حیدرآباد ( صباح نیوز)زرعی ماہرین، آباد گار، اور کاشت کاروں نے زراعت کی ترقی کو قومی سلامتی اور وحدت کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پانی چوری کو قومی جرم قرار، سیم نالوں کی تعمیر، گندم کی مقامی پیداوار کو یقینی بنایاجائے، مڈل مین، امپورٹ مافیا کی حوصلہ شکنی کی جائے، اسٹوریج کے نظام میں درستگی،زراعت کی قومی و صوبائی پالیسیوں میں آبادگار و کاشتکاروں کو نمائندگی دی جائے۔
یہ مطالبات جماعت اسلامی سندھ کے تحت حیدرآباد کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ سندھ زراعت کانفرنس میں کیے گئے۔کانفرنس میں سندھ بھر سے زرعی ماہرین، کاشتکار، آباد گار بڑی تعداد میں شریک تھے۔کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ زراعت سے خود انحصاری کا سفر نہیں طے کیاگیا تو اگلے 15 سال بہت سخت ہونگے۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی خطرے میں پڑ سکتاہے ، زراعت کا تحفظ قومی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔پیپلز پارٹی سیلاب متاثرین کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے اور بیبنیاد دعوے کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی خوشحالی کی بنیاد زراعت کی ترقی ہے، سندھ کی خوشحالی اس وقت ممکن ہے جب اسکے وسائل اسکے عوام پر خرچ کیے جائیں۔ سندھ کے گیس پیٹرول و دیگر قدرتی وسائل پر پہلا حق سندھ کے عوام کا ہے۔ذاتی مفادات کی خاطر زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ جماعت اسلامی کے انتخابی منشور میں زراعت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔لیاقت بلوچ نے زرعی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے جماعت اسلامی پر اعتماد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے م کہا کہ جماعت اسلامی کاشتکاروں کے حقیقی مسائل کو ہر فورم پر اٹھائے گی۔ آئی ایم ایف اور سودی نظام سے نجات جماعت اسلامی ہی دلاسکتی ہے۔
کانفرنس سے امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے خطاب میں کہا کہ زراعت انسانی زندگی سے جڑا ہوا عمل ہے، حکومتی غفلت سے خوراک اور قیمتوں کا بحران ہے۔32 ارب ڈالر کی غذائی مصنوعات امپورٹ کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ سب کچھ یہاں پیدا ہو سکتا ہے مہنگائی نے عوام اور کاشتکار کی بھی کمر توڑ دی ہے، حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی کہ اضافی گندم پیداوار کرنے والا ملک اب امپورٹ کررہا ہے۔کانفرنس سے سندھ آباد گار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز، ندیم شاہ جاموٹ، سندھ آبادگار فورم کے صدر افضل آرائیں، معروف زمیندار نواب زبیر ٹالپور، سید داؤد شاہ گیلانی، پرویز آرائیں، حافظ لطف اللہ بھٹو، یار محمد لغاری، حافظ طاہر مجید، تاج بلیدی، سمیت دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔
قبل ازیں سندھ میں زراعت کی مجموعی صورتحال اور الخدمت کی کارکردگی پر ابو الاعلیٰ شاہین نے تفصیلی پریزینٹیشن دی۔ کانفرنس کے اختتام پر شرکاء کی تجاویز سیزرعی اصلاحات کا اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے اہم مطالبات میں صحت بخش غذائی اجناس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے اقدامات،زرعی تحقیقی اداروں کی مضبوطی، کسانوں کو سبسڈی، کاشتکاروں کے لیے مشینری کی فراہمی، درست معاوضہ دلوانے، کیلے کی کاشت کو کیڑے سے بچانے، پانی کی تقسیم پر کمیٹی بنانے جیسے دیگر عوامل پر زور دیا گیا تھا۔