اضطراب،ہمارے ملک کے عوام اور خواص۔۔حمیرا طارق


میں ایک ایسے ملک کی شہری ہوں جس میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں۔ لوگوں کی پہلی قسم خواص پر مشتمل ہے جبکہ دوسری قسم کے لوگ عوام کہلاتے ہیں۔ خواص ایک ایسی مخلوق ہے جو کہ اس ملک کی کل آبادی کا صرف ایک فی صد ہے لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کی سہولیات اور آسائشوں کے “بلا شرکت عوام” حق دار یہی لوگ ہیں۔ ملکی اقتدار اور وسائل پر انہی لوگوں کا قبضہ ہے۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ حکمرانی پر قبضہ قائم رکھا جائے اور عوام کو جھوٹے خواب دکھا کر اپنا الو سیدھا کیا جاتا رہے۔ اس ملک کے عوام جو کہ کل آبادی کا ننانوے فیصد ہیں خواص کے جھوٹے وعدوں اور نعروں کے فریب میں آکر ہر موقع پر بے وقوف بنتے رہتے ہیں۔ اور انہی لوگوں کو بار بار ووٹ دیتے رہتے ہیں۔ یہ عوام اتنے سادہ ہیں کہ کبھی ان کو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر بےوقوف بنایا جاتا ہے اور کبھی ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا جھوٹا وعدہ کر کے دھوکا دیا جاتا ہے۔
کہیں کتابوں میں لکھا ہوا پڑھا تھا کہ ہمارا ملک ایک آزاد ملک ہے اور اس میں بسنے والے تمام لوگوں کے حقوق برابر ہیں لیکن جب عملی زندگی سے واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ آزادی اور برابری کے الفاظ صرف کاغذوں میں ہی درج کرنے کے لئے ہیں عوام کی زندگیوں سے ان الفاظ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خواص جیسی سہولیات اور آسائشوں کا حصول اس ملک کے عوام کا استحقاق ہر گز نہیں ہے۔
چند ذاتی مشاہدات اور تجربات نے (جو میں آپ سے شئیر کروں گی ) میرے ذہنی افق پر مذکورہ بالا منظر نامے کی تشکیل پذیری کے لئے بنیادیں فراہم کی ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ میری طرح اس ملک کے دیگر عوام بھی ایسے ہی تجربات اور مشاہدات سے گزر کر اپنے ذہنوں پر اس طرح کے منظر نامے ترتیب دے رہے ہوں گے۔
باغ آزاد کشمیر کا ایک مشہور شہر ہے۔ ارجہ کے مقام سے باغ شہر کی طرف جانے والی شاہراہ نالہ ماہل کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی ہے۔ ارجہ سے باغ تک مین روڈ پر بنے ہوئے پلوں کے علاوہ نالہ ماہل پر بھی بہت سے بڑے بڑے آر سی سی پل بنے ہوئے ہیں جو دوسری طرف کے علاقوں کی لنک روڈز کو باغ شہر کی طرف جانے والی مین روڈ سے ملاتے ہیں۔ یہ پل نہ صرف اس علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو آمد و رفت کی سہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم ضلع سدہنوتی اور پونچھ کے لوگ ان پلوں کو دیکھتے ہیں تو یہ پل خوشی کے ساتھ ساتھ ہمیں احساس محرومی کا شکار بھی کر دیتے ہیں۔ ہمارے اذہان پر “احساس عوامیت” کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ صرف پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر بنے ہوئے اتنے بڑے بڑے پانچ پل یہ ظاہر کرتے ہیں نالہ ماہل میں پانی کے ساتھ ساتھ خواص کی کرم نوازی کے دریا بھی بہتے رہے ہیں۔
ہاڑی گہل کے مقام پر ایک بڑے آر سی سی پل کے بلکل قریب صرف چند میٹر کی دوری پر ایک معلق پل بھی بنا ہوا نظر آتا ہے جو کسی خلائی مخلوق کی ملکیت بتایا جاتا ہے۔
ایک تو اٹھتی ہی نہیں یہ گھنگور گھٹا
اور جو اٹھتی ہے تو دریا پہ برس جاتی ہے
ہم ضلع سدہنوتی کے لوگ گزشتہ چالیس سال سے ایک پل کی تعمیر کے لئے خواص کی توجہ کے حصول کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن خواص کی کرم نوازی کے بہتے ہوئے دھاروں کا رخ اپنی طرف موڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ پل ضلع سدہنوتی کو ضلع پونچھ کے ساتھ ملانے کے لئے گوئیں نالہ پر تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے جس کی لمبائی زیادہ سے زیادہ چالیس میٹر ہو گی۔ اس پل کے دونوں اطراف میں پونچھ اور سدہنوتی سے آنے والی سڑکیں بن چکی ہیں لیکن پل نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ آپریشنل نہیں ہو سکا۔ نمب گوراہ سے گزرنے والا یہ منصوبہ اگر پوری طرح آپریشنل ہو جائے تو ضلع پونچھ اور ضلع سدہنوتی کے صدر مقامات پلندری اور راولاکوٹ کے درمیان گاڑیوں کے لئے فاصلہ تقریبا پینتیس کلو میٹر کم ہوجائے گا۔ جس سے عوام کو سفری سہولیات ملنے کے علاوہ روزانہ لاکھوں روپے کے پٹرول اور ڈیزل کی بچت بھی ہو سکتی ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کیا جانا ضروری ہے کہ مذکورہ پل بہ مقام چھیتروڑی، بانڈی جو ضلع پونچھ کے حلقہ نمبر پانچ اور ضلع سدہنوتی کے حلقہ نمبر چھ کے عین سنگم پر واقع ہے۔ اس پل کی تعمیر کے لئے متعدد بار سروے بھی کئے گئے اور انتظامی منظوری بھی دی گئی مگر ہر بار یہ منصوبہ روایتی عدم توجہی کی نذر ہو گیا۔ اور عوام علاقہ کو “وعدہ فردا” کی گولی سے نوازا گیا۔ عوام الناس آج تک ایک طویل فاصلہ طے کرنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر دو تصاویر وائرل ہوئی ہیں جن میں آزاد کشمیر کے صدر اور اسمبلی کے سپیکر کے لئے دس دس کروڑ روپے سے زائد مالیت کی لگژری گاڑیوں کی خریداری کے نوٹیفکیشن جاری ہونے کا دعوٰی کیا گیا ہے۔ چوں کہ حکومتی ذرائع نے ابھی تک ان خبروں کی تردید نہیں کی اس لئے یہ خبریں درست ہی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ خبریں کس طرح ہماری “مجبوری عوامیت” پر تازیانے برسا رہی ہیں اس کا اندازہ صرف ہم عوام ہی لگا سکتے ہیں خواص کے دماغوں میں ان تازیانوں کے درد کو محسوس کرنے والا دماغی حصہ بنا ہی نہیں ہوتا۔ چونکہ ہمارا تعلق عوام سے ہے اس لئے ہم عوام کو ہمارے ہی ٹیکسز سے خریدی گئی ان گاڑیوں میں بیٹھنا تو درکنار ہمیں ساری زندگی ایسی گاڑیوں کو چھونا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اور یہ خواص ہمارے ٹیکسز کے ریونیو کو بے دریغ اسی طرح کی نئے سے نئے ماڈل کی مہنگی گاڑیوں اور دیگر سامان تعیش کی خریداری پر صرف کرتے رہتے ہیں۔
قارئین کرام! ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ میں صدر اور سپیکر سے یہ مطالبہ کرنے کا حق بھی نہیں رکھتی کہ “جن پرانی گاڑیوں کو آپ نے نا پسند فرما کر نئی گاڑیاں خریدنے کا پروگرام بنایا ہے ان پرانی گاڑیوں کو ہی بیچ دو اور حاصل ہونے والی رقم سے ہمیں یہ پل بنوا کے دے دو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی”۔
میرے گاؤں نمب گوراہ تحصیل پلندری میں 1935 میں ایک پرائمری سکول قائم کیا گیا۔ اس پرائمری سکول کو پینتالیس سال گزرنے کے بعد مڈل کا درجہ دیا گیا۔ اتفاق سے اس وقت حیات خان ملک کے صدر تھے جن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ان کا تعلق بھی عوام سے تھا۔ اس کے بعد سے آج تک مزید بیالیس سال گزر چکے ہیں وہ مڈل سکول آج تک مڈل درجے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے قیام کے ستاسی سال بعد تک یہ سکول ہائی کا درجہ نہیں پا سکا۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ سکول “عوام” کے علاقے میں بنا ہوا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے علاقے سے صرف ایک سو کلو میٹر دور ایک ایسا علاقہ موجود ہے جس میں 1960 تک صرف گیدڑ اور سور رہتے تھے۔ یہ گیدڑ اور سور آس پاس کے علاقوں سے مرغے اور فصلیں چھپا کر کھاتے رہتے تھے۔ 1960 کے بعد اس علاقے پر خواص کی نظر کرم پڑ گئی جس سے اس علاقے کی قسمت جاگ اٹھی۔ خواص کی نظر کرم کے طفیل آج یہ علاقہ دنیا کے ایک جدید ترین شہر کا روپ دھار چکا ہے۔ جدید ترین رہائشی عمارات، اعلی معیار کے جدید ترین ہسپتال، بڑی بڑی یونیورسٹیاں، عظیم الشان شاپنگ پلازے، انتہائی آرام دہ اور دیدہ زیب ذرائع مواصلات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ادھر آسائشوں اور سہولیات کی ایک کہکشاں اتر چکی ہے۔ اس کہکشاں کو دیکھ کر خواص کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی رہتی ہیں اور عوام کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اب اس بستی میں جو لوگ آباد ہیں وہ کبھی عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا بہانہ بنا کر اور کبھی آئی ایم ایف کی شرائط سے ڈرا کر عوام پر طرح طرح کے ٹیکسز لگا کر ریونیو اکٹھا کرتے رہتے ہیں اور آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے قرضے حاصل کر کے ڈالروں کی صورت میں دولت کے انبار اپنے غیر ملکی اکاؤنٹس میں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے جمع کرتے رہتے ہیں۔ اور اس ملک کے عوام کے حصے میں صرف جھوٹے وعدے اور اچھے وقتوں کا انتظار ہی آتا ہے جس کے آنے کی امید میں وہ زندگی کے دن پورے کرتے رہتے ہیں۔ اس علاقے کے حوالے سے ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ “گیدڑ اور سور ابھی بھی اس علاقے میں بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی تعداد پہلے کی نسبت بہت بڑھ چکی ہے۔”
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کے عوام کل آبادی کا ننانوے فی صد ہوتے ہوئے ایک فیصد خواص کے ہاتھوں کب تک استحصال کا شکار ہوتے رہیں گے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جب تک عوام اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے اپنی آواز بلند نہیں کریں گے اسی طرح نا انصافی اور ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے دور میں آزاد کشمیر پولیس میں بھرتی کے لئے ٹیسٹ انٹرویوز ہوئے۔ اتفاق سے یہ ٹیسٹ انٹرویو نہایت صاف و شفاف ہوئے جن میں عوام سے تعلق رکھنے والے اہل امیدواروں کی بڑی تعداد نے میرٹ کوالیفائی کر لیا۔ جبکہ وزیروں مشیروں کے چہیتے میرٹ کوالیفائی نہ کر سکے۔ اس امر سے اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی اور وزراء اور مشیروں نے وقت کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے اس میرٹ کو منسوخ کروا دیا۔ میرے بڑے بھائی جو کہ اس وقت بے روزگار تھے شام کو بہت مایوسی کی کیفیت میں گھر آئے کیوں کہ انہوں نے ضلع سدہنوتی کے میرٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کر رکھی تھی۔ ابو جی بہت دھیمے مزاج کے شریف النفس آدمی ہیں صورتحال سن کر بھائی سے کہنے لگے کہ تم فکر نہ کرو میں حکومت سے تمہارا حق تمہیں دلوا کے رہوں گا۔ میں بڑی حیران ہوئی کہ ابو حکومت کے مقابلے میں کس قدر کمزور آدمی ہیں۔ اس کے باوجود کتنے یقین کے ساتھ حکومت سے حق چھیننے کی باتیں کر رہے ہیں۔ دوسرے دن ابو نے بھائی سے کہا کہ یہ لو پیسے اور چند دوسرے امیدواروں سے بھی رابطہ کر کے اپنے ساتھ ملاو اور ہائی کورٹ میں حکومتی حکم کے خلاف مقدمہ دائر کر دو ۔ یہ مقدمہ ایک سال تک چلتا رہا اور ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے حکم کو منسوخ کرتے ہوئے میرٹ کو بحال کر دیا اور حکومت کو میرٹ میں شامل ضلع سدہنوتی کے پچاس کے لگ بھگ امیدواروں کی پندرہ دن کے اندر تقرری کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس سارے عمل سے مجھے یہ سبق حاصل ہوا کہ اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے اگر ایک فرد بھی استقامت کے ساتھ کھڑا جائے تو خواص سے اپنے حق کو چھین سکتا ہے۔ اصل میں خواص جو عوام کا استحصال کر رہے ہوتے ہیں اس کی کوئی قانونی اور اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی۔ وہ صرف عوام میں اجتماعیت کے شعور کی کمی اور عوامی قوت کے ارتکاز کے فقدان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے داو لگانے میں لگے رہتے ہیں۔
میرے ملک کے ننانوے فیصد لوگو!
میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور حق تلفیوں کو دیکھ کر خاموش نہ ہو جایا کرو بلکہ استحصال کے خلاف انفرادی اور اجتماعی طور ہر مزاحمت کیا کرو۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات پر بھی نظر رکھا کرو۔ کیونکہ یہ خواص اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر عوام کے استحصال سے بھی آگے بڑھ کے اس ملک کو بیچنے پر بھی تیار ہو سکتے ہیں۔ میں اس طرح کی بولیاں لگتے ہوئے بھی سن رہی ہوں اور مارکیٹ میں خریداروں کے ہجوم کو بھی دیکھ رہی ہوں۔ بیچنے والوں کے غیر ملکی اکاؤنٹس میں اربوں ڈالرز جمع ہوتے ہوئے بھی دیکھ رہی ہوں۔ یاد رکھو کہ پہلے ہمارے آباواجداد کو نانک شاہی سکوں کے عوض بیچا گیا تھا اب ہمیں ڈالروں کے عوض بیچا جائے گا۔ ہمارے بچاو کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ان خواص کے ارادوں کے سامنے اجتماعی قوت کی دیوار کھڑی کر دیں اور حق تلفی، نا انصافی اور استحصال کے خلاف مزاحمت کے استعارے بن جائیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین