کتنا وقت انسانیت کے پاس باقی ہے۔۔۔تحریر: اوریا مقبول جان


ایک زمانہ تھا جب قیامت، دُنیا کے خاتمے اور سب کچھ فنا ہو جانے کی باتیں صرف مذہبی رہنما کیا کرتے تھے۔ دُنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جو اس کائنات کو فانی نہیں کہتا۔ کوئی اس کے خاتمے کے بعد ایک یومِ حساب، دوزخ و جنت پر ایمان رکھتا ہے اور کوئی اس بات کا دعویدار ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے نیک یا بَد اعمال کا صلہ اسی زندگی میں مل جائے گا یا پھر کئی ایک جنم ہوں گے جن میں وہ ایک جنم کی جزا و سزا اگلے جنم میں پائے گا۔ ایک سائنسی ذہن رکھنے والے کے نزدیک یہ باتیں تصوراتی، خیالی اور حقیقت کی دُنیا سے کوسوں دُور تھیں۔ زمانہ بدلا، انسان نے ترقی کی، سائنس نے اس کائنات کی وسعتوں میں حقیقتوں کی تلاش کا سفر کیا۔ لیکن آج جب یہ انسان اس کائنات کی پنہایوں کا تھوڑا سا اندازہ کر چکا ہے، تو دن بدن اس کی بے بسی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پہلی بے بسی تو یہ ہے کہ یہ کائنات اسقدر وسیع و عریض ہے کہ اسے صرف جاننے کیلئے ہی لاکھوں سال درکار ہوں گے، جب کہ کائنات کی وسعتوں تک مکمل رسائی تو آج کے ٹیکنالوجی کے دَور میں بھی دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ لیکن دوسری بے بسی پہلی سے زیادہ خوفناک ہے۔ وہ یہ ہے کہ دُنیا، جس پر انسان آباد ہے، اس کی اور حضرتِ انسان کی مہلت اب ختم ہونے والی ہے اور یہ کرۂ ارض اپنی طبعی مدت پوری کرنے کے بعد جلد تباہ وبرباد ہونے والا ہے اور وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اسرائیلی ماہرِ طبیعات ’’ابراہم آوی لوب‘‘ (Abraham Avi Lob)جو اس وقت نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دُنیا میں فزکس، فلکیاتی فزکس اور فلسفہ انتظامِ فلکیات (Cosmology) کا ماہر پروفیسر ہے اور ان معاملات میں ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہے، اس سے گذشتہ دنوں ہارورڈالمنائی (Harward Alumni) کے ایک لیکچر میں سوال کیا گیا کہ ہمارے پاس کس قدر مہلت باقی ہے تو اس نے جواب دیا کہ ہم اس ٹیکنالوجی کے عہد کے بڑھاپے تک آ پہنچے ہیں اور لگتا یوں ہے، کہ ہم مزید ایک صدی زندہ رہ سکیں گے جبکہ اگر آپ زیادہ سے زیادہ خوش فہمی شکار ہونا چاہتے ہیں تو اس مشہور صحافی رچرڈ گوٹ (Richard Gott) کی اس پیش گوئی پر یقین کر لیں جس کے مطابق ہم چند صدیاں اور زندگی گزار سکیں گے۔ یہ ہے جدید فزکس کا سب سے بڑا سوال۔ سائنس اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اللہ نے انسان، جانور، درخت، پتھر غرض جو کچھ بھی تخلیق کیا ہے ان سب کے خلیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر چیز کی اپنی ایک طبعی عمر ہے، جس کے بعد وہ بھی فنا ہو جائے گی۔ مثلاً انسان اوسطاً سو سال زندہ رہتا ہے تو بلیّاں 20 سے 25 سال۔ اسی طرح کچھ پتھر چند صدیوں بعد ریت ہو جاتے ہیں اور کچھ درخت زمین کا رزق بن کر کھاد کی صورت ہو جاتے ہیں۔ یعنی کسی کی عمر فزیکل قوانین کے مطابق صرف بیس سال ہے تو کسی کی عمر کئی کروڑ سال پر محیط ہے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ کئی کروڑ سال عمر والی اشیاء کا بھی اب اختتام آن پہنچا ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے سب کچھ جلد فنا ہونے والا ہے۔ ایک عرصہ ہوا، تینوں ابراہیمی مذاہب، اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے ماننے والے آخرالزمان (End Times) کے بارے میں مضامین لکھتے اور کانفرنسوں میں تقریریں کیا کرتے تھے لیکن اب دُنیا بھر کے ممالک میں سائنس دان خصوصاً ماہرینِ طبیعات اس موضوع پر لکھ بھی رہے ہیں اور کانفرنسیں بھی کر رہے ہیں۔ جدید سائنسی دُنیا کے ماہرین گذشتہ دو سالوں سے دُنیا میں حیران کن تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ ایسی تبدیلیاں جن کی وجہ سے اس کرۂ ارض پر بہت جلد حیات کا خاتمہ ہو جائے۔ ابراہم آوی لوب کا کہنا ہے کہ شاید ہم اس صورت میں بچ جائیں اگر اس زمین پر بسنے والے انسانوں میں سے کافی تعداد کسی اور سیارے پر مثلاً مریخ وغیرہ پر منتقل ہو جائے۔ ہم نے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھے ہوئے ہیں اور قریب ہے کہ یہ ٹوکری کسی سیارے کی ٹھوکر لگنے سے ٹوٹ جائے۔ ہماری دُنیا کے مسائل بہت بڑے بڑے اور لاینحل ہوتے جا رہے ہیں۔ گاڑیوں کی ایجاد سے پہلے ہم سوچا کرتے تھے کہ تانگوں اور گدھا گاڑیوں کا گوبر کہاں پھینکیں یا موبائل فون سے پہلے ہماری توانائیاں ٹیلیفون لائن بچھانے پر لگی ہوئی تھیں۔ یہ معمولی سی باتیں تھیں، لیکن آج ہم خوفناک مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جیسے دُنیا کو تباہی سے بچانے کیلئے ماحول کی تبدیلی کو بدلنے کے چیلنج سے نبردآزما ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کوئی بہتر ویکسین دریافت ہو جائے اور ہم موت کی آغوش میں جانے سے بچ جائیں یا پھر ہماری خوراک اور توانائی کی ضروریات آئندہ سالوں میں کیسے اور کہاں سے پوری ہوں گی۔ گذشتہ مسائل تو انسانی دسترس میں تھے، لیکن موجودہ مسائل تو ایسے ہیں کہ دُور دُور تک ان کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ ہماری انسانی تہذیب و تمدن کی تباہی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت بڑی عالمی جنگ سے منسلک فرمایا تھا جسے ’’ملحمتہ الکبریٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عیسائی اور یہودی اسے آرمیگاڈون کہتے ہیں۔ حدیث کے مطابق اس جنگ کا آغاز شام اور عراق کے دریا فرات سے ہو گا۔ آپؐ نے فرمایا ’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکل آئے جس پر لوگوں کا قتل و قتال ہو گا اور ہر سو میں سے ننانوے آدمی قتل کئے جائیں گے اور ان میں سے ہر آدمی کہے گا شاید میں ہی وہ ہوں جسے نجات حاصل ہو گی اور یہ خزانہ میرے قبضہ میں رہ جائے گا‘‘۔ (مسلم)۔ ایک روایت میں ہے، ’’پس جو اس وقت موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے‘‘۔ (متفق علیہ)۔ سیدنا ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں، ’’ہمیشہ لوگوں کی گردنیں دُنیا کے طلب کرنے میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتی رہیں گی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ برآمد ہو گا جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گے تو اس کی طرف روانہ ہوں گے۔ پس جو لوگ اس کے پاس ہوں گے وہ کہیں گے اگر ہم نے لوگوں کو چھوڑ دیا تو وہ اسے سارے کا سارا لے جائیں گے، پھر وہ اس پر قتل و قتال کریں گے، پس ہر سو میں سے ننانوے آدمی قتل کئے جائیں گے‘‘۔ (مسلم) آج سے پہلے ہم اس حدیث کی تعبیر یہ کیا کرتے تھے کہ چونکہ عراق میں تیل ہے اور تیل ان دنوں کرنسی کے گولڈ سٹینڈرڈ یعنی سونے کا نعم البدل ہے اس لئے یہی دراصل سونے کا پہاڑ ہے جس پر آخری بڑی لڑائی ہو گی۔ عراق کی دو جنگوں نے بھی اس سمت اشارے دیئے تھے، لیکن یوں لگتا ہے اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بہ حرف ثابت ہونے والی ہے۔ دریائے فرات جو کہ ترکی سے شام اور پھر عراق سے گزرتا ہے ، وہ اب تقریباً خشک ہو چکا ہے اور اس کے اردگرد کی آبادیاں ہجرت کر رہی ہیں جبکہ ترکی کے علاقے سے فرات کے خشک ہونے کے بعد وہاں ایک سونے کا پہاڑ نکلا ہے جو 99 ٹن سونے پر مشتمل ہے۔ جس کی مالیت 16 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ صرف ایک چھوٹے سے حصے سے نکلنے والا سونے کا پہاڑ ہے۔ (جاری)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز