اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنے کے خلاف دائر درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردی۔جبکہ بینچ نے اعلی ٰعدلیہ کے ججز کی سینیٹ،قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیوں کے جلاسوں میں شرکت اور تقاریر کے خلاف دائر درخواست بھی عدم پیروی کی بنیاد پرخارج کر دی۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عائشہ اے ملک نے ٹیکس اور میڈیا کے حوالہ سے ایک ، ایک کیس سننے سے معذرت کرلی۔ جبکہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئینی بینچ کی حکمت عملی ہے کہ کیسز جلد سن کرفیصلہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر وفاق اورصوبے اپنا کام کریں گے تو عدالتوں کوازخود نوٹس لینے کی ضرورت نہیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر6سال گزرنے کے باوجودوفاق اورصوبوں نے منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں پر ٹیکس لگانے کے حوالہ سے قانون نہیں بنایاتوپھر کیسز 20،20سال چلتے رہیں گے۔
اگرکیسز کولے کربیٹھے رہیں گے توپھر ہوگیا کام۔جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم بیٹھ کرقانون نہیںبنائیں گے، درخواست گزارکہہ رہے ہیں کہ نیاقانون اس طرح بنالیں، یہ ہماراکام نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پرمشتمل7رکنی آئینی بینچ نے منگل کے روز سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 3میں کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے سید محمود اختر نقوی کی جانب سے حال ہی میں وزیر اعظم کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں وفاق پاکستان کوسیکرٹری برائے قانون وانصاف کے توسط سے فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزارنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دینا تھے ۔ تاہم درخواست گزاردوران سماعت پیش نہ ہوئے۔ آئینی بینچ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لئے مقرر درخوا ست عدم پیروی کی بنیاد پرخارج کردی۔ جبکہ بینچ نے ملازمت سے نکالے جانے کے معاملہ پر سعید احمد کھوسو کی جانب سے سیکرٹری وزارت پیٹرولیم وقدرتی وسائل کے توسط سے وفاق پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کادرخواست گزارکے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ سوئی سدرن گیس کمپنی کامعاملہ ہے یہ آئینی مسئلہ کس طرح ہے۔ اس پردرخواست گزارکاکہنا تھا کہ 3رکنی بینچ نے یہ معاملہ آئینی بینچ کوبھیجا تھا۔اس پر آئینی بینچ کی رکن جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ میں اُس 3رکنی بینچ کاحصہ تھی ہم نے بھیجا تھا بلکہ درخواست گزارنے خود کہا تھا کہ آئینی بینچ کو بھیج دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ریگولربینچ کے سامنے جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 2رکنی کا فیصلہ ہے 3رکنی بینچ سنے گا۔ عدالت نے معاملہ 3رکنی ریگولر بینچ کوبھجوادیا۔جبکہ آئینی بینچ نے منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے زیر زمین پانی نکالنے کے معاملہ پر ٹیکس کے نفاذ کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے 6دسمبر2018کے فیصلے پرعملدآمد کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھاکہ ایک عملدرآمد بینچ بنا تھااُس کاکیا بنا ، ایک کمیشن بھی بناتھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ صوبوںنے قانون بنایا کہ نہیں، اگر عملدآمد کامعاملہ ہوتوہائی کورٹ چلے جائیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ایک روپیہ فی لیٹر پانی پیسے جمع ہورہے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ پنجاب اورخیبرپختونخوا نے قانون سازی کرلی ہے،سند ھ میں 7کارپوریشنز نے قانون بنالیا ہے جبکہ صوبہ میں قانون نہیں بناجبکہ بلوچستان میں بھی ابھی قانون نہیں بنا، جبکہ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ اسلام آباد کے حوالہ سے وفاق نے بھی تک قانون سازی نہیں کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ یہی بیان دے دیں کہ چاروں صوبوں نے قانون بنالیا ہے، اگر6سال گزرنے کے باوجود قانون نہیں بناتوپھر کیسز 20،20سال چلتے رہیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاوفاق اورصوبوں کے لاء افسران سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگرآپ اپنا کام کریں گے تو عدالتوں کوازخود نوٹس لینے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس طرح تویہی کیس چلتے رہیں گے، اگروفاق نے قانون سازی کرنی ہے توکرلے ورنہ ہم آرڈر پاس کریں گے۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ حکومت کواسلام آباد کے حوالہ سے قانون سازی کرنی چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کااٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کوئی قانون بنانے کاارادہ ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کاکہناتھاکہ اگلی سماعت پر کیس کوختم کردیں گے۔جسٹس محمد علی مظہر کااٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ قانون بنالیں۔ بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ جبکہ آئینی بینچ نے انفرااسٹرکچر لیوی اور سیس کے نفاذ کے حوالہ سے ایم ایس چشمہ گھی ملز پرائیویٹ لمیٹڈ،ایم ایس تاج ویجیٹیبل آئل پروسیسنگ یونٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، ایم ایس حفیظ اقبال آئل اینڈ گھی انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ، انڈس موٹر کمپنی لمیٹڈ، کراچی، آئی سی آئی پاکستان لمیٹڈ، کراچی اوردیگر کی جانب سے سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، حکومت خیبرپختونخوا، پشاور، چیف سیکرٹری حکومت خیبرپختونخوا، سیکرٹری ایکسائز اینڈٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ،حکومت سندھ ، کراچی،اوردیگر کے خلاف دائر ایک ہی قسم کی 662درخواستوںپر سماعت کی۔ کیس کی سماعت کے دوران سینیٹر فاروق حمید نائیک، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل اوردیگر وکلاء پیش ہوئے۔ فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ کیس میں 662اپیلیں ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ 3صوبوں سے آئینی درخواستیں بھی ہیں، ہمارے پاس پیپر بکس نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پیپربکس سنجیدہ مسئلہ ہے، 7پیپر بکس چاہیں، سارے فیصلے اُس میں اکٹھے کر کے لگائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میرے لئے بہتر ہوگامیں یہ کیس نہ سنوں کیونکہ میں نے پہلے یہ کیس سنا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاسینئروکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے عبوری حکم دکھا دینا پھر میں فیصلہ کروں گا کہ بینچ میں بیٹھنا ہے کہ نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاوکیل شمائل احمد بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ اہم کیسز میں سپریم کورٹ رجسٹریز سے ویڈیو لنک کے زریعہ پیش نہ ہوں بلکہ اسلام آباد آکردلائل دیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھاکہ ہرصوبے اور ہردرخواست گزارکوسننا پڑے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھاکہ کوئی تودلائل شروع کرے ، اگر کوئی وکیل دلائل دیتا تو ایک، ڈیڑھ گھنٹہ ہم آج دلائل سن لیتے، اگرکیسز کولے کربیٹھے رہیں گے توپھر ہوگیا کام۔عدالت نے حکم دیا کہ سول پیٹیشنز کو اپیل کے ساتھ ملا کربینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقررکیا جائے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہناتھا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل یہ کیس سننے والے بینچ کاحصہ نہیں ہوں گے۔ عدالت نے درخواستوںپر تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کونوٹسز جاری کردیئے۔ جبکہ بینچ نے قراردیا کہ درخواست گزاروں کودیا گیاعبوری ریلیف آئندہ سماعت تک برقراررہے گا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہناتھا کہ آئینی بینچ کی حکمت عملی ہے کہ کیسز جلد سن کرفیصلہ کریں۔ بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔جبکہ بینچ نے سید ضیاء الحسن گیلانی کی جانب سے ملٹی پروفیشنل ہائوسنگ سوسائٹی اوردیگر کے خلاف پلاٹ کی الاٹمنٹ کے معاملہ پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ یہ کیس کیوں اس بینچ کے سامنے لگایا ہے، یہ کوئی آئینی کیس نہیں، کیا ایشواس کیس میں ہے، کیا ایسے ہی چلتا رہے گاکہ کبھی اِدھر آگیا، کبھی اُدھرچلا گیا، یہ ترجیح بنادی گئی ہے کہ اِس بینچ میں آجائے توجلد سماعت کے لئے مقررہوجائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ یہ بات پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں اٹھا رہے ہیں، پہلے کسی ماتحت عدالت میں یہ نقطہ نہیں اٹھایاگیا۔ عدالت نے کیس ریگولر بینچ کوبھجواتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے مرحوم صحافی محمد پرویز شوکت کی جانب سے شعیب شیخ اوردیگر کے خلاف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے رپورٹرزاورورکرز کوتنخواہیں کی ادائیگی نہ کرنے کے معاملہ پردائر توہین عدالت کی 2درخواستوں پر سماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے کیس سننے سے معذرت کر لی جس کے بعد بینچ کے سربراہ نے حکم دیا کہ یہ کیس اُس آئینی بینچ کے سامنے لگایا جائے جس کاجسٹس عائشہ اے ملک حصہ نہ ہوں۔آئینی بینچ نے سابق ڈائریکٹر بول نیوز نیٹ ورک اسلام آباد سمیع اللہ ابراہیم کی جانب سے2018میں آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت سی ڈی اے اسلام آباد اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزاریاان کے وکیل عدالت میںموجود نہیں تھے۔ عدالت نے درخواست عدم پیروی پرخارج کردی۔جبکہ بینچ نے خوشدل خان ملک کی جانب سے سپریم کورٹ ججز(لیو، پینشن اینڈپریویلجز)آرڈر1997کے آرٹیکلز 15اور16کوآئین کے آرٹیکلز205اور206کی خلاف ورزی قراردے کالعدم قراردینے کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے سیکرٹر وزارت قانون وانصاف کے توسط سے وفاق پاکستان اوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزارنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیئے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کادرخواست گزارکے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کاکون سابنیادی حق مجروح ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ جس جج کوبرطرف کیا جاتا ہے اُس کو کچھ نہیں ملتا، جو جج مستعفی ہوتا ہے اُس کو پینشن ملتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جس کومسئلہ ہو گاوہ خودآجائے گا۔ درخواست گزارکاکہناتھاکہ صدر مملکت نے 1997میں جوآرڈر پاس کیاوہ آئین کے مطابق نہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھاکہ ہم بیٹھ کرقانون نہیںبنائیں گے، درخواست گزارکہہ رہے ہیں کہ نیاقانون اس طرح بنالیں، یہ ہماراکام نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کادرخواست گزارکے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ کیاآپ چاہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ اور مستعفی ہونے پر بھی پیشن اورمراعات نہ ملیں، صاف الفاظ میں بتائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کادرخواست گزارکے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ کی درخواست میں کوئی مناسب بات نہیں۔ آئینی بینچ نے رجسٹرارآفس کے اعتراضات برقراررکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔بینچ نے افضال احمد کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس عائشہ اے ملک کادرخواست گزارکے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ آپ کی درخواست میں کوئی ایسی استدعا نہیں جو آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت آتی ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ کسی اورکیس میں اس معاملہ پر فیصلہ دے دیںگے۔ آئینی بینچ نے قراردیا کہ اس کیس کاسپریم کورٹ نے فیصلہ کردیا ہے۔ بینچ نے رجسٹرارآفس کے اعتراضات برقراررکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔جبکہ بینچ نے سید محمود اختر نقوی کی جانب سے اعلی ٰعدلیہ کے ججز کی ینیٹ،قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیوں کے جلاسوں میں شرکت اور تقاریر کے خلاف دائر درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر ارج کر دی۔درخواست گزار دوران سماعت پیش نہ ہوئے۔ جبکہ آئینی بینچ نے ایڈووکیٹ ہائی کورٹ وسیم احمد خان لودھی کی جانب سے ایک ہی واقعہ کی دوایف آئی آر ز کٹوانے کے معاملہ پردائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں آئی جی اسلام آباد پولیس اوردیگر کوفریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزاروکیل ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ بینچ نے ایک واقعہ پر 2 ایف آئی آرز کے اندراج کے کیس کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کادرخواست گزارکے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ 184-3میں کیسے آگئے، کیایہ آپ کاذاتی کیس ہے۔جسٹس محمد علی مظہرکادرخواست گزاروکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کے صغریٰ بی بی کیس کے فیصلہ کے تناظر میں دوسری ایف آئی آر کے اخراج کے لیے ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل کا درخواست گزاروکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسزکی وجہ سے ہی تو60 ہزارکیسز بنے ہیں، آپ وکیل ہیں کیوں نہ آپ کو جرمانہ کیا جائے،ہمیں60 ہزار زیر التوا کیسز بار بار یاد کرائے جاتے ہیں۔ بینچ نے درخواست گزارکی جانب سے زورنہ دینے کی بنیاد پردرخواست خارج کردی۔ ZS