نئی دہلی:بھارتی عدالت نے جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے چیرمین خرم پرویز کو25 فروری تک بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی تحویل میں دے دیا ہے ۔
کشمیری رہنما خرم پرویز ان دنوں نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔خرم پرویز کو بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے 22 نومبر 2021 کو انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت سری نگر سے حراست میں لیا تھا۔ ان پر بھارت کے خلاف مجرمانہ سازش، حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے اور دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے فنڈ جمع کرنے کے الزامات شامل ہیں۔
خرم پرویز ،منیر احمد کٹاریا اور ارشد احمد کو گزشتہ روز نئی دہلی میں اسپیشل این آئی اے جج پروین سنگھ کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت نے ان افراد کو25 فروری تک این آئی اے کی تحویل میں دے دیا۔
نئی دہلی میں قید کے دوران گزشتہ ہفتے خرم پرویز کو انسانی حقوق کی تنظیم اے ایف اے ڈی کے تیسری بار چیرمین منتخب ہوگئے ہیں۔ ایشیا میں جبرا لاپتہ کیے جانے والے افراد کے بارے میں قائم تنظیم اے ایف اے ڈی کی کانگرس نے اپنے اجلاس میںخرم پرویز کو چیرمین منتخب کیا تھا ۔
کے پی آئی کے مطابق خرم پرویز کو بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے 22 نومبر 2021 کو انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت حراست میں لیا تھا۔نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی نے خرم پرویز کے سری نگر میں دفتر اور رہائش گاہ پر چھاپے مارے تھے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اس گرفتاری کو حقوقِ انسانی کا دفاع کرنے والوں کو خاموش کروانے اور سزا دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔خرم پرویز کا شمار انڈیا میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناقدین میں ہوتا ہے اور ان کے گروپ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے حقوِق انسانی کی خلاف ورزی پر متعدد رپورٹس شائع کی ہیں۔
سنہ 2016 میں بھی حکام نے انھیں سوئٹزر لینڈ میں منعقدہ اقوامِ متحدہ کی حقوقِ انسانی کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہ دیتے ہوئے متنازع پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔انھیں 76 دن تک حراست میں رکھنے کے بعد حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیموں کے دبا پر رہا کیا گیا تھا۔ ۔
خرم پرویز20 سال قبل کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں ڈگری حاصل کی اور مختصر عرصے تک صحافت کرنے کے بعد انسانی حقوق کے دفاع میں سرگرم ہو گئے۔
سنہ 2004 کے انتخابات کے دوران خرم نے انتخابات کے مشاہدے کے لیے پورے کشمیر میں رضاکاروں کو بھیجا اور خود بھی ایک ٹیم کی قیادت کی۔
شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں اسی دورے کے دوران ایک سڑک پر بارودی دھماکہ ہوا جس میں ان کی ایک رضاکار آسیہ جیلانی ہلاک ہو گئیں جبکہ خود خرم اپنی ٹانگ کھو بیٹھے۔
خرم کی اہلیہ حکومت کے شعبہ سماجی بہبود میں افسر ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں۔خرم انسانی حقوق کے حوالے سے کشمیر ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی سرگرم رہے ہیں۔انھوں نے اقوام متحدہ کے کئی ذیلی اداروں کے ساتھ بھی کام کیا اور سی سی ایس کے ذریعہ شائع شدہ انسانی حقوق کی صورتحال پر مبنی کئی رپورٹوں کو عالمی سطح پر مشتہر کرایا۔
خرم نے کشمیر میں لاپتہ افراد کے لواحقین خاص طور پر ان کی بیواؤں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔خرم کی مہم کے دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لاپتہ افراد کی بیواؤں کو آدھی بیوہ کا نام دیا گیا۔
خرم نے مذہبی رہنماؤں اور انجمنوں میں اِن آدھی بیوہ خواتین کی دوبارہ شادی کے لیے بھی مہم چلائی، کیونکہ دہائیوں بعد بھی جب لاپتہ افراد کا پتہ نہ ملا تو انھیں مردہ قرار دینا مذہبی تنازع کا باعث بن رہا تھا۔
خرم نے سی سی ایس اتحاد کے ذریعہ کشمیر اور پونچھ میں ہزاروں گمنام قبروں کا بھی انکشاف کیا تھا