ایک گزشتہ کالم میں وعدہ کیا تھا کہ ہندوستان کی راج نیتی میں‘ دھرم سے جُڑی سیاست کے منفی اثرات کا تجزیہ کیا جائے گا۔ اُس کالم کا عنوان غالب کے ایک مصرعے سے لیا تھا۔ مکمل مصرع ہے ’’زخم کے بھرنے تلک‘ ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا۔‘‘
غالب نے جن اہلِ عشق کا ذکر کیا ‘ اُنہی کی طرح ہندو انتہا پسند بھی‘ تاریخ سے جُڑے زخموں کو ہرا رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
آج کا کالم اِسی موضوع کا تسلسل ہے۔ برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کی حکمرانی ایک ہزار سال سے زیادہ پر محیط رہی۔ آزادی کے بعد ‘ ہندوستان میں آر ایس ایس نے سومنات کے مندر کی دوبارہ تعمیر کا مسئلہ اُٹھایا۔
کانگرس نے سرکاری خرچ کی ہامی نہ بھری۔ اِس انکار سے آر ایس ایس کو سیاست چمکانے کا سنہری موقع ملا۔دھرم کے پرچارک ‘ ہندوستان کے کونے کونے میں سومنات کی نوحہ گری کرتے رہے۔
مطالبہ تھا کہ ہندو دھرم سے ہونے والی زیادتی کا ازالہ ضروری ہے۔ ہر ہندو گھرانے سے کم از کم ایک اینٹ عطیہ کرنے کی اپیل ہوئی۔
اصل مقصد‘ محمود غزنوی کے ہاتھوں سومنات کے مندر کی تباہی اور بُت شکنی کی داستان سنا کر عوامی مقبولیت کا حصول تھا۔ کئی برس چندہ اکٹھا ہوتا رہا اور بالآخر عالیشان مندر کی تعمیر مکمل ہوئی۔
آر ایس ایس نے دھرم سے جُڑی‘ عیار سیاست سے سادہ لوح ہندوئوں میں مقبولیت حاصل کی۔ جب یہ معاملہ ٹھنڈا ہوا تو اِس جماعت نے شہنشاہ بابر کے دورِ حکومت سے متعلق ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا۔ کہانی گھڑی گئی کہ صوبہ یوپی میں واقع‘ ایک شہر ایودھیا‘ ہندو دیوتا‘ رام کی جائے پیدائش ہے۔
وہاں ’’جنم بھومی مندر‘‘ شہنشاہ بابر کے ہاتھوں مسمار ہوا اور عین اُسی جگہ بابری مسجد تعمیر ہوئی۔ دھرم کے نام پر نیا کھیل شروع ہوا اور آخر کار ایک دن انتہا پسند گروہوں نے بابری مسجد پر دھاوا بول دیا۔
ہندو مسلم فساد کو روکنے کے لئے انتظامیہ حرکت میں آئی اور عدالت نے بابری مسجد میں دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو عبادت سے روک دیا۔ ایل کے ایڈوانی اپنی کتاب My Country, My Lifeمیں ذکر کرتے ہیں کہ وہ سکول کے زمانے سے آر ایس ایس کے پرچارک تھے۔
یہ تنظیم ہندو نوجوانوں کی ذہن سازی کرتی تھی۔ آزادی کے بعد‘ اُس کے بطن سے‘ پہلے جن سنگھ اور بعد ازاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا۔ دونوں کی سیاست مذہبی جذبات اُبھارنے پر مرکوز رہی۔ سومنات کے پرانے گھائو کو‘ بابری مسجد کے تخیلاتی زخم سے جوڑا گیا۔ ایڈوانی نے ایک نئے منصوبے کے تحت‘ سومنات سے ایودھیا تک سفر کیا۔ مقصد ہندوئوں کے جذبات اُبھارنا تھا۔
دیومالائی مذہبی علامت کا استعمال کرتے ہوئے‘ ایڈوانی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ‘ یہ سفر ایک رتھ پر طے کیا۔ وہ راستے میں اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا مطالبہ مزید مقبول ہوا۔
بی جے پی اقتدار میں آئی تو اٹل بہاری واجپائی نے وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا۔ اِس حیثیت میں وہ افغانستان تشریف لے گئے۔ واپسی پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے‘ ایک دفعہ پھر‘ سومنات کا زخم تازہ کیا۔ اُن کی تقریر آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔
فرمایا کہ دورۂ افغانستان کے دوران‘ وہ غزنی جانا چاہتے تھے۔ میزبانوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کی کہ غزنی میں سیاحوں کے لئے کوئی دلکشی نہیں‘ مگر واجپائی‘ غزنی کو صرف اِس لئے دیکھنا چاہتے تھے کہ وہاں سے آنے والے مسلمان حکمران‘ محمود نے سومنات کا مندر توڑا تھا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اِس جگہ کا نام سُنتے ہی دل پر تیر چلتا ہے۔
یہ مذہبی جذبات اُبھارنے کی گھنائونی سیاست کا شاخسانہ تھا کہ ایک دن ہندوئوں کے بپھرے ہوئے ہجوم نے بابری مسجد کو مسمار کر دیا۔ مسجد شہید ہوئی مگر اُس کی جگہ رام مندر کی تعمیر شروع نہ ہو سکی۔ معاملہ ہندوستان کی اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت تھا۔
مودی کے موجودہ دورِ حکومت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے متنازع جگہ کو ہندوئوں کی تحویل میں دیتے ہوئے‘ مندر بنانے کی اجازت دی۔ مسلمانوں کی اشک شوئی کے لئے اُنہیں سرکاری طور پر مسجد کے لئے متبادل زمین فراہم کرنے کا فیصلہ سنایا۔
عدالتی حکم کے کچھ عرصہ بعد‘ چیف جسٹس ریٹائر ہوئے تو مودی سرکار نے اُنہیں صلے میں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ہندوستان کی اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس‘ ریٹائرمنٹ کے بعد‘ کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں اِس طرح فیض یاب ہوئے ہوں۔
سوشل میڈیا پر نظر ڈالی جائے توآئے دن سومنات اور بابری مسجد کے زخم کھرچ کھرچ کر ہندوئوں کے جذبات اُبھارنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نئی نئی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں صوبہ بہار میں ہزار سال پرانی‘ نالندہ یونیورسٹی از سر نو تعمیر ہوئی تو ایک نیا قصہ تخلیق کیا گیا۔ اِس مقام پر ایک درسگاہ کے آثار تو موجود تھے۔ نئی کہانی کے مطابق ‘ قطب الدین ایبک کے دور میں بہار اور بنگال پر فوج کشی کے دوران‘ بختیار خلجی کے ہاتھوں یونیورسٹی کی عمارت کے ساتھ ‘تین منزلہ لائبریری بھی تاراج ہوئی۔
ہاتھ سے لکھی ہوئی ہزاروں کتابوں کا بیش بہا علمی خزانہ مسلم فوج نے نذرِآتش کیا۔بھارتی حکومت اِن تخیلاتی داستانوں کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق غصب کرتی ہے۔
ہندوستان میں مسلمان اکثریت کے واحد صوبے کی حیثیت ختم کر کے‘ کشمیر کو مرکزی حکومت کے ماتحت کر دیا گیا۔کشمیر کا امن تباہ کرنے اور مذہب سے جڑی سیاست کاری‘ ہندوستانی سماج میں دراڑیں ڈال رہی ہے۔ مگر مودی حکومت کی ترجیحات میں فرق نہیں آیا۔
آئندہ الیکشن سے پہلے رام مندر کی تعمیر اور پوجا پاٹھ کا آغاز‘ ووٹ حاصل کرنے کے لئے‘ مودی حکومت کی راج نیتی کا اہم منصوبہ ہے۔
اب اُس ورلڈ ریکارڈ کا ذکر جو اُلٹا پڑ گیا۔ گزشتہ دیوالی کا تہوار منانے کے لئے نریندر مودی نے خاص طور پر‘ رام مندر کی زیرِ تعمیر عمارت کا انتخاب کیا۔ اُس جگہ پر ساڑھے نو لاکھ دیے جلائے گئے۔
یہ عالمی ریکارڈ تھا۔ دُنیا میں کبھی ایک مقام پر‘ ایک ساتھ اتنی تعداد میں چراغ روشن نہیں ہوئے۔ اِس واقعہ کا ہندوستان کے علاوہ عالمی میڈیا میں بھی تذکرہ ہوا‘ مگر حالات کی ستم ظریفی نے اِسے نیا رُخ دیا۔ عالمی ریکارڈ کو اہمیت ملنے کی بجائے‘ میڈیا میں ایودھیا کے شہریوں کی غربت کا تذکرہ چھایا رہا۔
کیمرے کی آنکھ نے دکھایا کہ غریب لوگ‘ جلتے چراغوں کا تیل‘ خطرہ اُٹھا کر برتنوں میں انڈیل رہے ہیں۔ ضرورت مند عوام نے اپنے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم مہنگائی سے ستائے لوگ‘ اِس تیل کو کھانے میں استعمال کریں گے۔
اِس واقعے میں ہندوستانی حکومت کے لئے ایک واضح پیغام ہے۔ مودی حکومت‘ تاریخ کے دیئے ہوئے حقیقی اور تخیلاتی زخموں کو کھرچنے کی بجائے‘ سماج کو جوڑنے پر محنت کرے تو عوام کی معاشی حالت میں آنے والی بہتری اُس کی مقبولیت میں اضافہ کر سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ