ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل کی صدارت میں اطلاعات و ثقافت پنجاب کے زیر انتظام کام کرنے والے محکموں کے سربراہان، سیکرٹری تعلیم اور اسپورٹس کی خصوصی میٹنگ دربار ہال سیکرٹریٹ میں ہوئی۔جس میں پچھترویں یوم آزادی کو آن بان اور نئے زاویوں سے منانے کی تدبیریں زیر بحث لائی گئیں۔ صوبہ پنجاب کے تمام کمشنرز نے آن لائن اس میٹنگ میں شرکت کی۔ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت اور ایڈیشنل سیکرٹری نے پروگراموں کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ مصنوعی انداز میں کارروائی ڈالنے کی بجائے پہلی بار ایسے پروگرام ترتیب دئیے گئے جن کا مقصد صوبے کے لوگوں کو پون صدی میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ محرومی اور شکوےشکایت کی چادر کو فخر کا پرچم بنا کر آزادی کی نعمت کو سمجھیں اور پاکستانی ہونے پر ناز کریں۔ خصوصی ڈاکو منٹریز کے ذریعے ان تمام کارناموں پر روشنی ڈالی جائے گی جو قیام پاکستان کے بعد سرانجام دئیے گئے۔تمام پروگراموں کے پس منظر میں پنجاب کی اصل روح،آواز اور قدروں کو اجاگر کرنے کی کاوش بہت بھلی لگی۔ خصوصاً لوک موسیقی، اسٹیج ڈراموں، تھیٹر اور لوک رقص کے ذریعے نہ صرف ثقافت کو اجاگر کیا جائے گا بلکہ لوگوں کو تفریح کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ ملی نغموں کے مقابلے، مشاعرے، مباحثے اور کتابوں کے میلے بھی شامل پروگرام ہوں گے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں ہمارے نوجوان اور بچے زیادہ وقت موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر نظریں گاڑے ایک جگہ جامدہوکےزندگی گزارنے کے عادی ہو رہے ہیں۔ آؤٹ ڈور سرگرمیوں کے فقدان کے باعث ان کی جسمانی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ انھیں کمروں کی گھٹن سے نکال کر کھلی فضاوں اور کھیلوں کے میدانوں تک رسائی دینے کیلئے کھیلوں کے مقابلوںپر زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ پچھتر سال میں سائنس،ٹیکنالوجی، صنعت و حرفت، برآمدات، فلم، ڈرامے، میوزک، تعلیم اور مصوری میں جو کمائی کی ہے۔ اس پر ڈاکومنٹریز کے ذریعے روشنی ڈالی جائیگی۔ یقیناً ان پروگراموں سے جہاں بہت سی معلومات میسر ہونگی، تفریح کے مواقع پیدا ہوں گے اور ثقافت کی ترویج ہوگی وہیں نوجوان نسل میں تقابلی جائزے سے حالات کو بہتر سمت لے جانے کی تحریک بھی پیدا ہو گی۔ ہم سب کو اپنا احتساب کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ہو سکتا ہے، ہم جو حب الوطنی کے دعوی دار ہیں اپنے قول و فعل کو عمل کے آئینے میں دیکھ کر اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں سے ماورا ہونے کی سعی کریں۔ ہم جو خود کو بالکل آزاد سمجھ کر ہر قسم کی لاقانونیت کو فروغ دیتے آئے ہیں، قانون کی پابندی کو اپنا فخر سمجھنے لگیں۔ تمام ادارے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے کی بجائے ریاست کے پرچم تلے اپنی آئینی حدود میں رہیں۔ پوری طاقت سے حقوق صلب کرنے والے پوری ذمہ داری سے ٹیکس دینے لگیں۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہم ان اشیا کی درآمدات پر ہر سال اربوں روپیہ خرچ کرتے آ رہے ہیں جو ملک میں پیدا کی جاسکتی ہیں اور بنائی بھی۔موجودہ معاشی کسمپرسی کے عالم میں اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کے سامنے یہ ٹاسک، چیلنج کے طور پر رکھا جائے اور انھیں آسان شرائط پر قرضے دئیے جائیں تاکہ وہ نوکریوں کیلئے خوار اور مایوس ہونے کی بجائے خود روزگار کے وسیلے پیدا کریں۔ یقیناً ہمارے بچوں میں وہ صلاحیتیں ہیں کہ وہ اپنی اپنی فیلڈ میں چمتکار دکھا سکتے ہیں۔ڈراموں اور خاکوں کے ذریعے سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی آزادی کے مفہوم سے بھی قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ آزادی کی نعمت سے لطف اندوز بھی ہوں۔اس کی حفاظت بھی کریں اور دوسروں پر غداری اور کفر کے فتوے لگانے سے باز رہیں۔ نوجوانوں کی بات ہو رہی ہے تو گزشتہ دنوں عمان سے تشریف لانے والے خوبصورت شاعر قمر ریاض کے اعزاز میں راقم نے ایک ظہرانے کا اہتمام کیا جس میں لاہور کی کہکشاں جس میں مجیب الرحمن شامی، خالد عباس ڈار، سہیل وڑائچ، شعیب بن عزیز، ڈاکٹر پرویز چوہدری، منصور آفاق، حماد غزنوی، آصف عفان، وی سی ہوم اکنامکس یونیورسٹی ڈاکٹر کنول امین، صوفیہ بیدار، نازیہ جبین، صبیحہ شاہین، شاہد محمود ندیم، مدثر اقبال بٹ، محسن گورایا، عمران شوکت علی، امجد اقبال امجد، پرنس اقبال، جی۔ اے نجم، ربیعہ ڈار نے شرکت کر کے یادگار بنا دیا۔ قمر ریاض اپنی شاعری کے حوالے سے نوجوان شاعروں میں خاص مقام رکھتا ہے۔ میں اس کے پاکستان سے محبت کے جذبے اور ترقی کے جنون کے باعث اسے بے حد پسند کرتی ہوں اور ہمیشہ اس کیلئے دعا گو رہتی ہوں۔ اس نے عمان میں سرکاری نوکری سے آغاز کیا مگر حالات بہتر ہوتے ہی کمٹمنٹ اور حکمت عملی سے کاروبار شروع کیا۔ ہم سب کسی حد تک متفکر بھی تھے کہ دیار غیر میں کہیں مسئلہ نہ ہو جائے مگر شبانہ روز محنت کے سبب آج وہ ایک کامیاب بزنس مین بن چکا ہے۔ اس کے دماغ میں نئے نئے آئیڈیاز آتے رہتے ہیں اور وہ انھیں تعبیر دیتا رہتا ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ناممکنات کو ممکنات میں ڈھالنا چاہئے۔ وہ نوکریوں اور دنیاوی وسیلوں کی تلاش ترک کر کے محنت سے کام کا آغاز کریں۔ وسیلے بنانے والا ضرور کامیابی عطا کرے گا۔ یقیناً قمر ریاض کی غزل کےیہ چند اشعار بھی رومانویت میں اسی جنون کے مظہرہیں جو اس کی ذات کی پہچان ہے۔
اِس سال بھی تُو میری ہی زنبیل میں ہو گی
تُو میری ہے اور میری ہی تحویل میں ہو گی
تُو مُجھ کو جہاں چاند دِکھانے چلی آئی
اے دوست تری شکل اُسی جھیل میں ہو گی
اُس نے یہ کہا مُجھ سے فقط مُجھ سے کرو عِشق
اب زندگی اِس حُکم کی تَعمیل میں ہو گی
کیوں شہر کے لوگوں سے مِرا پُوچھ ہی ہو
یہ بات مری غزلوں کی تفصیل میں ہو گی
بشکریہ روزنامہ جنگ