لاہور(صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے پی ٹی آئی حکومت کی سوا تین سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر قوم کے سامنے رکھ دیا۔ 11صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ 38ماہ میں کس طرح بیڈ گورننس، مہنگائی، بے روزگاری، معیشت کی تباہی، وعدہ خلافیوں، یوٹرنز، ناکام خارجہ پالیسی، بدامنی، زراعت و صنعت کی تباہی، قومی اداروں کی تضحیک اور زوال، پارلیمنٹ کی بے توقیری کی تاریخ رقم کی۔ پی ٹی آئی کے دور میں سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کا نہ صرف تسلسل رہا بلکہ کئی شعبوں میں مزید تباہی آئی اور ملک دہائیاں پیچھے چلا گیا۔ بیرونی قرضوں میں گزشتہ 38ماہ میں 27ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ پیٹرول کی قیمت 95روپے بڑھ کر 138روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے۔بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ساڑھے پانچ روپے کا اضافہ ہوا۔ زراعت تباہ ہوئی، کپاس کی پیداوار 1.4کروڑ گانٹھوں سے 56لاکھ گانٹھوں تک پہنچ چکی ہے۔ چینی سکینڈل، آٹا بحران، ایل این جی اور پیٹرول سکینڈل میں مجموعی طور پر قومی خزانے کو لگ بھگ 500ارب کا نقصان ہوا۔ ملک میں 24فیصدپڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں جب کہ 70لاکھ منشیات کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ حکومت نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کوئی پروگرام متعارف نہیں کرایا۔ ماحولیاتی آلودگی کی عالمی درجہ بندی کے مطابق 180ممالک میں پاکستان 140ویں نمبر پر ہے۔ کراچی، لاہور، ملتان، حیدرآباد، پشاور سمیت بڑے شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس حکومت نے 12دفعہ ادویات کی قیمتیں بڑھائیں۔ ملک میں 37لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔
امیر جماعت نے وائٹ پیپر منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاری کیا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سراج الحق نے کہا کہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی مختصر کلام: ناکام، ناکام اور ناکام۔ ایک صحافی کے سوال پرکہ اگر پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی ایک ہی گملے کے پودے ہیں تو یہ گملہ کہاں لگایا گیا،
سراج الحق کا کہنا تھا صحافیوں اور قوم کو معلوم ہے کہ ان تینوں پودوں کی نشوونما کہاں پر ہوئی۔ سراج الحق نے صحافیوں کو بتایا کہ 11صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر میں جماعت اسلامی نے گزشتہ 38ماہ میں (اگست 2018تا اکتوبر 2021) پی ٹی آئی کی تمام شعبوں میں کارکردگی کا عمیق جائزہ لیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کارکردگی نہیں بلکہ ہر شعبے میں بدترین گورننس کی ایک مکمل تصویر ہے۔ اس وائٹ پیپر میں جماعت اسلامی نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت (25مارچ 2008 تا 24مارچ 2013) کے دور ان معاشی بدحالی کا بھی چارٹ مرتب کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت (5جون 2013 تا 31مئی 2018) کے دوران مختلف شعبوں اور خصوصی طور پر معیشت کی بحرانی کیفیت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے نہ صرف ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھا، بلکہ ملک کو مزید بحران کا شکار کیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی سوا تین سالہ کارکردگی کو ایک لائن میں بیان کرنا ہو تو ہم کہیں گے حکومت ناکام، ناکام اور ناکام ہے۔ اب تک کی کارکردگی سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس اہلیت اور ملک کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو معاشی ترقی کی شرح 5.5فیصد تھی جو اب سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 4فیصد پر جاچکی ہے۔ ڈالر کی قدر 123روپے سے 173روپے تک پہنچ گئی ہے۔ مجموعی قومی قرضہ 30ہزار ارب سے تقریباً 48ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ چکن، بناسپتی گھی، خوردنی تیل کی قیمتوں میں بالترتیب110فیصد، 85فیصد اور 83فیصد اضافہ ہوا۔ آٹے کا تھیلا سوا تین سو سے 600روپے، چینی 56روپے سے 100روپے، انڈے 97روپے فی درجن سے 168روپے، جب کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بکرے کا گوشت پونے آٹھ سو روپے سے 1150روپے، بڑے گوشت کی قیمت پونے چار سو سے 560روپے اور دودھ 85روپے سے 112روپے تک پہنچا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سٹیٹ بنک اور معیشت عملی طور پر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ملک پر دیگر مافیاز بھی حکمرانی کر رہے ہیں۔ چینی سکینڈل کی انکوائری ہوئی تو وزیراعظم کے دست راست اس میں ملوث پائے گئے۔ جن لوگوں نے شوگر ملوں کے لیے اربوں روپے کی سبسڈی لی اور پھر چینی کو غائب کر کے مصنوعی قلت پیدا کی اور عوام سے ناجائز منافع کمایا، ان میں سے اکثریت وزیراعظم کے قریبی ساتھی یا ان کے اتحادی ہیں۔ انکوائریوں کے نتیجے میں جن لوگوں کو سکینڈلز کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ان کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ آٹا بحران پیدا کرنے والے بھی حکومت میں شامل ہیں۔ دسمبر 2019 میں گندم مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی، تو حکومت نے گندم مافیا کے ہاتھوں مجبور ہو کر آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیا۔ اس ضمن میں حکومت پنجاب نے 78ارب روپے کی سبسڈی سمیت دیگر ذرائع سے مافیاز کو فائدہ پہنچایا اور قومی خزانے کو 220ارب کا نقصان پہنچایا۔ 2020میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب اوگرا نے پیٹرول کی قیمتوں میں 7روپے فی لیٹر کمی کی منظوری دی، لیکن حکومت کی نااہلی کے سبب پیٹرول مافیا نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملک میں پیٹرول کی قلت پیدا کر دی۔ وزیراعظم کے نوٹس لینے پر بحران مزید سنگین ہو گیا۔ بالآخر حکومت نے مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اس بحران کے نتیجے میں ملک کو 25ارب کا نقصان پہنچا۔ ملک میں ٹماٹر کا بحران آیا۔ مارکیٹ میں ٹماٹر اور پیاز کی قیمت 400روپے اور 100روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ توانائی کا سکینڈل آیا اور تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 11اپریل 2020 کے پاور سیکٹر سیکنڈل میں 100ارب روپے کی کرپشن ہوئی۔ ایل این جی بحران کی وجہ سے قومی خزانے کو 100ارب سے زائد کا نقصان پہنچا۔ ان بحرانوں نے تحریک انصاف کی قابلیت اور گورننس کی قلی کھول دی۔ پنڈوراپیپرز میں وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے وفاقی وزرا کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے وفاقی وزرا سمیت 13اراکین پارلیمنٹ کی بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں ، کاروبار اور اثاثہ جات ہیں، مگر وزیراعظم نے پنڈوراپیپرز میں ملوث افراد اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شامل وزرا کے بیرون ملک اثاثہ جات کی منی ٹریل تاحال نہیں مانگی۔
وائٹ پیپر کے مطابق تعلیم کے شعبے میں ناقص کارکردگی سے تعلیمی نظام برباد ہوا اور طلبہ و طالبات رُل گئے۔ مدارس اور اس کے نصاب میں بہتری کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے اور ایک نصاب بنانے کے نام پر نصاب سے قرآنی آیات اور احکامات خارج کر دیے گئے۔ کھیلوں میں تنزلی آئی۔ کھیلوں کے میدانوں میں اضافے کے بجائے ایک وفاقی وزیرنے سینما گھروں کی تعداد 127سے بڑھا ایک ہزار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے معاملے میں وزیراعظم بڑے دعوے کر رہے تھے، مگر اب انھوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ملک میں 40فیصد تعلیم یافتہ خواتین روزگار سے محروم ہیں۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں خواتین اور بچوں سے ریپ اور قتل کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ملک میں 37لاکھ بچے چائلڈ لیبر، 20لاکھ بچے ڈومیسٹک لیبر جب کہ 12لاکھ بچے سٹریٹ چائلڈ ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں قومی ادارے تباہی سے دوچار ہوئے۔ ریلوے کا خسارہ 40ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ ریلوے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے کم ہوکر 72ہزار رہ گئی ہے۔ سٹیل مل کو مزید 160ارب روپے کا نقصان ہوا اور یہ قومی ادارہ بند ہو چکا ہے۔ پی آئی اے مسلسل خسارے کا شکار ہے۔
سراج الحق نے وائٹ پیش کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے کشمیر پالیسی سے انحراف اور پسپائی اختیارکی۔ بھارتی حکومت کے کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے پر حکومت نے معذرت خواہانہ لہجہ اپنایا۔ دوسری جانب گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑ کر کشمیر پر پاکستانی موقف کو کمزور کیا گیا۔ حکومت نے بالاکوٹ حملے پر خاموشی اختیار کی۔ پی پی اور ن لیگ کے تعاون سے قوانین منظور کرانے کے باوجود پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔ طالبان اور امریکہ مذاکرات میں سہولت کاری فراہم کرنے کے باوجود پی ٹی آئی نے پاکستان کے لیے کوئی فائدہ نہیں لیا۔ امریکی صدر وزیراعظم سے فون پر بات تک کرنے کو تیار نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ وزیراعظم نے سعودی عرب، ترکی، ملایشیا اور چین سے تعلقات کو خطرات سے دوچار کیے رکھا۔ پہلی مرتبہ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر کشیدگی پیدا ہوئی۔ وزیراعظم نے ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا دعویٰ کیا، مگرسٹیل مل سے 4500اور پی آئی اے 2ہزار ملازمین کو سبکدوش یا ریٹائرڈ کیا۔ 50لاکھ مکانات تعمیر کرنے کا وعدہ، نظام احتساب و انصاف لانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نیب ایک سفید ہاتھی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ براڈ شیٹ کیس ہارنے پر نیب کی وجہ سے قومی خزانے کو سوا 7ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ صوبہ پنجاب میں تین سال میں سات آئی جی تبدیل ہوئے۔ آزادی صحافت نشانے پر رہی۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام پر ذرائع ابلاغ پر جرمانے اور صحافیوں کی زباں بندی کی کوششیں ہوئیں۔ این ایف سی ایوارڈ اور پانی کی تقسیم پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں مسلسل چپقلش جاری ہے۔ ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل ہوچکا ہے۔ موجودہ حکومت نے 58صدارتی آرڈیننس جاری کیے۔ وزیراعظم قومی اسمبلی کے 259اجلاسوں میں سے صرف 29میں شریک ہوئے۔ وزیراعظم نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ جب کہ بہاولپور کو صوبہ بحال کرنے کا اعلان کیا جو تاحال پورا نہ ہو سکا۔کراچی بے یارومددگار ہے۔ قبائلی علاقوں سے بے وفائی کی گئی۔ دونوں کے لیے فنڈز کے اعلانات صرف کاغذوں تک محدودرہے۔ سول سروس خطرے میں ہے۔ تین سال میں صوبہ پنجاب میں 4چیف سیکرٹری تبدیل ہوئے۔ مقامی حکومتوں کو ختم کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ ہوئی، سی پیک پر سست رفتاری پر چین نے تحفظات کا اظہار کیا۔چینی انجینئرز پر خودکش حملے ہوئے۔ پی ٹی آئی کے دور میں غیر اسلامی قانون سازی ہوئی۔ تحفظ ناموس رسالت پر عاشقانِ مصطفی کے ساتھ تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ عائلی قوانین اسلامی اصولوں کے متصادم تیار ہوئے۔ وزیراعظم نے جو یوٹرن لیے ان میں سے کشکول توڑنے کا دعویٰ تھا۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ تھا اور فوج کے سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ تھا۔ وزیراعظم نے کابینہ مختصر رکھنے کی مثالیں دیں مگر خود وزیراور مشیروں کی فوج ظفر موج بھرتی کی۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ ترقیاتی فنڈز استعمال نہیں کریں گے مگر انھوں نے پی ٹی آئی کے ممبران پچاس پچاس کروڑ کے سالانہ ترقیاتی فنڈز جاری کیے۔ پی ٹی آئی کے دور میں سینیٹ انتخابات میں تاریخ کی بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن سے فیصلہ آنے قبل اپنے ایک ارب پتی وفاقی وزیر کو قومی اسمبلی سے استعفیٰ دلوا کر سینیٹ کا ممبر بنوایا۔سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے تمام ساتھی پی ٹی آئی کے دور میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔پی پی اور ن لیگ کی کارکردگی بتاتے ہوئے
سراج الحق نے کہا پی پی کو ورثے میں 4.1فیصد جی ڈی پی ملا جو کہ 3.6فیصد پر ختم ہوا۔ پی پی کے دور میں ڈالر کی قیمت 63روپے سے 99روپے پر جا پہنچی۔ بیرونی قرضے 46ارب ڈالر سے 61ارب تک پہنچ گئے اور ملک کا مجموعی قرضہ 6ہزار ارب روپے سے 14.5ہزار کے قریب پہنچ گیا۔ ن لیگ کے دور میں معاشی ترقی کی شرح 3.6فیصد سے 5.5فیصد تک گئی۔ تاہم ڈالر کی قدر 98.5روپے سے 116روپے کے قریب پہنچ گئی۔ بیرونی قرضے 61ارب ڈالر سے 95ارب ڈالر جب کہ مجموعی قرضے 14ہزار ارب روپے سے 30ہزار ارب تک چلے گئے۔ انھوں نے کہا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ تینوں نام نہاد بڑی جماعتیں مکمل طورپر فلاپ ہو گئی ہیں۔ اب عوام کے پاس صرف جماعت اسلامی پر ہی اعتماد کرنے کا آپشن بچا ہے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ اگر عوام نے جماعت اسلامی کو موقع دیا تو اللہ کی مدد و نصرت سے پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالیں گے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ جماعت اسلامی کے پاس ملک کے مسائل کے حل کا کون سا نسخہ ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم اسلام کے زریں اصولوں کو اپنا کر ہی اس مملکت خداداد کو عظیم فلاحی ریاست بنائیں گے اور عوام کے مسائل حل کریں گے۔