قرآنِ کریم : سورة التوبہ، آیات 23 تا 24، ارشادِ ربّانی ہے،
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَائَکُمْ وَِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَائَ ِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الِْیمَانج وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (٢٣) قُلْ ِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَال اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَة تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ ِلَیْکُم مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّیٰ یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ قلے وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ (٢٤)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو بھی اپنا رفیقِ کار نہ بناؤ، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیۖ! ]اِن اہلِ ایمان سے[ کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جِن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اُس کے رسولۖ اور اُس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتطار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا”۔
قرآنِ کریم: سورة اٰلِ عمران، آیت 164، ارشادِ باریٔ تعالیٰ ہے،
لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ (١٦٤)
”بلاشبہ! اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا کہ ان ہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا جو اُنہیں کتاب اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور اُنہیں پاک کرتا ہے اور اُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور یقینا اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے”۔
قرآنِ کریم اہلِ ایمان کو رہنمائی دیتا ہے کہ رسول اللہۖ کی اتباع، آپۖ کی اطاعت اور پیروی سے ہی اللہ تم سے محبت کرے گا اور گناہوں کو معاف کردے گا۔ جو نبیۖ پر ایمان لاتے ہیں تو وہ نبیۖ کی مدد (نصرت) کرتے ہیں، نبیۖ کی عظمت، آپۖ کی ختمِ نبوت، شانِ رسالت کا دفاع کرتے ہیں اور جو نور (یعنی قرآنِ کریم) نبیۖ پر اُتارا گیا ہے اُس کی اتباع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمدۖ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے اور پوری کائنات پر آپۖ کا بلند و بالا مقام واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیم(سورة القلم، آیت4)، ”اور بِلاشبہ آپۖ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں”۔ اچھا اخلاق اعلیٰ نفسیات کا مالک ہونے کی علامت ہے اور فکر و عقل میں اعلیٰ توازن رکھنے والا ہی اعلیٰ نفسیات کا مالک ہوتا ہے۔ رسول اللہۖ کے فرمان کے مطابق آپ ۖ کو اخلاقِ عالیہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اور آپۖ کے اخلاق ٹھیک ٹھیک قرآنِ کریم کے مطابق تھے۔
دینِ اسلام کے تین بنیادی اصولوں میں سے دوسرا یہ ہے کہ نبی کریمۖ کی قدر و منزلت اور اہمیت اچھی طرح سمجھ لی جائے، اُس کے مطابق عمل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ آپۖ کائنات کی وہ اعلیٰ ترین ہستی ہیں جن پر ایمان لانے سے متعلق قبر میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اِسی لیے آپۖ کے اُسوۂِ حسنہ کی پیروی ، آپۖ سے محبت اور اُس محبت کے عملی تقاضوں کی تکمیل کے لیے سعی کرنا بھی بندۂ مومن کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اپنے تمام معاملات میں آپۖ کو نمونہ بناکر ہی طریقۂ کار کی اقتداء کی جائے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (اٰلِ عمران ٣: ٣١):
قُلْ ِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ قلے وَاللَّہُ غَفُور رَّحِیم (٣١)
”اے نبیۖ! کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے”۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الاحزاب ٣٣: ٢١):
لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَة حَسَنَة لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیرًا (٢١)
”یقینا تمہارے لیے رسول اللہۖ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور یومِ آخرت کی اُمید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے”۔
رسول اللہۖ کی پیروی کرنے سے ہی ہدایت پاجانے کی نوید ہے۔ رسول اللہۖ کی سُنت سے جو اِعراض کرتا ہے اُس کا رسول اللہۖ سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنے اہل و عیال، والدین اور دیگر تمام عزیز و اقارب سے بڑھ کر رسول اللہۖ سے محبت رکھی جائے۔ یہ اَمر پُختہ کرلیا جائے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک رسول اللہۖ اُس کو اُس کی اولاد، والدین اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں، یہ ہی رسول اللہۖ کا فرمان ہے۔ انسان یومِ جزا و سزا اور آخرت میں اُنہی کیساتھ ہوگا جِن سے اُس نے اس دنیا میں رہتے ہوئے محبت کی ہوگی۔
رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے:
”جو شخص محبت کرے تو اللہ کے لیے، ناراض ہو تو اللہ کے لیے، دے تو اللہ کی رضا کے لیے اور نہ دے تو اللہ کو خوش کرنے کے لیے، اُس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا”۔
ایلِ ایمان میں سے ہر وہ فرد خوش بخت ہے جس میں نبی کریمۖ سے محبت کی یہ علامات موجود ہوں کہ وہ آپۖ کی اقتداء کرتا ہے، آپۖ کی سُنتِ مبارکہ کی پیروی کرتا ہے، آپۖ کے احکام بجا لاتا ہے اور آپۖ کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرتا ہے۔ بدحالی ہو یا خوشحالی، تنگی ہو یا آسانی وہ آپۖ کے ہی آداب و اخلاق اختیار کرتا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو اُس کو ترجیح دیتا ہے اور اُس پر عمل کرنا پسند کرتا ہے، وگرنہ وہ اپنے دعوۂِ محبت میں سچا نہیں۔ یہ ہی عمل حقوقِ مصطفٰےۖ کی پابندی کراتا ہے۔
خاتم الانبیاء والرسل حضرت محمد مصطفی ۖ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے بغیر اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اختیار کئے بغیر بنی نوعِ انسان کی کامیابی و نجات ممکن ہی نہیں۔ اوراس نجات سے صرف اُخروی نجات ہی مرادنہیں بلکہ حقیقت میں دنیاکی تلخیوں اور مشکلات سے نجات بھی دامن رسالت محمدیہۖ سے وابستہ ہونے ہی میں ہے۔ قرآنِ کریم نے اسی اُخروی سعادت کو وَذٰلِکَ الفَوزُ العَظیمُ ( ) (سورة النسائ٤: ۔۔۔) اور ان اہل ایمان و اہل سعادت کو أُولٰئِکَ ہُمُ المُفلِحونَ ( )۔ (سورة البقرة ٢: ۔۔) سے تعبیر کیا ہے۔ اور دنیوی زندگی میں بھی خوش بختی و کامرانی، امن وسکون اور عافیت و بھلائی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی جو شریعت ِمحمدیہۖ کے صحیح پیروکار اور دین اسلام کو مکمل طور پراپنانے والے ہوں گے ، اور یہ دعویٰ محض عقیدت و محبت کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اِس کی بنیاد واضح حقائق اور ٹھوس دلائل ہیں جو قرآن و سُنت سے ثابت ہیں ؛ نیز عقل و منطق کی میزان اور تاریخ و واقعات کی کسوٹی سے بھی یہ ثابت ہے۔
اِسی لییے رسول اللہۖ سے محبت کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ پختہ ایمان رکھے کہ
مَّا کَانَ مُحَمَّد أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَٰکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ(٤٠)
”محمدۖ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں”۔
آپۖ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپۖ تمام جنات اور انسانوں کو ہر خیر کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور ہر شر سے ڈرانے والے ہیں۔ بندۂ مومن کی آپۖ سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ کافروں، منافقین، کھلم کھلا اللہ کی راہ سے پِھرے ہوئے لوگوں کی اطاعت نہ کرے، اِس عمل سے جتنی بھی تکلیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو برداشت کرے، صبر کرے اور کوئی پرواہ نہ کرے۔ اللہ پر توکل رکھے، اِس لیے کہ ہمارے لیے اللہ ہی کارساز ہے۔
رسول اللہۖ کا فرمان ہے کہ
”قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ہر اُس اُمت میں سے جسے بھی میرے نبی ہونے کے بارے میں علم ہوجائے، چاہے وہ یہودی ہو، وہ عیسائی ہو اور وہ میری رسالت و شریعت پر ایمان لائے بغیر مرجائے تو وہ جہنمی ہوگا”۔ (صحیح مسلم (کتاب الایمان): 386)
رسول اللہۖ کی دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے، تمام جنوں کے لیے ہے، جو قیامت تک قائم ہے۔ جو شخص آپۖ کو تکلیف دے گا یا سب و شتم کرے گا اُسے سزا دینے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود اُٹھا رکھا ہے، اِس دنیا میں بھی اور اور آخرت میں بھی۔ حضرت حسان بن ثابت نے حضورۖ کی ہِجو کرنے والے کو نہایت جامع جواب دیا:
”تونے حضرت محمدۖ کی ِہجو کی تو میں نے اُس کا جواب دیا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کے پاس اِس کی جزا ہے۔ میرے ماں باپ اور میری عزت حضرت محمدۖ کی ناموس پر قربان ہے”۔
امام ابنِ قیم فرماتے ہیں:
”محبت کی شرط یہ ہے کہ رسول اللہۖ سے محبت کی وجہ سے اپنے محبوبِ کامل کی موافقت کرے اور نافرمانی سے بچے۔ لیکن اگر تو محبت کا دعویٰ بھی کرے اور محبوب کی پسندیدہ چیز کی مخالفت بھی کرے تو تیرا دعوی جھوٹا ہوگا۔ کیا تو اپنے محبوب کے دشمنوں سے محبت رکھتا ہے، پھر بھی اُس سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے؟ یہ ناممکن بات ہے۔ اِسی طرح تُو اپنے محبوب کے دوستوں سے شدید دشمنی بھی رکھتا ہے۔ اے شیطان کے پیروکار! بتا تیری محبت کِدھر ہے؟”
علامہ اقبال عاشقِ رسولۖ تھے۔ انہوں نے اپنے کلام میں کہا
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیۖ
اور
کی محمدۖ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
سیرتِ رسول اللہۖ کی روشنی میں ہمارے معاملات اور محبت کے عملی تقاضے:
٭ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن لوگوں تک پہنچادیں جو اِن کے حق دار ہیں۔ اسلام میں ہر عمل جو نیک نیتی اور اُسوۂ رسولۖ کی پیروی میں کیا جائے وہ ایک عبادت ہے۔ امانتیں سپرد کرنے کا اسل حق یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات میں اخلاق کی بنیاد کو مضبوط بناؤ۔
٭ اہلِ ایمان کے معاملات کی پہلی بنیاد تقویٰ ہے۔ خوفِ خدا، اللہ کے باخبر ہونے کا اھساس، اُس کے موجود ہونے کا احساس کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، ہمارے ساتھ ہے، ذاتِ باریٔ تعالیٰ کُھلے چُھپے اعمال اور نیتوں سے بھی آگاہ ہے، اس احساس کا ہر لمحے دل میں جاگزیں ہونا تقویٰ کہلاتا ہے۔
٭ ایمان والوں کے لیے بہت ہی اہم بنیاد اسلامی اُخوت ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا ہے کہ ”ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے، نہ زیادتی کرتا ہے نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ ہی اُسے حقیر سمجھتا ہے”۔ پھر اپنے دل کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”تقویٰ یہاں ہے”۔ پھر فرمایا کہ ”کسی شخص کے ُبرا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے”۔ (صحیح مسلم: 2564)۔
٭ ایمان والوں کے درمیان تعلقات کی پائیدار اِس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ اُن کے درمیان جو بھی معاملات ہوں وہ باہمی رضامندی سے ہوں۔ اس میں کوئی جبر و کراہ نہ ہو۔ اور قرآن ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔ البتہ باہمی رضامندی سے لین دین ہو (تو اِس میں کوئی حرج نہیں) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقین رکھو کہ اللہ تم پر مہربان ہے”۔ (النساء ٤: ٢٩)
٭ مسلم معاشرہ میں اہلِ ایمان کے لیے امانت بہت اہم بنیاد ہوتی ہے، کہ ہم کوئی بھی معاملہ کریں تو اُس میں ڈنڈی نہ ماریں، غلط بیانی نہ کریں، بدنیتی اور خیانت نہ ہو۔ رسول اللہ ۖ نے منافق کی نشاندہی فرمادی ہے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”منافق کی تین نشانیاں ہیں: (١) جب بات کرے تو جھوٹ بولے، (٢) جب وعدہ کرے تو اُسے توڑدے (پورا نہ کرے) اور (٣) جب اُسے کوئی امانت سپرد کی جائے تو اُس میں خیانت کرے”۔ آپۖ کا یہ بھی فرمان ہے کہ ”جس میں امانت داری نہیں، اُس میں ایمان نہیں”۔ (مسند احمد)
٭ دائرۂِ اسلام میں موجود ہر فرد، ہر اُمتی کے لیے سچائی پر قائم رہنا، سچ بولنا بہت اہم ہے۔ انسان جو بھی معاملہ کررہا ہو اُسے چھپائے نہیں۔ مال میں خامی ہو تو ظاہر کرے۔ آپۖ کا فرمانِ مبارک ے کہ ”جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں”۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غرور و تکبرکرنے، احسان جتلانے اور جھوٹی قسمیں کھاکر اپنا مال بیچنے کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور ایسے عمل کرنے والے کو دردناک عذاب کی وعید دی گئی ہے۔
رسول اللہۖ سے محبت کے عملی تقاضے یہ بھی ہیں کہ زندگی افراط و تفریط کا شکار نہ ہو۔ انی زندگی میں توازن اور راہِ راست پر رہنے کا ذوق شوق ہو، عدل و انصاف کی روِش ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ظلم زیادتی اور ناانصافی تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ غیبت کے ذریعے دوسرے بھائی کی کردار کشی معاشرے میں فساد کا باعث اور اللہ ربّ العزت کے نزدیک بہت ہی بُرا عمل ہے، اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ پنج وقتہ نمازوں کی پابندی، رمضان کے روزوں کی حفاظت، زکواة کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ استطاعت دے تو حج کا فریضہ ادا کرنا وہ بنیادی ارکانِ اسلام ہیں جو اہلِ ایمان پر فرض ہیں۔نماز اعمالِ صالحہ کی طرف رغبت اور مومن کے لیے تمام برائیوں سے بچنے کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”بے شک نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے” (سورة العنکبوت ٢٩: ٤٥) ۔
#
لیاقت بلوچ،نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان