برصغیر دنیا میں فنون اور کلچر کے حوالے سے ایک بے مثال خطہ زمین رہا ہے، یہاں کے لوگوں کی سرشت میں موسیقی، رقص، شاعری اور مصوری زندگی کے لازمی جزو کی طرح سمائے ہوئے تھے، موسیقی تو سانس کی طرح تھی۔ صدیوں سے یہاں کے لوگ ہندو مت، بدھ مت کے پرچارک تھے۔ یہاں اسلام صوفیوں کی بدولت پھلا پھولا، صوفیا نے تبلیغ نہیں عمل سے لوگوں کو گرویدہ کیا۔ آرٹ اور کلچر کے سفیر بنے، ثقافت کے علمبردار بنکر لوگوں کے دل جیتے۔ وہ تنہا رہ کر غور و فکر کرنے کی بجائے لوگوں کے درمیان رہنا پسند کرتے تھے اور اپنے حلقہ احباب کو پھیلاتے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک صوفیانہ نظام قائم کیا، صوفیا کے مختلف سلسلے ہیں اور ہر سلسلہ ایک نظام کی صورت ہے انکی رحلت کے بعد یہ سلسلے انکے پیغام کو آگے بڑھاتے رہے جسکی وجہ سے دائرہ کار وسیع ہوتا رہا۔ آج برصغیر میں کروڑوں لوگ مسلمان ہیں، ایک دور میں اسپین میں بھی بہت زیادہ لوگ مسلمان ہو گئے تھے لیکن وہاں کے صوفی اور فلسفی اپنی فکر کی کوٹھڑی یعنی اپنی ذات تک محدود رہے، ان کے نظریات کا چرچا ہوا لیکن دلوں تک رسائی والی محفل نہ میسر ہو سکی اس لئے نظریات لوگوں کی سوچ کو مائل اور قائل نہ کر سکے اور لوگ دوبارہ اپنے اصل عقائد کی طرف لوٹ گئے جبکہ برصغیر کے صوفیا کا لوگوں سے رابطہ اور تعلق مضبوط بندھن بن گیا، انہوں نے ہر طبقہ فکر کے فرد کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا، ذات پات کی تفریق کی نفی کی۔ یہ سب مثبت رویے دیکھ کر لوگوں نے دل سے اسلام کو قبول کیا اور اسے اپنے تن من میں یوں بسایا کہ کبھی واپس پرانے عقیدے کی طرف جانے کا خیال بھی نہ کیا۔ بدقسمتی سے آج ان صوفیا کے حوالے سے ہمارے ظاہر پرست مختلف منفی آرا کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ایک وجہ صوفیا کے اعلیٰ کلام کی وسعت گہرائی اور معنی و مفہوم سے ناآشنائی ہے کہ سطحی سوچ صوفیا کے افکار کا احاطہ نہیں کر سکتی، وجدان کے پلیٹ فارم سے ایک روزہ بلھے شاہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں فخر زمان، ڈاکٹر نبیلہ رحمن، منظور چوہدری، شاہد محمود ندیم، نذیر قیصر، خالد عباس ڈار، اقبال قیصر، ڈاکٹر ناصر بلوچ، مدثراقبال بٹ، الیاس گھمن، سہیل وڑائچ، سلمان غنی، منیبہ خاور، پروین سجل،محسن جعفر ، اقبال حیدر، ڈاکٹر عاصمہ ناہید، عتیق انور راجہ، سروش عزیز ،علی عثمان باجوہ،سلطان رانجھا سمیت تمام مقررین نے بلھے شاہ کی شاعری اور فلسفے کے پوشیدہ پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی،وہیں ایک سوال یہ بھی زیر بحث رہا کہ کیا بلھے شاہ جو آفاقیت کا یوں علمبردار ہے کہ پوری خلقت کو ایک نقطہ قرار دیتا ہے جو پوری دنیا کے انسانوں کو انسانیت کے ایک پرچم تلے جمع کرنے کا خواہش مند ہے ، کیا وہ سیکولرخیالات کا پرچارک ہے، بہت سے لوگوں نے اس کے حق اور خلاف بات کی۔لیکن چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے ایم ڈی احمد شہزاد خاور نے عمدہ طریقے سے بلھے شاہ کے سیکولر خیالات کی تائید کی ، ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک بلھے شاہ پر سیکولر ہونے کی بات کو الزام بنا دیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی اور منافرت پھیلانے والے طبقے نے سیکولرازم کی جو تعریف کی ہے وہی بنیادی طور پر غلط ہے جس میںتصیح کی اشد ضرورت ہے، مائیکل ہارٹ نے جب سو بہترین شخصیات کے حوالے سے کتاب لکھی تو اس نے مسیحی کمیونٹی کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ میں نے حضرت محمد ﷺ کو پہلے نمبر پر دنیا کی عظیم ترین اور کامیاب ترین شخصیت کے طور پر اس لیے منتخب کیا ہے کہ آپ مذہبی اور دیگر محاذوں پر انتہائی کامیاب انسان تھے۔ آپ کی حیات طیبہ مثالی نمونہ تھی آپ کا حسن سلوک عیسائیوں یہودیوں اور دیگر کے ساتھ بہت معتبر باوقار اور دو طرفہ تھا۔ایسے بہت سارے واقعات ہیں جن میں حضرت محمد ﷺنے مسیحی کمیونٹی کو بہت سی رعایتیں دیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا، جس طرح عیسائی عورت اگر مسلمان سے شادی کرے تو اس کو چرچ جانے سے نہیں روکا گیا اسی طرح آپ نےیہودیوں کے ساتھ کئی معاہدے کیے، فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا ، ہمیشہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی۔سیکولرازم ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیکولر خیالات کا مالک انسان بھی کسی عقیدے کا ماننے والا ہوتا ہے فرق یہ ہے کہ وہ دوسروں کی زندگی میں دخل نہیں دیتا انہیں اپنے مطابق چلنے پر مجبور نہیں کرتا بلھے شاہ کی شاعری میں حضرت محمدﷺ کی ذات سے محبت اور عقیدت کے کئی حوالے موجود ہیں لیکن وہ اپنے عقائد پر کاربند رہتے ہوئے دیگر لوگوں کے عقائد اور وجود کو یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہ بھی جیو اور جینے دو کے فلسفے کا تسلسل ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ