”مادر ِجمہوریت محترمہ کلثوم نواز شریف“۔۔۔۔تحریر: سردار عبدالخالق وصی

محترمہ کلثوم نواز شریف کو خلد آشیاں ہوئے چھ سال بیت گئے ہیں۔11 ستمبر 2018 کو لندن کے ایک ھسپتال میں محترمہ کلثوم نواز شریف کی روح قفس عنصری سے آزاد ھوئی اور آغوش جاوداں میں منتقل ھوگئیں
انا للہ واناالیہ راجعون ۔موت امر ربی اور تقاضائے فطرت ہے اس سے کسی کو بھی استثنا حاصل نہیں۔ لیکن بعض ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کی یاد ان سے وابستہ جدوجہد، کارہائے نمایاں اور دکھ و کرب کے دل فگار واقعات کے باعث ہمہ وقت اسکی یاد تازہ رھتی ھے ۔ محترمہ کلثوم نواز شریف کا انتقال سانحہ ارتحال اہل پاکستان کے دلوں میں بالعموم اور مسلم لیگی کارکنان کے دلوں میں بالخصوص تادیر یاد رکھا جائیگا۔ پاکستان کی تاریخ میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ایسی خواتین راہنما گذری ہیں جن کی جمہوریت کیلئے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اسی طرح محترمہ کلثوم نواز شریف جمہوریت کی بحالی اور آمر وقت کیخلاف جرات اور مزاحمت کی علامت بن کر ابھری ،وہ ذاتی زندگی میں ایک گھریلو خاتون تھیں اور علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق تھیں کہ
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
پاکستان میں جو بھی فوجی آمرگذرے ہوں یا سول بیوروکریٹ جب ان کو عنان اقتدار ملی انہوں نے جمہوریت کا گلہ گھوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ جنرل ضیاءالحق جو بظاہر بڑے دھیمے مزاج کے انسان اور طبعاً مطیع و فرما بردار لگتے تھے ذوالفقار علی بھٹو شہید جیسے زیرک سیاستدان بھی ان کو سمجھنے میں خطا کھا گئے اسی طرح جنرل پرویز مشرف بھی بظاہر ایک پروفیشنل جنرل لگتے تھے لیکن قائد محترم محمد نواز شریف جیسے باریک بین سیاستدان سے ان کے انتخاب میں سہو و فروگزاشت ہو گئی اور ان دو جرنیلوں میں سے ایک نے اپنے محسن کی جان لے لی اور دوسرے نے شب خون مار کر اپنے ساتھیوں کی مدد سے اپنے محسن کو نہ صرف اقتدار سے الگ کیا ان کے اور ان کے خاندان کیلئے عرصہ حیات قید و بند اور جبری جلا وطنی میں تبدیل کر دیا۔
محترمہ کلثوم نواز شریف نے اس جرنیل کے مظالم کا اس جرات اور بہادری سے مقابلہ کیا کہ وہ مزاحمت کی علامت بن گئیں۔ جب لاہور میں ان کی گاڑی کو لفٹر کے ذریعے گھنٹوں ہوا میں معلق رکھا گیا ایک نرم دل خاتون ہونے کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی۔ وہ جمہوریت بچانے نکلی تو ان کی تقاریر اور الفاظ کا انتخاب ایسا کاٹ دار اور سریع الاثر ہوتا تھا کہ ایوان اقتدار کی چولیں ہل جاتی تھیں۔ یہ ان کی تقاریر اور جد وجہد تھی کہ جنرل پرویز مشرف کو میاں محمد نواز شریف و محمد شہباز شریف اور خاندان کے افراد کو پاکستان میں قید و بند رکھنا مشکل ھو گیا اور انہیں جبری جلا وطنی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ جب بین الاقوامی دباؤ کے پیش نظر محترمہ بے نظیر بھٹو کو واپس لانے کا دباؤ بڑھا تو پرویز مشرف کو
محمد نواز شریف اور انکے خاندان کو بھی واپس لانے پر مجبور ہونا پڑا۔ میاں محمد نواز شریف کو جس سیٹ سے نا اہل کر کے ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کی گئی تھی اسی نشست پر محترمہ کلثوم نواز شریف ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ انتخابات کے دوران ہی محترمہ پر بیماری کا شدید حملہ ہوا تو آپ کو علاج کیلئے لندن جانا پڑا اور آپ کی انتخابی مہم آپ کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف نے چلائی ناروا جبر و ستم کے باوجود NA-120 کامعرکہ انتخاب محترمہ کلثوم نواز شریف کی کامیابی کی صور ت میں ان کی بیٹی محترمہ مریم نواز شریف نے جیتا۔محترمہ کلثوم نوازشریف سال بھر زیرِ علاج رہیں،11ستمبر عین اس دن جام اجل نوش کیا جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا یوم وصال تھا۔ اسے حسن اتفاق کیے یا منشاءایزدی کہ قائد محترم محمد نواز شریف کا یوم پیدائش25دسمبر ہے جو یوم ولادت قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ بھی ہے۔ محترمہ کلثوم نواز کے جسد خاکی کو 13 ستمبر کو پاکستان لایا گیا اور 14ستمبر بعد از نماز عصر جاتی امرا میں آسودہ خاک کیا گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون
وہ لمحات تاریخ میں صدیوں محفوظ رہیں گے جب محترمہ کے شوہر نامدار قائد محترم پاکستان محمد نواز شریف اور ان کی لخت جگر ان کو بلاتے بلاتے جابر حکمرانوں کی قید کاٹنے لندن سے جہاز پر بیٹھے اور ان کو لاہور ائیر پورٹ پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔ لاہور کی سڑکیں عوام کے جم غفیر سے اٹی ہوئیں تھیں لیکن لوگوں کو ائیرپورٹ تک اپنے قائد کے دیدار کیلئے نہ پہنچنے دیا گیا۔ آج جبکہ محترمہ کلثوم نواز کی چھٹی برسی ہے ان کی حیات مستعار کا جستہ جستہ ذکر نذر قارئین پیش خدمت ہیں۔
عالمی شہرت کے حامل غلام محمد المعروف گاما پہلوان کے ہاں پیدا ہونے والی دختر نیک اختر رضیہ خاتون کی شادی کشمیری خاندان کے چشم و چراغ ڈاکٹر حفیظ بٹ کیساتھ طے پائی تو کسے علم تھا کہ اس خاندان میں پیدا ہونے والی بیٹی کلثوم حفیظ اسقدر خوش قسمت اور نصیبوں والی ہو گی کہ اسے یکے بعد دیگرے تین بار خاتون اوّل کا منفرد اعزاز حاصل ہو گا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی کو آج تک حاصل نہیں ھوا ۔محترمہ کلثوم حفیظ اپنی دو بہنوں ںسعیدہ عامر اور خدیجہ حفیظ دو بھائیوں لطیف بٹ اور آصف بٹ مصری شاہ عزیز روڈ کے ایک حویلی نما مکان میں1950ءمیں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم مدرسة البنات میں حاصل کی ایف اے اسلامیہ کالج اور گریجویشن ایف سی کالج سے کی۔ ایم اے اُردو پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ محترمہ کلثوم حفیظ کے والد محترم ڈاکٹر حفیظ بٹ ایلو پیتھک معالج تھے لیکن شریف النفس اور خدا ترس ایسے کہ آپ کا کلینک مرجع خلائق عام تھا اس دور میں اگرچہ ڈاکٹروں کی فیس زیادہ نہیں ہوتی تھیں لیکن ڈاکٹر حفیظ بٹ بہت معمولی فیس لیتے۔ غریبوں اور مستحق افراد کا مفت علاج کرتے اس شرافت اور شہرت کے چرچے قرب و جوار تک پھیلے ہوئے تھے کشمیری تہذیب و ثقافت، شرافت، نفاست ، سلیقہ شعاری، فرمابرداری اور تعلیم و تربیت ایسی کہ ھر لحاظ سے منفرد و یکتا۔قدیم تصور یہی ھے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں۔02اپریل1971ءمیں محترمہ کلثوم حفیظ کی شادی محمد نواز شریف کے ساتھ طے ہوئی اور وہ کلثوم حفیظ سے کلثوم نواز شریف کہلائیں۔ میاں شریف کا گھرانہ پہلے سے اتفاق و اتحاد کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن بیگم کلثوم نواز کے اس گھرانے میں ورود مسعود سے خاندان کی عزت و توقیر کو چار چاند لگنا شروع ہو گئے۔ اللہ نے دولت وثروت پہلے ہی وافر مقدار میں عنایت فرما رکھی تھی بیگم کلثوم کے آنے سے اس دولت و ثروت کوعزت و تکریم ، خیر و برکت اور فوز وفلاح کا جامہ مل گیا۔ بیگم کلثوم نواز کلیتاً ایک گھریلو مشرقی روایات کی پاسدار خاتون تھیں لیکن جب میاں محمد نواز شریف حریم اقتدار میں داخل ہوئے اور انہیں گورنر پنجاب کی کابینہ میں مشیر خزانہ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں تو بیگم کلثوم نواز نے محمد نواز شریف کی رفیقہ حیات سے بڑھ کر سیاسی معاملات میں مشیر و مدیر کا کردار بھی ادا کرنا شروع کیا جس کا اعتراف میاں محمد نواز شریف نے متعدد بار نجی محفلوں میں کیا۔ بیگم کلثوم نواز کے مشورے ایسے ہوتے کہ اس سے میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کو مہمیز ملی لیکن بیگم کلثوم نواز نے اولاد کی تعلیم و تربیت اور خاندان کے اتحاد و یگانگت میں کمی نہیں آنے دی۔ 1999ءمیں جب میاں محمد نواز شریف کی حکومت پر شب خون مارا گیا تو آپ نے گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھا اور مسلم لیگ کے کارکنوں کو متحرک اور ایک قوت و طاقت میں تبدیل کرنے کیلئے بڑی محنت، بصیرت اور خدا داد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ یہ بیگم کلثوم نواز ہی تھی جس نے آمر وقت کو للکارا اور جنرل مشرف کو یہ اندازا ہوا کہ اگر میاں محمد نواز شریف ملک کے اندر بے شک جیل میں ہی رہا تو اسے حکومت کرنا مشکل ہو گی تو اس نے سعودی عرب کے ولی عہد شاہ عبداللہ کی پیش کش کو غنیمت جانتے ہوئے انہیں ملک سے دس سالوں کیلئے جلا وطن کر دیا۔ یہ بیگم نواز شریف ہی تھیں جنہوں نے میاں نواز شریف کی قید کے دوران مسلم لیگ(ن) کو منظم و متحرک رکھا اوراس دوران دو سال تک مسلم لیگ(ن) کی قائم مقام صدر بھی رہیں۔پاکستان میں جب بھی کسی فوجی ڈکٹیٹر نے اپنی ہوس اقتدار کو پورا کرنے کیلئے جمہوری حکومت پر شب خون مار کر منتخب حکمرانوں کو پابند سلاسل کیا تو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر محترمہ نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اور پھر محترمہ کلثوم نواز جیسی عظیم خواتین نے آگے بڑھ کر آمر وقت کا مردانہ وار مقابلہ کیا سڑکوں پر ماریں کھائیں حتیٰ کہ جنرل مشرف نے محترمہ کلثوم نواز کی گاڑی کو لفٹر کے ذریعے چھ گھنٹے تک ہوا میں معلق رکھا لیکن ان کے بلند حوصلوں کو پست نہ کیا جا سکا۔ فوجی ڈکٹیٹر کیخلاف بحالی جمہوریت کی اس جدوجہد میں خواتین کی کثیر تعداد بیگم کلثوم نواز کی معاون و مددگار تھیں جن میں بیگم نجمہ حمید، بیگم طاہرہ اورنگزیب، بیگم عشرت اشرف، تہمینہ دولتانہ اور دیگر بے شمار خواتین نے بیگم صاحبہ کا ساتھ و حوصلہ بڑھایا۔ بیگم کلثوم نواز نے مخلص مسلم لیگی کارکنوں کو بکھرنے نہیں دیا اور ایک لڑی میں پروئے رکھا لیکن بعض جاہ پسند و مفاد پرستوں نے مشکل کی اس گھڑی میں نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن بیگم کلثوم نوا زشریف نے ان لوگوں کے احترام میں کمی نہیں آنے دی بیگم کلثوم نواز نے ایک وفادار، سلیقہ شعار اور برد بار رفیقہ حیات کی حیثیت سے میاں نواز شریف کو حوصلہ اور استقامت پر گامزن رکھنے میں اہم کردار ادا کیا یہی وجہ ہے کہ آج اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی کارکنان کی کثیر تعداد ملک میں آمریت کے مقابلے اور جمہوریت کی بقا وتحفظ کیلئے محترمہ کلثوم نواز کی خدمات پر انہیں خراج عقیدت اور فراخدلانہ طور پر ان کی خدمات کا اعتراف کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مردکے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے میاں نواز شریف کی کامیابیوں کے پیچھے ان کی والدہ کی دعائیں اور رفیقہ حیات کی بصیرت، فہم و فراست اور تدبر و بردباری بدرجہ اتم موجود اور ساتھ رہیں۔ بیگم کلثوم نواز شریف عارضہ سرطان میں مبتلا ہونے کے باعث صاحب فراش اور لندن میں زیر علاج ہوئیں جب تک وہ ہوش وحواس میں رہیں وہ بیماری کے باوجود بھی میاں محمد نواز شریف اور اولاد کو حوصلہ دیتی رہیں۔ بیگم کلثوم نواز سادہ منش، مضبوط اعصاب کی مالک اور خلوص و وفا کا استعارہ تھیں۔
کل من علیہا فان و یبقی وجہہ ربک ذوالجلال والاکرام۔
جو بھی روح اس کارگاہ حیات میں ہویدہ ہوئی اسے ایک روز جام اجل کو چکھنا ہوتا ہے داعی اجل کو لبیک کہنا ہوتا ہے لیکن میاں نواز شریف کو جس طرح مشکلات کی اس گھڑی میں ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت کے ذریعے ناقابل تسخیر بنانے، اقتصادی راہداری کی تعمیر، ملک کو ترقی و کمال کی طرف لے جانے،اندھیروں سے روشنیوں کی طرف بڑھانے، دہشت گردی اور قتل و غارت کے ختم کرنے کے جرم میں ایک ایسے وقت میں جیل میں بند کیا گیا جب ان کی رفیقہ حیات محترمہ کلثوم نواز کو اپنے ہمدم زیست کی زیادہ ضرورت تھی کہ وہ ان لمحات میں ان کے پاس ہوتے ان کی بیٹی اپنی والدہ کی خدمت بجا لاتی انہیں جیل کی سلاخوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بند کرکے عدالتوں میں پیش کیا جاتا رہا۔ حکمران اور دیگر جملہ ذمہ داران یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے نواز شریف کو کلثوم نواز کے جسد خاکی کو قبر تک لیجانے کیلئے چند گھنٹوں کیلئے پیرول پر رہا کرکے ان پر کوئی احسان کیا ہے اور قوم ان کے گناہ و کردار کومعاف کر دے گی میاں نواز شریف اور ان کا خاندان بے شک معاف بھی کر دیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔11ستمبر 2018 کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا 70واں یوم وفات منایا جا رہا تھا کہ یہ روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ قوم کی یہ عظیم بیٹی بیگم کلثوم نواز داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں ہیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ رب العزت بیگم کلثوم نواز کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، ان کے درجات بلند کرے اور میاں محمد نواز شریف، ان کے بیٹوں بیٹیوں، شریف خاندان اور میاں نواز شریف کے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کو اللہ پاک حوصلہ اور استقامت دے۔
الحمدللہ آج شریف خاندان تاریخ کے اوراق میں سرخرو بھی ھے اور صاحب افتخار بھی کہ محمد نواشریف پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے صدر، اور تین بار کے منتخب وزیراعظم پاکستان،انکے برادر عزیز محمد شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم وزیراعظم پاکستان،انکی بیٹی پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہنجاب، اور انکو عوامی اقتدار و افتخار سے محروم کرنے والے جرنیل پرویز مشرف ایک عدالتی سزایافتہ اور بعد ازاں دیگر سازشی عناصر مکافات عمل کا شکار دیدہ عبرت۔
تاریخ سب سے بڑی عدالت اور مکافات عمل کی چکی۔