معلق محل سے آتی صدائیں : تحریر وجاہت مسعود


کہانی ختم نہیں ہوتی، کہانی کہنے والے کو کسی موڑ پر خاموش ہونا پڑتا ہے۔ جیسے ہم سب کو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ سردیوں کی کہر زدہ شام ہو گی یا موسم گرما کی صبح میں پھیلتی ہوئی دھوپ، ایک روز خاموش ہونا ہے۔ ہماری چپ سے دنیا کا شور ختم نہیں ہو گا، بچے بستہ اٹھائے روزانہ کی طرح اسکول روانہ ہوں گے، سبزی والا اپنی ریڑھی پر، معمول کے مطابق، ہرے پتوں پر سرخ گاجر اور سفید مولی کی ڈھیریاں سجاتا رہے گا۔ محبت کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، دلوں میں کوئی گہرا راز چھپائے، آنے والی خوشیوں کے خواب دیکھتے رہیں گے۔ کائنات کی تمثیل بغیر رکے جاری رہے گی۔ ٹھیک اسی نمونے پر اگست 1948ءمیں سعادت حسن منٹو نے پاکستان میں اپنا پہلا افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ لکھا تو اس کا آخری جملہ تھا، ’ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔‘ افسانہ نگار کا شاہکار مکمل ہو گیا لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کہانی کو تو جاری رہنا تھا۔سو آج اس کہانی کا کچھ حصہ بیان کرنا ہے جسے لکھنے کا حق منٹو کا قلم ہی ادا کر سکتا تھا۔ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کا اگلا باب ہم نے ایک نیم خواندہ لکھنے والے کی پستک سے دریافت کیا ہے ۔

یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا کریا کرم بٹوارے کی لکیر کے آر پار کہاں کیا گیا۔ یہ جانتے ہیں کہ لاہور میں اس مقام سے چند فرلانگ پر واقع پاگل خانہ پاکستان کے حصے میں آیا جہاں مارچ 1931 ءمیں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔ہندو اور سکھ پاگل یہاں سے بھیج دیے گئے مگر فصیل نما اونچی دیواروں میں پاگل خانے کی آبادی بڑھتی گئی اور یہاں رہنے والوں کا جنون بھی رفتہ رفتہ بڑھتا رہا۔ پھر یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا کہ ان دیواروں کے اندر رہنے والے پاگل ہیں یا آس پاس گلی کوچوں میں چلتے پھرتے بظاہر بھلے چنگے لوگوں کی عقل ماری گئی ہے۔ سرکار والاتبار اس صورتحال سے خوش نہیں تھی۔ شاہی محل اور حرم سرا میں مسکوٹ کی گئی۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ لاکھوں میل پر پھیلی مملکت میں کلبلاتی مخلوق کے جنون کا بندوبست ممکن نہیں رہا۔ مناسب یہ ہے کہ محل سرا اور دوسرے حساس مقامات کو ہوا میں معلق کر دیا جائے۔اس عظیم تعمیراتی منصوبے کا بنیادی خیال یہ تھا کہ آلودہ ہوا کی چادر تلے پھیلی دلدلی بستیوں سے اوپر خوشگوار ہوا میں تیرتے بادلوں میں صاحبان اختیار کے دفتر اور کاشانے تعمیر کیے جائیں۔ ضرورت کے مطابق فرمان اور احکامات رعایا تک پہنچا دیے جائیں۔ تاکہ بندگان ذی وقار ذہنی توازن ، علم اور خوشی سے محروم ہجوم کی بدنما آوازوںاوراوٹ پٹانگ حرکتوں سے محفوظ رہیں۔ اس منصوبے میں دو رکاوٹیں تھیں۔ زمین میں بنیاد یں رکھے بغیرعمارتیں کیسے تعمیر ہوں اور انہیں فضا میں معلق رکھنے کا بندوبست کیسے کیا جائے۔ صاحبان دانش نے اس مشکل کا حل ڈھونڈ نکالا۔ مردار ڈھانچوں کو نوچنے والے اور کچرے کے ڈھیروں سے خوراک ڈھونڈنے والے پرندوں کی دو انواع تلاش کی گئیں۔ ان عجیب الخلقت پرندوں کا کتاب نصاب میں کوئی نام نہیں تھا البتہ چند نشانیوں سے انہیں پہچانا جا سکتا تھا۔ پرندوں کی ایک نسل کے لیے اسماعیل میرٹھی کی نظم دیکھئے’کوے ہیں سب دیکھے بھالے‘۔ (باقی نظم نقل کرنا ممکن نہیں کیونکہ کچھ مصرعے قومی مفاد کے منافی ہیں)۔کارآمدہ پرندوں کی دوسری قسم کے بارے میں میر تقی میر کا ایک مصرعہ مفید مطلب ہے۔ ’ بیگانہ وضع تو ہوں پر آشنا زدہ ہوں‘۔انیسویں صدی میں برطانیہ کے ایک مدبر بنجمن ڈزرائیلی(Benjamin Disraeli)ہوتے تھے۔ ڈزرائیلی صاحب جن دنوں وزیراعظم نہیں ہوتے تھے ، ناول لکھتے تھے۔ 1845 میں Sybilکے نام سے ایک ناول لکھا۔ ذیلی عنوان تھا ’دو قومیں‘۔ بنیادی خیال یہ تھا کہ ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں جن میں باہم کوئی ربط نہیں، باہم ہمدردی نہیں ہوتی۔ ان کی عادات، خیالات اور طور اطوار ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک اور لباس تک مختلف ہوتے ہیں۔ ڈزرائیلی اپنے گھر میں دانش مند ہو گا لیکن وہ بھی ان دو مختلف شہروں کو زمین اور خلا کی زیریں اور بالائی سطحوں پر آباد کرنے کا تخیل نہیں رکھتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ کبھی کبھار ’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘جیسے پاگلوں کے محل سرا پر چڑھ دوڑنے کا اندیشہ باقی رہتا تھا۔ ہر انسانی خیال میں کہیں نہ کہیں کوئی رخنہ تو باقی رہ جاتا ہے۔ منٹو کی کہانی کے بعد جنم لینے والے ’جزیرہ سخن وراں‘ میں بھی ایک رخنہ باقی رہ گیا اور وہ یہ کہ خلا میں آباد سرکار دولت مدار اور زمین پر بسنے والے افتادگان خاک میں رابطے کے لیے جو مخلوق دریافت کی جائے گی اس کے ارادوں کی پرچہ نویسی کون کرے گا۔ مردار خوروں کے اس انبوہ نے اگر عالم بالا میں معلق محلات پر قبضے کی خواہش پال لی تو بندگان عالی اس کا کیا علاج کریں گے۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔ ہمارے دریافت کردہ مخطوطے میں کچھ صفحات خط مرموز میں لکھے ہیں ۔ کچھ حصے پڑھے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر رواں برس 28 جولائی کو ظہیر الحسن شاہ نامی ایک شخص نے ریاست کے منصف اعلیٰ کو سرعام خوفناک دھمکیاں دیں۔ کسی نے اس کے منہ میں دانت نہیں گنے۔ 20اگست کو مانسہرہ میں حبیب شاہ نامی ایک شخص نے اجتماع عام میں ناقابل اشاعت بدزبانی کی۔ 22اگست کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ناقابل تصور مناظر دیکھنے میں آئے۔ 7ستمبر کو مینار پاکستان پر قومی سطح کے ایک مذہبی رہنما کی موجودگی میں دھمکیوں کا دائرہ اس قدر بڑھ گیا کہ سرزمین پاکستان پر شاید ہی کوئی شہری اس کی زد سے محفوظ سمجھا جا سکے۔ اگر ریاست اور شہری میں خلا پیدا ہو جائے تو معلق محل کے اندر سے بھی وہ صدائیں سنائی دیتی ہیں جو آٹھ ستمبر کی رات سنگجانی راولپنڈی میں ایک صوبائی وزیراعلیٰ کے دہن مبارک سے سنائی دیں۔

سب جسے دیکھتے ہیں وحشت سے

یہ مری آستیں سے نکلا ہے

بشکریہ روزنامہ جنگ