتے۔
قصہ مختصر ہماری شب یلدا ختم ہونے کی نہیں اور اسے بھگانے کے لئے ہمارے پاس گیس بھی وافر مقدار میں موجود نہیں ہے۔دیوان حافظ اب ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں بھی موجود نہیں۔ اسی لئے تو ناصر کاظمی نے کئی برس قبل کہہ دیا تھا :دیکھ اس کالی رات کو دیکھ۔بزرگوں سے سنا ہے کہ یہ مصرعہ انہوں نے پاکستان کے پہلے دیدو ور یعنی فیلڈ مارشل ایوب خان کی لائی شب یلدا کے بارے میں لکھا تھا۔ میں اگرچہ انہیں سیاست سے لاتعلق رجعت پسند ہی تصور کرتا رہاہوں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت