ستمبر، بارانِ رحمت کا مہینہ : تحریر الطاف حسن قریشی


ہمارے اہلِ قلم عام طور پر ستمبر کے مہینے کو ’ستم گر‘ لکھتے آئے ہیں، مگر اِس بار وُہ رَحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ثابت ہو رہا ہے۔ پہلا بڑا سبب یہ کہ اِس میں بارہ ربیع الاوّل وارد ہوا ہے جو سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ کا یومِ ولادت ہے جو مختلف وجوہ سے غیرمعمولی جوش و خروش سے منایا گیا ہے۔ گھر گھر خوشیوں کے چراغ روشن ہوئے اور فضا درود و سلام کی صداؤں سے گونج اُٹھی۔ اِس بار اَعلیٰ ترین سطح پر بھی میلاد کی محفلیں منعقد ہوئیں جن میں فخرِموجودات حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے موضوع پر بڑی پُرمغز تقریریں ہوئیں اور اِس امر پر خاص طور پر زور دِیا گیا کہ مسلمانوں اور پوری دنیا کی فلاح آپ ﷺکی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔ اکثر پروگراموں میں یہ حقیقت نہایت خوبصورت انداز میں بیان کی گئی کہ پاکستان کی تخلیق کا سب سے بڑا مقصد اللہ کے آخری رسول ﷺکی شریعت کا نفاذ اور اِسلامی قانون کا نفاذ تھا اور اِسی میں ہماری ترقی کا راز پنہاں ہے۔

اِس روح پرور موقع پر اعلیٰ دماغ مقررین کی طرف سے یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺکو پہلا حکم پڑھنے کا دیا تھا۔ گویا اسلام کا مرکزی خیال علم کو پھیلانا اور جہالت کے اندھیرے ختم کرنا ہے، مگر پاکستان میں تعلیم کئی طبقات میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں بچے سرے سے اسکول ہی نہیں جاتے جبکہ ہمارے بیشتر کالج اور یونیورسٹیاں تحقیق کے جوہر سے محروم نظر آتی ہیں۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ عیدمیلادالنبی ﷺکے موقع پر جن صحت مند خیالات کا اظہار ہوا ہے اور عشقِ رسولﷺ کے جو نئےنئے قرینے سامنے آئے ہیں، اُس کے نتیجے میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کا جذبہ پائیدار ثابت ہو گا اور معاشرے میں حریتِ فکر اور مساوات قائم کرنے کا عمل جاری رہے گا۔

عیدمیلادالنبی ﷺاِس لیے بھی غیرمعمولی جوش و خروش سے منائی گئی کہ ستمبر کے مہینے میں ہی آج سے پچاس برس پہلے ہماری قومی اسمبلی نے دو تین ماہ کی بحث و تمحیص کے بعد ایک بہت بڑا فیصلہ کیا تھا جس میں ’قادیانیوں، احمدیوں، لاہوریوں ‘کو غیرمسلم اقلیت قرار دِیا گیا تھا۔ قادیانیوں کی جارحانہ سرگرمیوں کے باعث اُنکے خلاف مسلمانوں میں شدید بےچینی پائی جاتی تھی۔ اِس کا پہلی بار مظاہرہ پنجاب کے اندر 1953 میں ہوا۔ اِس کی بڑی وجہ یہ بنی کہ سر ظفراللہ خاں نے قائدِاعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی، حالانکہ وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے وہ موقع پر موجود تھے۔ اُن کے عقیدے کے مطابق قائدِاعظم مسلمان ہی نہیں تھے۔ اِس واقعے نے ایک گہرا زخم لگایا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین نے بنیادی اصولوں کی رپورٹ پیش کی تھی اور دَستورسازی کا عمل آگے بڑھ رہا تھا۔ بدقسمتی سے پنجاب میں فسادات شروع ہو گئے اور حالات اِس قدر بےقابو ہوئے کہ سیکرٹری دفاع میجرجنرل اسکندرمرزا کے کہنے پر لاہور میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا، لیکن شمعٔ ختمِ نبوت کے پروانے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے عوامی مہم کو تیز کرتے رہے۔ ایک خونیں منظر مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ غالباً مارچ 1953 کے اوائل میں ایک روز مَیں اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب اچھرے جانے کیلئے اریگیشن سیکرٹریٹ سے نکلا اور جین مندر کے نزدیک پہنچ گیا۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ختمِ نبوت کے نعرے لگاتے ہوئے لٹن روڈ سے جین مندر کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں فوج کے دستے بڑی تعداد میں مسلح کھڑے تھے۔ اُنہوں نے ایک ریڈلائن دی کہ جو بھی اِسے عبور کرے گا، اُسے گولی مار دِی جائے گی۔ اِس تنبیہ کے باوجود پُرجوش نوجوان ریڈلائن عبور کرنے لگے، تو فوج نے گولی چلا دی اور پروانوں کی ایک قطار خون میں لت پت ہو گئی۔ اِسکے بعد ایک اور قطار آگے بڑھی اور وُہ بھی گولیوں کا نشانہ بنی۔ مَیں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پندرہ بیس نوجوان شہید ہوتے دیکھے۔ مجھ پر ایک ہیبت طاری ہو گئی۔ مَیں نے متبادل راستہ اختیار کیا اور گھر پہنچا۔ بخار نے آ لیا اور مَیں ایک ہفتہ اُٹھ نہیں سکا۔ سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے اربابِ اختیار کو پورا مسئلہ سمجھانے کیلئے ’قادیانی مسئلہ‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ لکھا جس پر وہ مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیے گئے اور اُنہیں فوجی عدالت کے سربراہ نے سزائےموت دے دی جو پمفلٹ کے دو جملے بھی درست نہیں پڑھ سکے تھے۔ مَیں اُس عدالت میں موجود تھا۔

مسٹربھٹو کے دورِ حکومت میں بھی ایک ناخوشگوار وَاقعے کے نتیجے میں اِس مسئلے نے دوبارہ سر اُٹھایا۔ اُنہوں نے عملی فراست سے کام لیتے ہوئے یہ حساس معاملہ قومی اسمبلی کے حوالے کر دیا۔ اُس میں مسلم مقررین نے بڑی سنجیدگی سے کوشش کی کہ حقائق اور دَلائل کی روشنی میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دَے دیا جائے۔ غالباً اگست 1974ءکے وسط میں قادیانیوں کے خلیفہ مرزاناصر کو بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ وہ تقریباً دو ہفتے اپنا موقف بیان کرتا رہا۔ فیصلے میں تاخیر کے باعث مسلمانوں میں شدید بےچینی پیدا ہوتی جا رہی تھی۔ ایک روز میرے قریبی دوست جناب مصطفیٰ صادق میرے پاس آئے اور کہنے لگے کل مسٹربھٹو سے ملنے کیلئے کوئٹہ جانا ہے ۔ معاملہ سنگین اہمیت کا ہے، تمہارا ساتھ جانا ضروری ہے۔ مَیں اُن کے ہمراہ کوئٹہ چلا گیا جہاں وزیرِاعظم بھٹو چند روز سے قیام پذیر تھے۔ ہم نے اُن سے کہا کہ یہ پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ آپ نے جان بوجھ کر معاملہ لٹکایا ہوا ہے، اِس لیے آپ جلد کوئی تاریخ مقرر کر دیجیے۔ وہ چند لمحے خاموش رہے اور پھر کہا اِن شاء اللہ سات ستمبر کو قطعی فیصلہ آ جائے گا۔ ہم یکم ستمبر کو واپس آئے اور وَاقعی 7 ستمبر 1974 ءکو قومی اسمبلی نے ’قادیانیوں، احمدیوں اور لاہوریوں ‘کو غیرمسلم اقلیت قرار دَے دیا۔ اِس اعتبار سے 7ستمبر ہماری تاریخ میں غیرمعمولی حیثیت رکھتا ہے۔ اِن اجتماعی سرشاریوں کے علاوہ اِس مہینے میں مجھے اپنی ذات کے حوالے سے بھی خوشی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے میری کتاب ’قافلے دل کے چلے‘ پر روزنامہ جنگ میں ایک ایمان افروز کالم لکھا جس سے مجھے عجب طرح کی روحانی طمانیت ملی۔ یہ کتاب جناب عبدالستار عاصم نے قلم فاؤنڈیشن سے شائع کی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ