سلام آباد (صباح نیوز) ایک ایسے دور میں جہاں علاقائی انضمام مثر رابطوں پر منحصر ہے، پاکستان کی اسٹریٹیجیک جغرافیائی پوزیشن خشکی میں گھری وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے ایک اہم راستہ فراہم کرتی ہے، اور یوں یہ ریاستیں پاکستان کے لیے کم لاگت والی اور تزویراتی طور پر فائدہ مند تجارتی پارٹنر ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم، ان علاقوں کے درمیان تجارتی امکانات کو سمجھنے کے لیے پالیسی، تکنیکی، اور علاقائی چیلنجز پر قابو پانا ضروری ہے، جس کے لیے تعاون اور بصیرت افروز حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔
یہ ڈاکٹر فیصل جاوید، ڈاکٹر عظمی سراج، اور پروفیسر ڈاکٹر آرکاڈیوس زوکووسکی کی تصنیف کردہ کتاب ‘بریجنگ ہورائزنز: پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان روابط کا معمہ’ کی تقریبِ رونمائی کا مرکزی موضوع تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کے اشاعتی بازو آئی پی ایس پریس کی طرف سے شائع کردہ اس کتاب میں پاکستان اور وسطی ایشیا کے تعلقات کے تاریخی، اقتصادی اور پالیسی سے متعلق پہلوں کا جائزہ لیا گیا ہے، نیز اس میں مضبوط روابط کو فروغ دینے کے لیے درپیش چیلنجز اور میسر مواقع پر عمل کرنے کے لیے بصیرت بھی فراہم کی گئی ہے۔
اس تقریبِ رونمائی کا انعقاد وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ایف یو یو اے ایس ٹی)، اسلام آباد میں کیا گیا تھا، جس میں مہمان خصوصی کے طور پر ازبکستان میں پاکستان کے سابق سفیر ریاض حسین بخاری نے شرکت کی، جبکہ تقریب سے چیئرمین گیلپ پاکستان پروفیسر ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی، ، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمن ، نائب چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین، وفاقی اردو یونیورسٹی کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر احشام الحق، اور یونیورسٹی کے شعبہِ بین الاقوامی تعلقات کی سربراہ ڈاکٹر عظمی سراج نے خطاب کیا۔
اس تقریب میں اسکالرز، سفارتکاروں، پالیسی سازوں اور طلبا کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جو ملک میں پاکستان-وسطی ایشیا تعلقات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا عکاس ہے۔ مقررین نے علاقائی تجارت کے اہم کردار، پائیدار ثقافتی اور تاریخی بندھنوں اور کثیر جہتی رابطوں کے لیے پاکستان کے اسٹریٹجک محل وقوع پر روشنی ڈالی۔ کتاب کے مرکزی مقالے پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر عظمی سراج نے اس بات پر زور دیا کہ رابطے علاقائی انضمام کی بنیاد ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کااسٹریٹیجیک محلِ وقوع خشکی میں گھری وسطی ایشیائی ریاستوں کو عالمی منڈیوں سے جوڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت کی صلاحیت بہت زیادہ ہے ، لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے بہت سے چیلنجز پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے بتایا کہ مذکورہ کتاب متبادل راستوں کی تلاش سمیت رابطے بڑھانے کے لیے قابل عمل حکمت عملی بھی پیش کرتی ہے۔ سفیر ریاض حسین نے نوٹ کیا کہ راستوں کی تلاش کے علاوہ پالیسی پر عمل درآمد کو یقینی بنانا اور معاہدوں کو عملی شکل دینا ضروری ہے، اور یہ اس تناظر میں اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ پاکستان نے 1991 سے اب تک وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ 255 سے زیادہ دوطرفہ اور کثیر الجہتی مفاہمت ناموں، پروٹوکولز اور معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ مضبوط پالیسیوں اور سرمایہ کاری سے دو طرفہ تجارت 4 بلین ڈالر تک بڑھ سکتی ہے۔ اقتصادی پہلو کو مزید اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر احشام الحق نے پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان تجارتی صلاحیت پر تفصیل سے بات کی۔ بین الاقوامی تجارت کے کشش ثقل کے ماڈل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح وسطی ایشیا پاکستان کے لیے ایک کم لاگت اور اسٹریٹیجک طور پر فائدہ مند تجارتی شراکت دار بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز گیلانی نے زمینی اور سمندری راستوں کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی، جو صدیوں سے سلطنتوں اور عالمی تجارتی حرکیات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں ان راستوں کو ، بالخصوص چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت ،علاقائی تجارت اور رابطے کے لیے بحال کیا جا رہا ہے ۔ اس کی توثیق کرتے ہوئے سفیر ابرار حسین نے نشاندہی کی کہ یہ کتاب باہمی مواقع کو پہچاننے اور تاریخی روابط کو استوار کرنے کے لیے بصیرت فراہم کرتی ہے، کیونکہ وسطی ایشیا اور پاکستان کے درمیان کثیر جہتی تاریخی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات ہیں جو وادی سندھ کی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے کے بعد پاکستان کی کوششوں پر روشنی ڈالی، جس میں کاسا 1000، ٹاپی اور ٹرانس افغان ریلوے جیسے اقدامات کا حوالہ دیا۔ اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیا کے سنگم پر پاکستان کی منفرد جغرافیائی پوزیشن کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ تزویراتی فائدہ پاکستان کو علاقائی رابطوں کا مرکز بننے کا بے مثال موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس صلاحیت کا ادراک کرنے کے لیے نہ صرف حکمت عملیوں کی ضرورت ہے بلکہ مستقل پالیسی کے نفاذ اور فعال علاقائی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بامعنی علاقائی روابط اور قومی فائدے کے حصول کے لیے جامع انضمام کی حکمت عملی اور دور اندیشی ضروری ہے۔—