اے آر کارنیلیئس، پاکستان کے مسیحی چیف جسٹس جو کرکٹ کے معمار بھی تھے۔۔۔ تحریر :سید صفدر گردیزی

پاکستان کے قومی منظر نامے پر سیاسی اتار چڑھاؤ کی خبروں کے ساتھ ساتھ جن شخصیات کا ذکر تواتر سے ہوتا ہے ان میں اعلٰی عدلیہ کے ججز اور کرکٹ کے کھلاڑی سرفہرست ہیں۔
بظاہر کرکٹ اور عدلیہ میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں ایک ہستی ایسی بھی گزری ہے جنہیں نیک نام اور با اصول جج کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ بات اکثریت کے علم میں نہیں ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان ہونے کے علاوہ پاکستان میں کرکٹ کے معمار اور منتظم بھی قرار دیے جاتے ہیں۔
جسٹس ایون رابرٹ کارنیلیئس کے تعارف کا تیسرا پہلو مسیح مذہب کے ماننے والے ایک ایسے شخص کا بھی ہے جس نے پاکستان کے شہری بننے کا فیصلہ اختیاری طور پر کیا۔

آج سے 35 برس قبل جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس اپنا ذاتی گھر نہیں تھا۔

ان کی زندگی کا حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ وہ 38 برس تک لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے کمرے میں قیام پذیر رہے۔
اور شاید ناقابل یقین حد تک حیرت ناک یہ بھی کہ اس میں وہ عرصہ بھی شامل ہے جب آٹھ برس تک وہ چیف جسٹس پاکستان بھی تھے۔
آج  اے آر کار نیلیئس کا تذکرہ کیوں ہوتا ہے؟
پاکستان میں تقریباً ایک دہائی سے قومی زندگی عدالتی فیصلوں اور اعلٰی عدالتی شخصیات کے تذکروں سے بھری ہوئی ہے۔
بطور خاص چیف جسٹس اف پاکستان کے منصب پر فائز رہنے والی شخصیات کے عدالتی، ذاتی اور عوامی زندگی اور پیشہ وارانہ امور  کے بارے میں تبصرے، انکشافات اور اعتراضات سیاست اور صحافت کے ایوانوں میں موضوع بحث رہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل ایک خطاب میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس کارنیلیئس کی اصول پسندی اور دیانت داری کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا تھا۔
جسٹس کارنیلیئس پاکستان میں کرکٹ کے معمار  بھی قرار دیے جاتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
عمران خان کے اس حوالے پر کارنیلیئس خاندان کے ایک فرد نے ایکس پلیٹ فارم پر انہیں مخاطب کرتے ہوئے کارنیلیئس کے پاکستان کے ساتھ تعلق کا حوالہ دیا تھا۔
یہ کارنیلیئس کے کزن کے بیٹے آیان ڈی روزیریو تھے جو آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کارنیلیئس کبھی بھی سیاسی اجتماع میں اپنے لیے توصیفی کلمات کو پسند نہ کرتے۔ ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کی اس تکریم آمیز انداز میں حوالہ دینے پر توصیف بھی کی تھی۔
اردو نیوز کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کارنیلیئس فیملی کا ممبر ہونے کی حیثیت سے انہیں پاکستان میں ان کے تذکرے اور تعریف پر خوشی ہوتی ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کے طور پر جو فلسفہ قانون اگے بڑھایا اسے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری فیملی نے 1947 میں ان کے پاکستان رہ جانے کے فیصلے کو پسند نہیں کیا۔ تاہم ہم ابھی بھی سرحد کے دونوں طرف اس خاندان کے نام اور کاموں کے تذکرے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔‘
آج  پاکستان میں جسٹس کارنیلیئس کی منصف مزاجی اور قانون پسندی ضرب المثل کے طور پر کیوں یاد کی جاتی ہے؟ یہ جاننے سے قبل ہم یہ جان لیں کہ کارنلیئس کون تھے؟
ایک مسیحی خاندان سے تعلق رکھنے والے کارنیلیئس کی خاندانی تاریخ میں ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کا حوالہ اور تعلق موجود ہے۔
انہوں نے یکم مئی 1903 کو آگرہ میں انکھ کھولی۔ بنیادی طور پر ان کا خاندان زمیندار اور ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔
ان کے دادا پہلے برطانوی فوج میں تھے پھر انہوں نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ساتھ ہی مسیحیت قبول کر لی اور اپنا نام کارنیلیئس رکھ لیا۔ 

ان کے والد جیکب کارنیلیئس ریاست اندور میں ریاضی کے استاد تھے جبکہ والدہ تارا ڈی روزیرو کا خاندان بھی ہندو سے مسیحی ہوا تھا۔
سنہ 1931 میں کارنیلیئس کی شادی آئیون فرانسس سے ہوئی۔ وہ مسیحیوں کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے پر دادا سید شاہ صافی کا تعلق اس وقت کے صوبہ سرحد سے تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے میراں بخش کے ہمراہ مسیحیت اختیار کر لی تھی۔ ان کے پوتے کا نام مارکس بینڈکٹ تھا جو بعد میں کارنیلیئس کے سسر بنے۔
اے آر کارنیلیئس نے سینٹ جونز کالج آگرہ اور الہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ 1926 میں وہ وہ انڈین سول سروس کا امتحان پاس کر کے پروبیشنر کی حیثیت سے دو سال کے لیے کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد پہلے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن میں خدمات سر انجام دیں۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے جوڈیشل سروس میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ابتدائی عرصے میں لاہور اور امبالہ کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے طور پر کام کیا۔
برطانیہ اور انڈیا کی عدالتوں کے فیصلوں میں حوالہ 
جسٹس کارنیلیئس 1946 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے۔ پاکستان بننے کے بعد برطانوی سول اور جوڈیشل سروس کے ملازمین کو پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ایک کے انتخاب کا آپشن دیا گیا۔
خاندان کے دیگر افراد کی انڈیا میں رہائش کے باوجود انہوں نے پاکستان کی شہریت اختیار کی۔ سنہ 1950 میں سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اسی کے ساتھ ایک سال تک وفاقی سیکریٹری قانون کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
سنہ 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل اور اس پر سندھ کورٹ کے فیصلے کے خلاف مرکزی حکومت نے چیف کورٹ میں اپیل دائر کی۔
مولوی تمیز الدین کیس کے نام سے مشہور، اس مشہور زمانہ مقدمے میں جسٹس کارنیلیئس کے 53 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ نے انہیں ملک کی عدالتی تاریخ میں معتبر اور ممتاز بنا دیا۔
جسٹس کارنیلیئس کی منصف مزاجی اور قانون پسندی کی آج بھی مثال دی جاتی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
جسٹس منیر نے تکنیکی بنیادوں پر گورنر جنرل کے اقدام کو درست قرار دیا۔ جسٹس کارنیلیئس نے اپنے اختلافی نوٹ میں قرار دیا کہ دستور ساز اسمبلی کی طرف سے کی گئی قانون سازی کو گورنر جنرل سے منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا اختلافی نوٹ بعد میں قانون ساز اداروں کے اختیارات اور انتظامی اداروں پر ان کی بالا دستی کے لیے ایک حوالے اور مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔
پاکستان میں نظریہ ضرورت کو قانونی جواز مہیا کرنے والا فیصلہ جسٹس منیر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے ’ڈوسو کیس‘ میں دیا تھا۔ 1958 میں اس فیصلے سے مارشل لا کو قانونی جواز مہیا کیا گیا۔
اس کیس میں بھی جسٹس کارنیلیئس نے 19 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا۔ انہوں نے لازمی انسانی حقوق کو پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان حقوق کو کوئی مارشل لا ختم نہیں کر سکتا۔
جسٹس کارنیلیئس کے اختلافی نوٹ مارشل لا دور میں جبر کے مقابل قانون کی حکمرانی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے دلائل سے بھرے ہوتے تھے۔
اسی دور میں صوبہ مشرقی پاکستان بنام مہدی علی خان کیس میں انہوں نے اپنے 25 صفحات کے اختلافی نوٹ میں قرار دیا کہ ملک کے کسی بھی مسلم یا غیر مسلم شہری کو مارشل لا کے تحت اس کے مذہبی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔
جسٹس کارنیلیئس نے بحیثیت چیف جسٹس 1964 میں ابو الاعلٰی مودودی بنام حکومت مغربی پاکستان کیس میں جماعت اسلامی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کو محض اس کے خیالات اور نظریات کی بنیاد پر غیر قانونی نہیں قرار دیا جا سکتا۔
ایوب حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران شہریوں کی حراست اور نظربندی کے خلاف کیسوں میں کارنیلیئس نے جرأت اور قانونی حوالوں کے ساتھ اپیلوں پر فیصلے کیے۔
مولوی تمیزالدین کیس میں جسٹس کارنیلیئس کے اختلافی نوٹ نے انہیں عدالتی تاریخ میں معتبر شخصیت بنا دیا تھا۔ فوٹو: فلکر
1967 میں عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی کی نظر بندی کے کیس کے فیصلے میں انہوں نے قانون کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ کسی بھی شہری کو محض اس لیے حراست میں رکھنا کہ ریاست کو اس سے اطمینان ہو غیر قانونی ہے۔ شہریوں کی نظر بندی کے لیے ریاست کو ٹھوس قانونی وجوہات بیان کرنی ہوں گی۔
غلام جیلانی کیس کا فیصلہ اور اس میں تحریر کی گئی وجوہات اور قانونی نکات کو برطانیہ اور انڈیا کی عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں حوالہ اور عدالتی نظیر کے طور پر اختیار کیا۔
اسلام کے فلسفہ انصاف کے معترف 
جسٹس کارنیلیٔس مسیحی اور اسلامی روایات اور فلسفہ انصاف کا گہرا مطالعہ اور فہم رکھتے تھے۔ کیمبرج میں تعلیم کے دوران انہوں نے عربی زبان میں مہارت حاصل کی۔ جس کے باعث وہ اسلام کے فلسفہ انصاف اور عدل کی روایات اور لٹریچر سے بخوبی واقف تھے۔
آپ اپنے گہرے سماجی اور قانونی شعور کی وجہ سے وہ پاکستان کے مقامی کلچر اور سماجی قوانین کی آفادیت کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک جرگہ سسٹم کی کچھ اچھائیاں اسے ایک متبادل نظام انصاف کے طور پر اختیار کرنے کے لیے موزوں تھیں۔
اسی طرح زکوۃ اور وقف جیسے سماجی اور معاشی احکامات اور  اداروں کی انفرادیت اور فعالیت کے حامی تھے۔ اپنے متعدد فیصلوں میں وہ ان کے اثرات اور افادیت کے حوالے بھی دیتے تھے۔
1968 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں انہوں نے کارنیلیئس، لین اینڈ مفتی نامی لا فرم سے سینیئر پارٹنر کے طور پر وابستگی اختیار کر لی۔ وہ ہر روز آفس آتے اور اپنے مخصوص ٹائپ رائٹر پر قانونی مشاورت اور دیگر نکات خود ٹائپ  کرتے۔
یہ ٹائپ رائٹر اس لاء فرم میں ابھی بھی ان کی یاد میں محفوظ رکھا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور نامور قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ کا جسٹس کارنیلیئس سے گہرا تعلق تھا۔ یہ آج بھی ان کی لا فرم کے سینیئر پارٹنر ہیں۔
حامد خان کے مطابق کارنیلیئس نے مولانا شبیر احمد عثمانی کی تفسیر قرآن کا انگریزی ترجمہ بھی کر رکھا تھا۔ مگر بدقسمتی سے نہ تو وہ اشاعت  پذیر ہو سکا اور نہ ہی اس کا نسخہ ان کی وفات کے بعد کہیں سے دستیاب ہوا۔
دورہ امریکہ سے انکار
عاصمہ جہانگیر کے والد کی نظر بندی کو جسٹس کارنیلیئس نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پروفیسر رالف بریبنتی امریکہ کی یونیورسٹی آف ڈیوک میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر آف ایمریٹس رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی بیوروکریسی کے ڈھانچے اور عدالتی نظام پر گراں قدر تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ لاہور کی سول سروس اکیڈمی کے چیف ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں۔
جسٹس کارنیلیئس سے ان کی درینہ رفاقت تھی۔ ان کی زندگی اور فلسفہ قانون کے بارے میں کتاب ’چیف جسٹس کارنیلیئس آف پاکستان‘ کے مصنف بھی ہیں۔
جسٹس کارنیلیئس دنیا بھر میں قانون اور عدالتی نظام کے بارے میں ہونے والی کانفرنسوں اور مباحثوں میں شریک ہوتے تھے۔ مگر ایک بار انہوں نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا دعوت نامہ ٹھکرا دیا۔ اس کی وجہ سپانسر شپس کے بارے میں ان کا محتاط رویہ تھا۔
انہیں یہ دعوت نامہ پروفیسر رالف کے ذریعے موصول ہوا۔ امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ انہیں اپنے ملک میں مدعو کرنا چاہتا تھا۔ مصنف کے مطابق انہوں نے انکار کی وجہ بیان کی کہ وہ حکومتی عنایات کے ساتھ امریکہ کا مہمان بننا پسند نہیں کریں گے۔
پروفیسر رالف کے مطابق ان کے انکار کی وجہ امریکہ سے کوئی مخاصمت نہ تھی بلکہ وہ عالمی سیاست کی الجھنوں کی وجہ سے چیف جسٹس کے منصب کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے ایسا کر رہے تھے۔
کتاب کے مصنف نے 1964 میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایماء پر ان سے طویل ملاقاتیں کی۔ جن کا مقصد امریکن انسٹیٹیوٹ اف پاکستان سٹڈیز کے نام سے ایک ادارے کے قیام کے بارے میں تبادلہ خیال اور رہنمائی حاصل کرنا تھا۔
پروفیسر رالف کے مطابق جسٹس اے آر کارنیلیئس کو شک تھا کہ امریکہ اس طرح کے ادارے کی آڑ میں پاکستان میں خفیہ جاسوسی کا نظام قائم کر سکتا ہے۔
وہ اپنے عہدے کی نزاکتوں اور قومی ذمہ داریوں کے بارے میں اس قدر حساس تھے کہ ایک بار پروفیسر رالف کے ساتھ ملاقات کے دوران ان کی نظر کرسی کے ساتھ رکھے اٹیچی کیس پر پڑی تو وہ ان سے گویا ہوئے ’اس میں ریکارڈنگ کے آلات باآسانی رکھے جا سکتے ہیں۔‘ جس پر پروفیسر رالف کو انہیں اپنا اٹیچی کیس کھول کر دکھانا پڑا۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ کے آئین کے خالق
تقسیم کے بعد پاکستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے پہلے صدر نامور سیاست دان اور پنجاب کے سابق وزیراعلی افتخار ممدوٹ بنے۔
ایوب حکومت کے دور میں شہریوں کی حراست کے خلاف کیسز میں جسٹس کارنیلیئس نے جرأت مندانہ فیصلے کیے۔ فوٹو: اے ایف پی 
جب کارنیلیئس کو بورڈ کی ایگزیکیٹیو کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تو صحیح معنوں میں انہوں نے کرکٹ کے ڈھانچے کی ترتیب اور تشکیل کا کام اپنے ذمے لیا۔
پاکستان میں کرکٹ کی تاریخ اور ارتقا کے بارے میں علی خان کی کتاب’کرکٹ ان پاکستان: نیشن، آئیڈنٹٹی اینڈ پولیٹکس‘ میں ان کے دور میں پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کے تشکیلی مراحل کا تفصیلی بیان موجود ہے۔
انہوں نے نامور پارسی رہنما اے آر کلیکٹر کو کرکٹ بورڈ کا اعزازی سیکریٹری اور پروفیسر ایم اسلم کو فائنانس سیکرٹری بنایا۔
عالمی کرکٹ میں پاکستان کی شمولیت اور تعارف کے لیے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو پاکستان میں میچ کھیلنے کے لیے مدعو کیا گیا ۔لاہور میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ پاکستانی ٹیم کا کسی بھی غیر ملکی ٹیم کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔
1949 میں انہوں نے آسٹریلیا کی ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرنے پر رضامند کیا۔ باغ جناح لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف میچ کے لیے کارنیلیئس  نے گورنمنٹ کالج لاہور کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو سٹیڈیم میں انتظامی امور پر مامور کیا۔ ان میں نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے جو بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی بنے۔
اس میچ میں پاکستان کو ایک اننگز اور 170 رنز سے شکست ہوئی۔ جس سے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کا سٹیٹس حاصل کرنے کی کوششوں کو دھچکا لگا۔
کارنیلیئس نے ہمت نہیں ہاری اور انہوں نے اے آر کلیکٹر کو برطانوی ٹیم کو دورہ پاکستان پر آمادہ کرنے کے لیے انگلینڈ روانہ کیا۔ وسائل کی قلت کی وجہ سے انہوں نے دورے کے تمام اخراجات اپنے پلے سے برداشت کیے۔
دسمبر 1951 میں برطانوی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ کراچی ٹیسٹ میں چار وکٹوں سے جیت کی بدولت پاکستان آئی سی سی کا پانچواں ممبر بن گیا۔
پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے ان کا سب سے اہم کارنامہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے آئین کی ترتیب اور تدوین تھی۔ مختلف ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ یہ آئین آج بھی پی سی بی کے نظام کی فعالیت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
علی خان لکھتے ہیں کہ کارنیلیٔس نے کرکٹ کے لیے کمرشل سپانسر کا بندوبست بھی کیا۔ ان کی کوششوں سے ہی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن نے پاکستان کرکٹ کو سپانسرشپ مہیا کی۔
جسٹس کارنیلیٔس مسیحی اور اسلامی روایات اور فلسفے کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ فوٹو: فلکر
انہوں نے نچلی سطح پر کرکٹ کے فروغ کے لیے تربیت اور مواقع پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ ان کے دور میں نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ’اینگلیٹس‘ کے نام سے برطانیہ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی تربیت اور میچز کے ذریعے تجربہ حاصل کرنے کی سکیم شروع کی گئی۔ اس کی بدولت پاکستان کو کئی نامور کھلاڑی میسر ہوئے۔
پاکستان میں کرکٹ کے ڈھانچے کے قیام اور استحکام کے لیے ان کی خدمات کے صلے میں انہیں عالمی اعزاز بھی عطا ہوا جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا۔ دنیائے کرکٹ کے قدیم ترین کلب ایم سی سی نے انہیں تاحیات اعزازی ممبر کے لیے منتخب کیا۔
علاج کے لیے ہائی کورٹ میں رٹ        
1960 میں 1968 تک پاکستان کے چیف جسٹس رہنے والے جسٹس کارنیلیٔس کی زندگی سادگی اور انکساری کا نمونہ تھی۔ بحیثیت چیف جسٹس انہوں نے سرکاری مراعات اور پروٹوکول سے حتی الامکان گریز کیا۔
پروفیسر رالف کے مطابق وہ چیف جسٹس تھے اور ان سے ملنے کے لیے اپنی گاڑی خود ڈرائیو کر کے آتے تھے۔
ان کے زیر استعمال رہنے والی کار سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے مرمت اور بحالی کے بعد ان کے نام پر محفوظ کی ہوئی ہے ۔
 جواد خواجہ ان کی لا فرم میں پارٹنر بھی رہے۔ کارنیلیٔس نے انہیں پنی وصیت پر عمل درآمد کا ذمہ دار بھی مقرر کیا تھا۔
وہ ان کی انکساری اور انسان دوستی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار وہ انہیں کرسمس کی مبارکباد دینے ان کے ہاں گئے تو وہاں سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ بھی آ گئے۔ جسٹس کارنیلیٔس نے ان سے خواجہ صاحب کا تعارف کرایا تو نسیم حسن شاہ کہنے لگے ’یہ وہ جواد ایس خواجہ ہیں جو آپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘ انہوں نے فوراً جواب دیا ’نہیں میں ان کے ساتھ کام کرتا ہوں۔
ایک بار لاہور کے ایک اکاؤنٹس آفیسر نے کارنیلیئس صاحب کے نام ایک خط میں اپنے سامنے پیش اور اپنے زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دکھانے کی تلقین کی۔
جواد ایس خواجہ نے جب یہ خط دیکھا تو کافی برہم ہوئے کہ اتنی بڑی ہستی کے ساتھ اس طرح کا سرکاری ضابطہ ان کی توہین ہے۔ وہ یہ خط لے کر جسٹس کارنیلیٔس کے پاس گئے۔ انہوں نے خط دیکھ کر جواب دیا ’مائی ڈیئر خواجہ ناراضگی کی کوئی بات نہیں وہ شخص اپنی سرکاری ڈیوٹی کر رہا ہے۔‘
جسٹس کارنیلیئس کے علاج کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔ فوٹو: وکیپیڈیا
انہوں نے دو خطوط لکھے۔ ایک رجسٹرار سپریم کورٹ کو اور دوسرا اس اکاؤنٹ آفیسر کو۔ رجسٹرار کو لکھا کہ میں آپ کے پاس بندہ بھیج رہا ہوں۔ اس کو سرٹیفیکیٹ جاری کر دیں کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ دوسرے خط کے ساتھ سرٹیفیکیٹ لگا کر انہیں لکھ بھیجا کہ اب آپ کو یقین آ جانا چاہیے کہ میں ابھی زندہ ہوں۔
ان کی زندگی کے آخری مہینوں میں دل کی تکلیف کی وجہ سے وہ بستر کے ساتھ لگ کر رہ گئے۔ علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اخبارات میں ان کی حالت زار کے بارے میں خبریں چھپیں۔
ان کے کسی چاہنے والے نے لاہور ہائی کورٹ میں ان کو سرکاری علاج مہیا کرنے کے لیے رٹ دائر کر دی۔ ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ ان کے لیے فوراً ڈاکٹر مہیا کیا جائے۔ دو دنوں تک جب اس پر عمل درآمد نہ ہوا تو مجبوراً رٹ دائر کرنے والے کو توہین عدالت کی درخواست دینا پڑی۔
لاہور ہائی کورٹ کے ایکشن لینے پر انہیں سروس ہسپتال منتقل کیا گیا۔ مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی آخری رسومات اور کرسمس کی تقریبات ساتھ ساتھ انجام پائیں۔
ان کے انتقال پر سپریم کورٹ نے ان کی یاد میں فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا۔ جیل روڈ لاہور پر واقع مسیحی قبرستان میں ان کی ابدی آرام گاہ کا بندوبست کیا گیا۔
ایک مسیح کا مسلم سوسائٹی میں سب سے بڑے عدالتی منصب پر مثالی کردار کی وجہ سے ہیرو کا درجہ حاصل کرنا اور تاریخ کا نیک نام چیف جسٹس قرار پانا ایک منفرد مثال ہے۔