ارادہ تو یہ تھا کہ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں 18 اور19۔اکتوبر کے پروگرام مکمل کرکے فورا” پاکستان واپس لوٹ آؤں مگر جوں ہی میرے برطانیہ آنے کی خبر یو کے آئی ایم کے صدر ڈاکٹر حماد لودھی کو ملی تو انہوں نے اصرار کیا کہ میں برطانیہ کے قیام میں کچھ اضافہ کروں تاکہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے یہاں کے تین بڑے شہروں میں فنڈ ریزنگ کے پروگرام رکھے جا سکیں۔ میرے میزبان زبیر ملک نے بھی پوری قوتِ استدلال سے پروگرام میں تبدیلی پر زور دیا۔ سو ڈاکٹر حماد اور اُن کی ٹیم کے سامنے سرنڈر (surrender) ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ طے پایا کہ گلاسگو کے علاوہ مانچسٹر اور لندن کے پروگراموں میں شرکت کو بھی اپنے سفر کا حصہ بنا لیا جائے۔
اس تبدیلی سےایک اچھا تو یہ ہوا کہ نوجوان لیڈر ڈاکٹر حماد کے ہمراہ کئی گھنٹے طویل سفر کے دوران بہت بے تکلف ماحول میں یو کے اسلامک مشن کی ترجیحات، فیوچر ویژن اور چیلنجز کو سمجھنے کا موقع ملا اور دوسرا خیر کا پہلو یہ نکلا کہ ان کی ہمرہی میں پروفیسر خورشید احمد سے ملاقات کا انمول موقع میسر آ گیا۔ جمعرات 20.اکتوبر جب میں ملاقات سے فیضیاب ہونے پروفیسر خورشید صاحب کی رہائش گاہ پہنچا تو ڈاکٹر حماد اور یو کے اسلامک مشن کے سابق صدر ضیاءالحق صاحب بھی میرے ہمراہ تھے۔
بچپن ہی سے پروفیسر خورشید میرے آئیڈیل اور دل کے بہت قریب رہے ہیں۔اُن کی دانش،تجربہ علم اور رہنمائی دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کا ایک بڑا اثاثہ ہے۔
پروفیسر خورشید صاحب نے زندگی بہت نفاست اور سلیقے سے گزاری ہے۔وقت کی ترتیب و تدوین اور اسکا بہترین استعمال انکی زندگی کا ماحصل ہے۔وہ بہت خوبصورت لکھتے ہیں اور ان کی تمام تحریریں ماضی کے پس منظر میں نہیں،آج کو سنوارنے اور نکھارنے ہی سے متعلق ہوتی ہیں۔ ان کی گفتگو ،جب بھی سنی،اسے بہت متعین اور مربوط پایا۔ برطانیہ میں اسلامک فاؤنڈیش کا قیام ہو یا اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹیڈیز (آئی پی ایس) کا اجراء، اُن کا سارا فوکس ہمیشہ ذہن سازی، مستقبل کی آبیاری اور افکار کی نشو نما رہا۔ وہ ہمیشہ ادارے بنانے، انہیں پروان چڑھانے اور ان اداروں کو وقتی موسمی تھپیڑوں سے بچانے کی فکر مسلسل میں لگےرہے۔
وہ پاکستان سینٹ کے ممبر بھی رہے اور سینٹ میں ان کی، وہ تقاریر جو کتابی صورت میں موجود ہیں، دور اندیشی اور فکر مندی کا عمدہ شاہکار ہیں۔
اللہ نے انہیں غضب کا حافظہ دیا ہے۔ سالوں پہلے کے واقعات، تاریخوں اور جملوں سمیت، ان کے حافظے میں نقش رہتے ہیں۔
پروفیسر صاحب کی بینائی اب بہت متاثر ہو چکی ہے، صرف ایک آنکھ میں کچھ روشنی باقی ہے۔ چلنے میں انہیں واکر کی ضرورت ہے۔ زیادہ دیر بیٹھنا بھی اُن کے لئے دشوار ہے مگر یاداشت اور غور و فکر کی صلاحیتیں پوری طرح توانا و مضبوط ہیں۔
انہوں نے کمال شفقت سے ملاقات کا وقت بھی دیا اور گھنٹہ بھر التفات و محبت سے پاس بٹھائے رکھا۔ سابقہ ملاقاتوں کے کئی حوالے دئے،
اور کہا
“شکور تم نے اچھا کیا ملنے آگئے۔مجھے بےحد خوشی ہوئی ہے۔
کل ہی سلیم منصور خالد نے مجھے مولانا مودودی صاحب کی وہ ویڈیو
بھیجی ہے، جب انہوں نے تمہاری دعوت پر پنجاب یونیورسٹی تشریف لا کر سیرت پہ گفتگو کی تھی”
“تم لوگوں کی محنت رنگ لائی ہے اور اللہ نے الخدمت کے کام کو بڑی پزیرائی بخشی ہے۔ الخدمت اب دنیا بھر میں ایک پہچان (برینڈ) بن چکی ہے۔ اب اس کام کو مزید آگے بڑھنا چاہئے”
میں نے پوچھا
“ یورپ اور امریکا میں آگے بڑھنے کے لئے ہمیں کیا حکمت ِعملی اپنانی چاہئے”
کہنے لگے “اِن ملکوں میں الخدمت کے نام سے رجسٹریشن کروائیں اور ہر ملک کے حالات کو سمجھ اور جان کر کنٹرول مکینزم تیار کر لیں”۔
“ یو این کے اداروں میں بھی اب آپ کو الخدمت کی شمولیت کا سوچنا چاہئے۔
“سلیم منصور کا شکرگزار ہوں کہ وہ مجھے پاکستان اور تحریک کے حالات سے مسلسل با خبر رکھتا ہے اور آپ سب کے احوال معلوم ہوتے رہتے ہیں”۔
کئی اور موضوعات بھی زیرِ بحث آئے۔ یہ خوشگوار اور روح پرور ملاقات یقیناً دیر تک جاری رہتی اگر ہمیں ان کی صحت کی فکر لاحق نہ ہوتی۔
رخصت ہوتے ہوئے دل اور قدم دونوں بوجھل تھے۔ یہ کہنے کو دل نہیں مانتا کہ وہ چراغِ سحری ہیں ۔اللہ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ طویل زندگی عطا کرے اور ہم جیسوں کو
صورتِ خورشید جینے کی راہ سُجھا دے۔