خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ اکثر لوگ سوتے میں خواب دیکھتے ہیں۔ آج کل ہمارے کچھ سیاست دان جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھتے ہیں۔خواب اچھے بھی ہوتے ہیں اور بہت برے بھی ہوتے ہیں۔10ستمبر کی رات مجھے کچھ ارکان پارلیمنٹ کی زبانی ان کے خواب سننے کا موقع ملا ۔ یہ خواب دراصل ان کے تخیل کی پرواز تھی جس میں نفرت اور انتقام کے سائے لہرا رہے تھے۔ یہ ارکان پارلیمنٹ قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرنا چاہتے ہیں جس میں رواں سال کے دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں دس صحافیوں کے قتل کی مذمت اور قاتلوں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے یہ ارکان پارلیمنٹ دس مقتول صحافیوں کے نام قرارداد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور یہ نام پوچھنے میرے پاس تشریف لائے تھے کیونکہ میں نے کچھ دن قبل جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں ان مقتولین کا ذکر کیا تھا۔ گفتگو کے دوران 10ستمبر کی صبح پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی گرفتاریوں کا ذکر چل نکلا۔ ایک نوجوان ایم این اے صاحب بتانے لگے کہ جب 9ستمبر کی شام مجھے پتہ چلا کہ پولیس نے پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ پر ناکہ لگا لیا ہے اور ہمیں گرفتار کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو میں ٹہلتا ہوا گیٹ کی طرف چلا گیا۔ پتہ چلا کچھ دیر قبل شیر افضل مروت کو گرفتار کیا جا چکا ہے کسی نے پولیس والوں کو میرے بارے میں بتایا کہ یہ بھی تحریک انصاف کا ایم این اے ہے لیکن پولیس والوں نے مجھے نظر انداز کر دیا۔ ایم این اے صاحب بہت حیران ہوئے کہ انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے ایک پولیس اہلکار سے پوچھا کہ آپ مجھے کیوں نہیں پکڑتے؟ پولیس اہلکار نے بڑی شان بے نیازی سے کہا کہ تم تو شکل سے ہی ایم این اے نہیں لگتے کیونکہ ایم این اے جینز اور ٹی شرٹ پہن کر اجلاس میں نہیں آتے۔ یہ سن کر ایم این اے صاحب مسکرائے اور خراماں خراماں چلتے پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ سے باہر آ گئے۔ کچھ دیر شاہراہ دستور پر کھڑے ہو کر پارلیمنٹ ہاؤس کی سفید عمارت کو غور سے دیکھتے رہے۔ انہیں یاد آیا کہ اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے والے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا جو 1973ء کے آئین کے خالق بھی تھے۔ ایم این اے صاحب نے شاہراہ دستور عبور کی اور پیدل پارلیمنٹ لاجز کی طرف بڑھ گئے۔ اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ کر انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ تحریک انصاف کے گرفتار ارکان قومی اسمبلی کی رہائی کیلئے کوئی حکمت عملی بنائی جائے لیکن ان کا رابطہ نہ ہو سکا۔ ان کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ سے ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں کے خلاف پشاور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دی جانی چاہئے ۔ابھی وہ اس خیال سے اپنا دل بہلا ہی رہے تھے کہ گھڑی کی سوئیوں نے انہیں 9سے 10ستمبر میں پہنچا دیا۔ کچھ دیر کے بعد انہیں پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے ایک ساتھی ایم این اے نے فون پر اطلاع دی کہ وہ عمارت کے اندر ہی موجود ہیں اور کچھ نقاب پوش عمارت کے اندر داخل ہو چکے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں موجود کئی ایم این اے اپنے اپارٹمنٹس کی بالکونیوں میں آ گئے اور موبائل فون کے کیمروں سے فلمیں بنانے کی کوشش کرنے لگے لیکن نقاب پوشوں کو پارلیمنٹ ہاؤس کے عملے کی طرف سے مکمل تعاون فراہم کیا جا رہاتھا۔اس تعاون کے نتیجے میں اچانک پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت اندھیرے میں ڈوب گئی پھر جوبھی ہوا اندھیرے میں ہوا اور کیمروں کی آنکھیں انسانی جسموں کی بجائے کچھ سیاہ سائے ہی دیکھ پائیں۔ ان سیاہ سایوں نے 10ستمبر کو ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ سیاہ سائے ارکان پارلیمنٹ کو گھسیٹ کر اپنی سیاہ گاڑیوں تک لائے اور صبح کی روشنی نمودار ہونے سے پہلے ہی اندھیروں میں گم ہوگئے۔ اس تاریخی کارروائی پر پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت رنجیدہ ہے جو ایم این اے صاحبان میرے سامنے بیٹھے تھے وہ رنج والم کی حدود پھلانگ کر انتقام کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ایک ایم این اے نے غضبناک انداز میں کہا کہ یاد رکھنا ! کبھی ہمارا وقت بھی آئے گا ہم اس حکومت کے وزیروں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے خوشامدیوں کے ساتھ بھی اپنا حساب برابر نہیں کریں گے بلکہ جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس سے کچھ زیادہ کریں گے۔ میں نے پوچھا کیا مطلب؟ کہنے لگے مانا کہ عمران خان کے دور میں مسلم لیگ (ن) والوں پر غلط مقدمے بنے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔ مسلم لیگ (ن) والے بھی یہی کچھ کر لیتے تو حساب برابر ہو جاتا لیکن انہوں نے تو ہماری عورتوں اوربچوں کو بھی نہیں بخشا بلکہ ہمیں پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے گھسیٹ گھسیٹ کر گرفتار کیا ہے۔ ہم انہیں سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ میں نے گزارش کی کہ آپ تو انتقام کے خواب دیکھ رہے ہیں اور بھول رہے ہیں کہ اسپیکر ایاز صادق نے پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے گرفتاریوں کیخلاف کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے نوجوان ایم این اے صاحبان کا خیال تھا کہ یہ گرفتاریاں پولیس نے نہیں بلکہ نامعلوم افراد نےکی ہیں جو سب کو معلوم ہیں۔ ان کیخلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ ایم این اے کا خیال تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) والوں نے کسی برے انجام سے بچنا ہے تو پھر انہیں سب سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر 10ستمبر کے واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنی ہو گی۔ اس کارروائی کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو اسلام آباد پولیس کی کوئی ضرورت نہیں۔ گزشتہ سال قومی اسمبلی اور سینٹ نے توہین پارلیمنٹ کا ایک قانون منظور کیا تھا اس بل کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح کرنے والے یا توہین کرنے والے شخص کو کم از کم 6ماہ قید اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس سزا کا فیصلہ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کر سکتی ہے۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کو شامل کیا جائے گا۔ کمیٹی کو سول عدالت کے اختیارات حاصل ہوں گے۔کمیٹی توہین پارلیمنٹ کے کسی بھی ملزم کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس کمیٹی کے سامنے جھوٹ بولنا بھی توہین پارلیمنٹ کے زمرے میں آئے گا۔ کمیٹی کے فیصلوں پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعہ عملدرآمد ہو گا ۔اس کمیٹی کے فیصلوں کیخلاف اپیل بھی اسپیکر یا چیئرمین سینٹ سنے گا۔ قانون موجود ہےتو پھرا سپیکر قومی اسمبلی کو 10ستمبر کے واقعے کی تحقیقات کیلئے پولیس کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔ توہین پارلیمنٹ کی کارروائی کیلئے کمیٹی بنائیں اور اپنے بنائے ہوئے قانون کو خود آزمائیں۔ ایک دوسرے کیخلاف انتقام کے خواب دیکھنےسے بہتر ہے کہ پاکستان کا معتبر ترین قانون ساز ادارہ اپنے بنائے ہوئے قانون پر عملدرآمد کرائے۔ 9مئی 2023ء کے واقعات کے ذمہ داروں کو بھی سزا ملنی چاہئے اور 10ستمبر 2024ء کے واقعے کے ذمہ داروں کو بھی سزا ملنی چاہئے ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ