کم و بیش پچھلے تین سال سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کارِ جہاں گھمبیر، نبٹنے میں دیر کر دیتے ہیں۔27اکتوبر 2022ء جنرل ندیم انجم DG ISI کا میڈیا سے براہِ راست خطاب، ملکی تاریخ کا حیران کن واقعہ تھا۔ مرکزی خیال2 ہی، عمران خان کا سائفر بیانیہ جھوٹا جبکہ ارشد شریف قتل کی واقعاتی شہادتیں سامنے لائے ۔ عمران خان پہلی بار 2022ءمیں مقبول سیاست سے جب متعارف ہوئے ، بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی۔ دسمبر 2021ءمیں سیاست کے’’زیرو‘‘ کو چند ماہ بعد سائفر جھوٹ نے ہیرو بنا ڈالا۔
12اپریل 2022ءکو میرے بیٹے حسان خان نے عمران خان کے سیاسی مستقبل بارے پوچھا، میرا جواب! ’’چھ ماہ اندر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں سے ایک نے بچنا ہے۔ اگرچہ عمران خان پہلا راؤنڈ جیت چکا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لیکر سیاسی مستقبل مخدوش ہے‘‘۔ عمران دورِ حکومت کرپشن، نااہلی، بد انتظامی ہر شعبہ میں بدترین کارکردگی، دوسری طرف 2018ءالیکشن میں وعدوں پر زمین اور آسمان کے قلابے ضرور ملائے، وفا نہ ہوسکے۔ عمران خان کی کامیابی کہ بھیانک دورِ حکومت سے صرف ِنظر ہے، زیر بحث ’’سائفر جھوٹ ہے یا سائفر سچ ہے۔ ایسا ناممکن! اسٹیبلشمنٹ کی طاقت، عمران خان سے ہار جائے‘‘۔ عمران خان کو اقتدار چھننے کی بھنک پڑی تو براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو اپنی توپوں کے دہانے پر رکھ لیا۔ جنرل باجوہ کو جب میر جعفر کہا تو عمران مخالفین میں جنرل باجوہ کا دفاع کرنیوالوں کی تعداد صفر تھی۔ دوسری طرف، جنرل باجوہ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا کہ مفاد کو نظر انداز کرنے میں تھا۔ 8/9 ماہ اسٹیبلشمنٹ کی گومگو کی کیفیت میں عمران خان بذریعہ سوشل میڈیا، جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ سائفر بیانیہ پر بھرپور تائید حاصل کرتا رہا۔ تا آنکہ ملکی سیاست کا محور اکلوتا عمران خان بن گیا۔
27اکتوبر 2022جنرل ندیم انجم کی پریس کانفرنس میں سچ سامنے آیاتو تب تک عمران خان کا جھوٹ ملکی طول و عرض اور کرہ ارض کے درجنوں چکر لگا چکا تھا۔ ارشد شریف قتل کیس پر بھی جنرل ندیم نے جھوٹ کا خوب احاطہ کیا اور واقعاتی شہادتوں کی تفصیل دی مگر عمران خان اس سے فائدہ اٹھا چکا تھا۔ عمران خان نے ستمبر 2022میں ادارے پر چڑھائی کی ٹھانی کہ ’’لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر‘‘ کی بطور آرمی چیف ممکنہ تعیناتی رکوانی تھی، ایک جہاں ششدر تھا۔ راولپنڈی GHQ پر لشکر کشی کی منصوبہ بندی، 9 مئی 2023سے زیادہ بھیانک واقعہ سمجھتا ہوں۔ ستمبر اکتوبر میں رائے عامہ کو اُکسایا بھڑکایا، مارچ پر آمادہ کیا۔ لائیوTV نشریات، جلسے، ریلیاں، انٹرویو، بیانات میں رَٹ ایک ہی کہ ’’جنرل عاصم منیر کو چیف نہیں بننے دینا‘‘، ’’اسلام آباد مارچ جہاد اکبر ہے‘‘۔ عمران سوشل میڈیا ٹیم نے بیہودگی، بے شرمی، بازاری زبان کی بھرمار کر ڈالی۔ ارشد شریف کا قتل لانگ مارچ میں جان ڈالنے کا تڑکا تھا کیونکہ جہاد کمپین کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں مل رہی تھی۔ عمران خان نے پلک جھپکتے ایسا تاثر پھیلایا جیسے قتل میں جنرل عاصم منیر یا اسکے زیر اثر کچھ افسران ’’ڈرٹی ہیری، XYZ ‘‘جیسے نام، ملوث تھے۔ جنرل ندیم DG ISI نے جب تک ارشد شریف قتل کی کچھ گتھیاں سلجھائیں، عمران خان سیاست اس سے فائدہ اٹھا چکی تھی۔ ہمیشہ کی طرح دیر کر دی۔ کاش اپریل میں سائفر پر اور اگلے دن ارشد شریف قتل پر تفصیلات آ جاتیں تو عمران خان کا مکو ٹھپنے میں کچھ آسانی ہوتی۔
پچھلے ہفتہ کے کالم اسٹیبلشمنٹ کی’’نیت اور اہلیت‘‘ میں جو رونا رویا تھا ،دو دن پہلے دیکھنے کو ملی۔ اسلام آباد جلسہ کی تقاریر PTI کے گلے پڑنے کو تھیں کہ پارلیمنٹ پر حملہ، اسٹیبلشمنٹ کی نااہلی مستحکم کر گیا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کسی طور اپنی گوشمالی بھی کر پائیگی؟ آج اتحادی حکومت، سیاسی جماعتیں مدافعت پر، چند دن پہلے مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم پر آمادہ نظر آئے، آج انکاری ہیں۔ تحریک انصاف جلسہ کے جرائم سے بھی توجہ ہٹ چکی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کےوائس چانسلر کی تعیناتی پر نئی تکلیف دہ خبر، اسٹیبلشمنٹ پر خطرناک الزام چسپاں ہے۔ وائس چانسلرز زور زبردستی لگوائے ہیں اور وجہ مذہبی وابستگی بتائی گئی ہے۔ ایک تاثر اور بھی کہ پچھلے چند سال سے وطنی طول و عرض میں میرٹ سے زیادہ مذہبی وابستگی ترجیح بن چکی ہے۔ اگر صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، اداروں کے سربراہان اور دیگر ایسے ذمہ دار ان تعیناتیوں پر ایسی ترجیحات رکھیں گے تو پھر مملکت کیلئے “اناللہ” ہی پڑھ لیں۔
عمران خان سیاست کی PERCEPTION MANAGEMENT کو فُل مارکس، اِدھر عمران خان بات گھڑتا ہے، سوشل میڈیا اسکو الہام بتاتا ہے۔ یہی وجہ ،جب تک عمران خان کا جھوٹ پکڑا جاتا وہ دنیا کی سیر مکمل کر کے واپس، موصوف کا نیا جھوٹ رختِ سفر باندھ چکا ہوتا ہے۔ عمران بجائے حساب دینے کے حساب لیتا ہے۔
جنرل فیض حمید کی گرفتاری پردلچسپی اتنی کہ کیا ماضی کی طرح اس بار بھی عمران خان حساب کتاب دینے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے حساب کتاب لے گا؟ یقین کامل، اِدھر چند ہفتوں کی تاخیر، اُدھر عمران خان کی Perception Management حقائق پر غالب آ جائیگی۔ جنرل فیض حمید کے بارے یکسو کہ 10 اپریل 2022 یا اس سے کچھ پہلے، عمران خان سیاست کو تسلسل سے طاقت فراہم کی۔ جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ، ضمنی انتخابات، پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ، عدالتی فیصلے، اسکے پیچھے یا اوپر ’’سب فیض کا کرم تھا‘‘ کہ عمران خان کی بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ مت بھولیں کہ جنرل باجوہ کی اشیرباد کے بغیر فیض ایک بندہ ناچیز تھا۔ گمان اغلب، 29 نومبر 2022 کے بعد جنرل فیض نے جو کچھ کیا، اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے کیا ہو گا۔ نپی تلی رائے، حرکات و سکنات بعد از ریٹائرمنٹ بمطابق اسکرپٹ تھیں، چنانچہ عمران خان اپنے انجام کو پہنچنے کو ہیں۔ شرط اتنی کہ ہمیشہ کی طرح دیر نہ ہو جائے، فیض حمید کارڈ بھی پہلے کی طرح کہیںEXPIRE ہو کر غیر موثر نہ ہو جائے۔ میں مان ہی نہیں سکتا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل فیض اپنے طور پر ایسی بہیمانہ حرکت کا سوچتے۔ یقیناً یہ عمران خان کیلئے ’’ہنی ٹریپ‘‘ ہی ہو گا۔ مملکت کو بحران سے نکلنے کا آخری موقع ہے۔ امید ہے سچ آئیگا، حق جب آتا ہے تو جھوٹ بھاگ جاتا ہے۔
دہراؤں گا، وطنی مستقبل کا انحصار جنرل عاصم منیر پر ہے۔ آج تک یقیناً انکا ہاتھ اللہ تعالیٰ نے پکڑ رکھا ہے۔ میرا تجسس کہ غیبی مدد عاصم منیر کاکب تک اور کہاں تک ساتھ دے گی؟ حکمت عملی میں غلطی، کوتاہی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سزا کا کھاتا علیحدہ، گنجائش نہیں ہے۔ فیض حمید آپکے پاس آخری پتہ، اگر اس سے کچھ نہ نکلا تو پھر صلح کرنا ہوگی۔ جو ’’کٹا کٹی‘‘ سامنے لائیں، ریاست کے رُخ کا تعین ہو جائیگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ