شہباز گل کا کھڑاک ۔۔۔ شکریہ…نصرت جاوید


دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میں ڈاکٹر شہباز گل صاحب کا شکر گزار ہوں۔ انہوں نے میری مذمت میں کبھی ٹویٹر اور اب Xکہلاتے پلیٹ فارم پر ایک پیغام لکھا۔ منگل کی صبح دس بجے کے قریب یہ کالم لکھنے سے قبل ڈاکٹر صاحب کے اکائونٹ پر نگاہ ڈالی تو مذکورہ پیغام کو ایک لاکھ 63ہزار لوگ پڑھ چکے تھے۔ ساڑھے تین ہزار کے قریب افراد نے اسے پسند کیا اور ڈیڑھ ہزار لوگوں سے زیادہ افراد اسے ری پوسٹ کرچکے تھے۔ عرصہ ہوا دنیا سے کٹ کر تقریباََ گوشہ نشین ہوئے اس دو ٹکے کے رپورٹر کو ایسی پذیرائی نصیب نہیں ہوئی تھی۔
شہباز گل صاحب عمران حکومت کے دوران تحریک انصاف کے دھانسو رہنما شمار ہوتے تھے۔ عمران خان تحریک عدم اعتماد کی بدولت حکومت سے فارغ ہوئے تو گل صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں گرفتار کرنے والوں نے گل صاحب کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وطن عزیز میں حکومتیں اپنے ناقدین کے خلاف روا رکھتی ہیں۔ خان صاحب ہی کے دور میں مثال کے طورپر رانا ثناء اللہ صاحب فیصل آباد کو لاہور سے ملانے والی موٹروے پر ہیروئین کی حیران کن مقدار کے ساتھ پکڑے گئے تھے۔ تفتیش کے دوران انہیں اذیت پہنچانے کے لئے زمین پر چینی پھینک دی جاتی تاکہ زمین پر رینگتے کیڑے ان کے جسم کو بھی نوچتے رہیں۔ 
گل صاحب کے ساتھ کیا ہوا اس کی تفصیل تاہم وہ اشاروں کنایوں میں بیان کرتے رہے ہیں۔ جس انداز میں وہ حراست کے دوران ہوئے تشدد کا ذکر کرتے اس سے تاثر یہ ملتا کہ شاید انہیں جنسی طورپر اذیت پہنچائی گئی۔ مزیدتفصیل گھرمیں پھینکے اخبار میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ ڈاکٹر صاحب پر بقول فیض احمد فیض ’’شب ہجراں‘‘ میں جو گزری اس کے نتیجے میں انہیں ہسپتال جانا پڑا۔ وہاں داخل ہوئے تو عدالت کے کمرے میں داخل ہونے سے قبل سانس لینے کے قابل ہونے کے لئے بے بسوں کی طرح آکسیجن کی فریاد کیا کرتے تھے۔ بالآخر عدالت ان کی مدد کے لئے متحرک ہوئی۔ موصوف ضمانت پر رہا ہوئے۔ اس کے بعد وطن چھوڑ کر امریکہ کے شہر شکاگو چلے گئے۔ ربّ کا صدشکر کہ ان دنوں خیروعافیت سے ہیں۔ ایک یوٹیوب چینل بھی بنارکھا ہے۔ اس کے ذریعے اپنے ویری افراد کی جٹکی پنجابی میں خوب کلاس لیتے ہیں۔ مجھے بھی ایک دوبار انہوں نے اپنا نشانہ بنایا۔ تحریک انصاف کے اکثر چاہنے والوں کی طرح فقط یہ سوچتے ہوئے چٹکیاں کاٹتے رہے کہ شاید ام الخبائث نے میرے ذہن کو مائوف بنارکھا ہے۔ چند دنوں بعد مگر جبلی طورپر ذہین وہونہار گل صاحب نے دریافت کرلیا کہ میری مذمت بازار میں بکتی نہیں۔ اپنے تیروں کا رخ واقعتا مشہور لوگوں کی جانب موڑلیا۔ پیر کی رات مگر میں ان کے غضب کی زد میں آگیا۔ اب اپنا گناہ بیان کرنا ہوگا۔
گزشتہ برس کی جولائی سے رزق کمانے کی خاطر ایک ٹی وی شو بھی شروع کررکھا ہے۔ وہاں عدنان حیدر- جو ایک نوجوان صحافی ہیں- کے ساتھ بیٹھ کر حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ آرائی کرتا ہوں۔ Ratingsکی مجھے فکر نہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ سیاست کے میدان میں جو ہورہا ہے اس کے اسباب اور ممکنہ منزل کا تعین کرنے کی کوشش ہو۔
ملکی سیاست کا ذکر ہو تو امریکہ کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ عاشقان عمران کی بے پناہ تعداد اس ملک میں بہت بااثر ہے۔ ان کی کاوشوں کی بدولت امریکی پارلیمان کے اراکین نے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران خان صاحب کی رہائی کے لئے ریکارڈ بناتے ووٹوں کے ساتھ ایک قرارداد منظور کی تھی۔ خان صاحب کی مشکلات مگر آسان نہ ہوئیں۔ بالآخر نومبر2024آگیا۔ اس مہینے ٹرمپ بھاری بھر کم اکثریت کے ساتھ ایک بار پھر امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ امریکہ میں متحرک تحریک انصاف کے مداحین کو کامل یقین ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ اپنے ’’پرانے دوست‘‘ یعنی عمران خان کو کسی نہ کسی صورت جیل سے رہا کرالیں گے۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ ٹرمپ واقعتا عمران خان کو ’’اپنا دوست‘‘ شمار کرتے ہیں اور ان کی رہائی کے بارے میں فکر مند بھی۔
ٹرمپ کے ساتھ مگر ان کی فلوریڈا والے گھر میں تحریک انصاف کے امریکہ میں مقیم ایک رہ نما -سجاد برکی- ملاقات کرچکے ہیں۔ مجھے بطور رپورٹر اس ملاقات کا پتہ چلا تو اس کا ذکر اپنے شو میں بھی کردیا۔ بعدازاں برکی صاحب نے 26نومبر کے دن واشنگٹن میں تحریک انصاف کے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میری خبر کی تصدیق فرمادی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ٹرمپ کے ساتھ برکی صاحب کی جو ملاقات ہوئی ہے اس کے ’’مثبت‘‘ نتائج برآمد ہوں گے۔
واشنگٹن میں مقیم میرے ذرائع جنہوں نے برکی -ٹرمپ ملاقات کے بارے میں آگاہ کیا تھا اب اصرار کررہے ہیں کہ عمران خان کی رہائی کی خاطرسب سے زیادہ متحرک تلسی گیبرڈ(Tulsi Gabbard)ہوں گی۔ محترمہ کو ٹرمپ نے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کے عہدے کے لئے نامزد کررکھا ہے۔ پیر کی شام میں نے اس کا ذکر کرتے ہوئے محض یہ کہا کہ میرے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ’’تلسی کا دل…‘‘ یہ چاہ رہا ہے کہ عمران خان رہا ہوں۔ یہ لفظ سنتے ہی میرے کواینکر عدنان حیدر نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ عمران خان ا ور تلسی گیبرڈ ’’دوست‘‘ ہیں۔ عورت اور مرد کے مابین ’’دوستی‘‘ کو ہم لوگ محض ایک تناظر میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ میں نے سختی سے عدنان کو سمجھایا کہ نہیں میں درحقیقت یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ عمران خان کو رہا کروانے میں اپنا اثر استعمال کرسکتی ہیں۔ پروگرام کے آخری حصے میں آف ایئر جانے سے پہلے یقینا میں نے اپنی بات مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ کھل کر بیان نہیں کی۔ بہت سی باتیں وقت کی کمی کے سبب ان کہی رہ گئیں۔
وہ پروگرام ختم ہوا تو میری بدقسمتی سے اس کی تلسی سے متعلق کلپ ڈاکٹر شہباز گل صاحب تک پہنچ گئی۔ اسے دیکھ کر تلملا اٹھے اور فوراََ یہ دعویٰ کردیا کہ میں نے تلسی پر عمران خان کی محبت میں گرفتار ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل صاحب بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ میں اَن پڑھ بھی لیکن بخوبی جانتا ہوں کہ تلسی کٹرہندو ہیں جن کی دوسری شادی وشنومت کی روایات کے مطابق ہوئی ہے۔ 
شاید ان کے گلے میں منگل سوتر بھی ہو۔ وہ اگر مذہبی خاتون نہ ہوتیں جب بھی ان پر کسی غیر کی محبت میں گرفتار ہونے کا الزام لگانے سے ہر صورت باز رہتا۔ گل صاحب مگر جٹ ہونے کی وجہ سے اردو زبان کی تلمیحات وغیرہ سے واقف نہیں۔ جٹ داکھڑاک کرنے کے عادی ہیں۔ انہیں گماں ہوگا کہ تلسی ان کا ٹویٹ پڑھتے ہی نصرت جاوید جیسے دو ٹکے کے پاکستانی رپورٹر کی ویری بن جائیں گی۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد حکم دیں گی کہ میرا کچا چٹھا گہری تحقیق کے بعد ان کی میز پر رکھا جائے۔
گل صاحب میں دیانتداری سے غالبؔ کی طرح خود کو کسی بھی ہنر میں یکتا نہیں سمجھتا۔ تلسی کے بارے میں اپنے کلمات کی وضاحت کے بعد مصررہوں گا کہ وہ کٹر ہندو ہیں اور ان کی نگاہ میں ان دنوں بنگلہ دیش میں ہندوئوں کی زندگی اجیرن بنائی جارہی ہے۔ وہ پاکستان کی فوج کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ موصوفہ ایک زمانے میں شام کے صدر بشارالاسد کی بھی بہت مداح رہی تھیں۔ وہ ان سے ملنے شام بھی گئی تھیں اور یہ تاثر لے کر لوٹیں کہ شاید اسد حکومت داعش کے خلاف لڑرہی ہے اور داعش کو وہ دورِ حاضر کا سب سے بڑا خطرہ تصور کرتی ہیں۔ پاکستان کے ایک ٹی وی چینل پر ادا کئے میرے کلمات سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ڈاکٹر شہباز گل کا تاہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ انہوں نے میرا نام ان تک پہنچانے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ ربّ کریم انہیں خوش رکھے۔ مجھے مگر امریکہ کا ویزا درکار نہیں۔ آخری بار 2016میں وہاں گیا تھا۔ میرا ویزا پانچ سال کا تھا۔میں لیکن فقط تین دن نیویارک میں گزارنے کے بعد واپس آگیا تھا۔ امریکی سفارت خانہ کی دعوتوں میں مدعو کئے جانے کا بھی مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔ مجھے خواہ مخواہ مشہور اور اہم بنانے میں گل صاحب لہٰذا گریز کریں تو ان کی مہربانی ہوگی۔ 

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت