پاکستان کے با شعور اور غیور عوام نے اپنی آزادی کے 75ویں سال میں 14اگست سے 28روز قبل امریکی بالادستی قبول کرنے سے ببانگ دہل انکار کردیا ہے۔ بھنگڑوں، آتش بازیوں، علاقائی رقص کی صورت میں ایک دوسرے کو ڈائمنڈ جوبلی جشنِ الماسی کی مبارکباد بھی دی ہے۔
یہ ضمنی انتخابات دراصل ریفرنڈم تھے۔ پنجاب کے مختلف مزاج رکھنے والے 20انتخابی حلقوں میں پاکستانیوں کی بھاری اکثریت نے ووٹ کی پرچی کے ذریعے باقاعدہ اپنی تمنّاؤں کا اظہار کردیا ہے کہ وہ 1۔ اعلیٰ عہدوں پر کرپٹ افراد کو براجمان نہیں دیکھنا چاہتے۔2۔ حکمرانوں کی فسطائیت کو برداشت نہیں کرتے۔3۔ پارلیمنٹ کو، صوبائی اسمبلیوں کو خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔4۔وفاق اور صوبوں میں ایسی حکمرانی چاہتے ہیں جو عام لوگوں کی اقتصادی حیثیت کے مطابق اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرے اور دکانداروں کو من مانی نہ کرنے دے۔5۔ سیاست میں غیر سیاسی ادارے مداخلت نہ کریں۔6۔ پولیس، رینجرز حکمرانوں کے غیر آئینی، غیر قانونی احکام کی تعمیل نہ کریں۔7۔ اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے۔ آئی ایم ایف اور دوسرے اداروں سے قرضے لے کر ملک کو بیرونی طاقتوں کے پاس گروی نہ رکھا جائے۔8۔ امریکہ سمیت کسی طاقت کو پاکستان پر بالادستی قائم نہ کرنے دی جائے۔9۔ ملک میں قانون کا نفاذ سب کیلئے یکساں ہو۔10۔اعلیٰ عدالتیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں۔11۔بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور مودی کی مسلمان دشمن پالیسیوں کے خلاف دنیا بھر میں موثر آواز بلند کی جائے۔
یہ تو دنیوی معاملات ہوگئے۔ دین مقدس اسلام کے حوالے سے بھی ہزاروں پاکستانیوں نے آواز میں اپنی بلند آواز ملائی۔ پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ۔ تیرا میرا رشتہ کیا۔لا الہ الا اللہ اور توہین رسالتﷺکے نازک معاملے پر اقوام متحدہ میں جو قرارداد منظور کی گئی۔ اسلامو فوبیا کیلئے عالمی فورموںپر جو موقف اختیار کیا گیا۔ اسے بھی سب سے بڑے صوبے کے ہزاروں کلمہ گوؤں نے اپنا موقف مان لیا۔
پاکستان کے عوام کو جب بھی پُرامن، منظّم انداز میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا گیا ہے۔ انہوں نے اسی طرح اپنے مافی الضمیر کو بیان کیا ہے۔ 75سالہ تاریخ کے کئی فیصلہ کن موڑ اس کی گواہی دیتے ہیں۔2022کے اس عوامی اُبھار میں موبائل فون پر موجزن سوشل میڈیا نے بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تحقیقی ادارے، یونیورسٹیاں، میڈیا اپنے طور پر یقیناً اس لہر، ان مناظر کا معروضی جائزہ لے رہا ہوگا۔ کسی بھی پارٹی کے کارکن یا طرفدار کی حیثیت سے نہیں اس منظر نامے کا پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے متحرک ہونے، مصروف رہنے کے حوالے سے جائزہ لینا چاہئے کہ ان کے ذہنی رجحانات کیا ہیں۔ دونوں طرف سے کن آفاقی نظریات، کن مذہبی خیالات،کس سماجی فکر و نظر کا پرچار کیا گیا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ پرانی انتخابی مہموں والا معاملہ نہیں تھا۔ جب پارٹی لیڈروں کی تقریریں صرف انتخابی حلقوں تک محدود رہتی تھیں۔ اب الیکٹرانک میڈیا اور موبائل فون کے ذریعے پورا پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی بھی اپنے اپنے پسندیدہ لیڈر کی پوری پوری تقریریں سن رہے تھے۔ صرف بالغ افراد نہیں۔ اب بچے بھی اس سیاسی ابھار میں شریک ہیں۔ وہ سیاسی جلسوں میں بھی شرکت کرتے رہے ہیں۔ چینلوں کے سامنے بھی اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھے رہے ہیں۔ پولنگ کے دن بچوں نے ہی بڑوں کو جگایا اور ووٹ ڈالنے پہنچایا۔ مارچ سے اب تک کے یہ ہفتے پاکستان کی تاریخ میں بیداری کے ہفتے کہلائیں گے اور یہ ڈائمنڈ جوبلی کے دنوں میں واقع ہورہے ہیں۔ ایک طرف ایک سیاسی پارٹی تھی۔ دوسری طرف 12سے زیادہ سیاسی جماعتیں۔ جن کے پاس وفاقی حکومت بھی ہے اور پنجاب حکومت بھی۔ یہ تجزیے تو ہورہے ہیں کہ اس معرکے میں مسلم لیگ(ن) کوتنہا کیوں چھوڑا گیا۔ بارہ جماعتوں کے سربراہ اور دوسرے عہدیداروں میں بڑے بڑے شعلہ بیاں مقرر ہیں۔ جو لوگوں کے دلوں کو گرماسکتے ہیں۔ وہ ان جلسوں میں کیوں نظر نہیں آئے۔ میڈیا کے ذریعے تو یہ تقریریں واہگہ سے گوادر تک سنی جارہی تھیں۔ اپنے ہم خیال ہم وطنوں تک آواز پہنچانے کے اس موقع کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے کیوں استعمال نہ کرنا چاہا۔
آسمان کی آنکھ نے دیکھا کہ ہوا پہلے کس کے موافق تھی۔ الیکشن کمیشن کے کیسے فیصلے آرہے تھے۔ اعلیٰ عدالتیں آدھی رات کو کیا احکامات دے رہی تھیں۔ تحریک عدم اعتماد ہو یا پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب۔ پھر 25مئی کو پنجاب پولیس اور اسلام آباد رینجرز نے اپنی طاقت کا کس طرح اظہار کیا۔ 17جولائی کو دونوں طرف کے حامی ان حلقوں میں اس بڑی تعداد میں نکلے کہ غیر سیاسی طاقتیں عجز کا شکار ہوگئیں۔ ووٹ نے اپنی طاقت دکھائی۔
میں نے اس سارے منظر نامے کو بڑے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں جو پہلے مایوس ہوجاتا تھا کہ عوام عافیت پسندہوگئے ہیں۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئےباہر نہیں نکلتے۔ اپنی عمر کے آخری حصّے میں مجھے تو یہ اطمینان ملا ہے کہ عوام کو جگانے والا کوئی ہو تو وہ ضرور گھر سے باہر آتے ہیں۔ انہیں یہ خدشہ نہ ہو کہ ان کے ساتھ پھر کوئی فریب ہوگا۔
تحقیقی اداروں کےلئے غیر جانبداری سے تجزیہ کرنے اور حقائق جاننے کا یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اسباب تلاش کریں کہ مارچ میں عمران خان کی مقبولیت کتنے پست درجے میں تھی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے وہ مسلسل بلندیوں کی طرف کیوں پرواز کررہی ہے۔ جمہوریت میں عوام خود فیصلہ سازی میں شریک رہنا چاہتے ہیں۔ ان کی مرضی پر اگر باہر سے کوئی مرضی مسلط کی جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ پھر جب اچھی حکمرانی بھی نظر نہ آئے ۔ مہنگائی بڑھے جارہی ہو۔ مسلسل جھوٹ بولا جائے تو ان کی برہمی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اس عوامی ابھار کے محرّک عمران خان ہیں۔ انہوں نے محنت کی ہے۔ اس کا ثمر انہیں مل رہا ہےلیکن اب عوام کی توقعات اور وقت کے تقاضے بڑھ گئے ہیں۔ کیا عمران خان یہ توقعات پوری کرسکیں گے۔ عوام نے ان کے بیانیے کو ووٹ میں بدل دیا ہے۔ اب عمران خان کو عوام للکار رہے ہیں کہ وہ اپنے بیانیے کو ایک سسٹم میں بدلنے کے لئے آئندہ دس پندرہ سال کا لائحہ عمل بنائیں۔ گزشتہ پونے چار سال کی کارکردگی اتنی مثالی نہیں تھی۔ یہ اچھی بات ہے کہ انہیں منحرفین سے نجات مل گئی ہے۔ منحرفین کو اس انتخابات میں جو سبق ملا ہے اب کسی اور کو پارٹی وفاداری تبدیل کرنے سے پہلے بہت سوچنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو سب اداروں پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کیلئے بہت فعال ہونا ہوگا۔ وقت اب عمران خان سے سنجیدگی تدبر اور متانت کا تقاضا بھی کررہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ