ہم نے سیاستدانوں کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں تو بہت سنی تھیں۔ کل دوپہر کو ہمیں ایک ایسے شخص کی کرپشن کہانیاں سننے کا موقع ملا جو کئی سال تک بہت سے سیاستدانوں کیلئے عجب بھی تھا اور غضب بھی تھا۔ اس شخص کا نام فیض حمید تھا۔
میرا خیال تھا کہ مجھے موصوف کے بارے میں بہت کچھ پتہ ہے لیکن کل ایک دوست کے ہاں تین ایسی شخصیات سے ملاقات ہوئی جنکی گفتگو سنکر ایسا محسوس ہوا کہ فیض حمید 2019ء سے 2021ء تک کسی سراغرساں ادارے کے نہیں بلکہ کسی انڈرورلڈ گینگ کے سربراہ تھے۔
فیض حمید کی لوٹ مار کے قصے سن کر مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں اور فیض کی کرپشن کا سراغ لگانے کیلئے کئی امتحاں اور بھی ہیں۔
اس محفل میں موجود ایک کاروباری شخصیت نے کوئی سنی سنائی بات نہیں کہی بلکہ وہ تو اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے۔ 2021ء میں ان صاحب پر ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور پھر فیض حمید نے خود انہیں فون کرکے کہا کہ میرا فلاں افسر آپ کو فون کریگا اس کی بات سن لیجئے گا۔ پھر فیض کے ایک ماتحت نے اس کاروباری شخصیت کو فون کرکے کہا کہ پانچ ارب روپے کیش کا بندوبست کریں۔
اسی طرح کی کئی کہانیاں سن کر میں نے حیرانی سے پوچھا کہ فیض حمید اتنی رقم کہاں رکھتے تھے؟ محفل میں موجود ایک اور صاحب نے بتایا کہ فیض حمید نے باقاعدہ ایک ڈائری میں حساب کتاب لکھ رکھا تھا۔
اس قسم کی رقوم وہ اپنے مختلف پارٹنرز کے حوالے کر دیتے تھے اور وہ ان رقوم کو ہاؤسنگ اسکیموں یا دیگر کاروباری منصوبوں میں انویسٹ کر دیتے تھے اور اس ڈائری میں موجود تفصیلات کے مطابق فیض حمید نے مختلف کاروباری منصوبوں میں 30ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ یہ رقوم کسی بینک کے ذریعے ٹرانسفر ہوئیں نہ کسی تحریری معاہدے میں انکا ذکر آیا لہٰذا فیض حمید کا ایک بزنس پارٹنر اب یہ چاہتا ہے کہ فیض صاحب کو ایسی سزا ہو کہ وہ اگلے دس پندرہ سال تک باہر نہ آئیں اور نہ ہی اپنے اربوں روپے کا حساب کتاب مانگیں۔
فیض حمید کی کرپشن کہانیوں کے ان عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ نومبر 2016ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی مہربانی سے جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے تو انکے سسر اعجاز امجد کی سفارش سے فیض حمید کو جنوری 2017ء میں آئی ایس آئی کا ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس لگایا گیا۔ باجوہ نے فیض حمید کو ایک طرف سیاسی جوڑ توڑ میں استعمال کیا اور دوسری طرف اسکے ذریعے اپنے کئی ذاتی مفادات کا تحفظ بھی کیا۔
فیض حمید پر ناصرف اپنے باس کی اصلیت کھل گئی بلکہ اُن پر کئی سیاستدانوں کی حقیقت بھی واضح ہوگئی جنہیں بند کمروں میں دبانا بڑا آسان تھا۔
باجوہ اور فیض نے ملکر نواز شریف کیخلاف سازش کی۔ ابتدا میں انکی کوشش تھی کہ نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے۔ جب شہباز شریف نے ان دونوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے انکار کردیا تو اسکے بعد انہوں نے بادلِ نخواستہ عمران خان کو ایک ایسی من پسند حکومت کا کپتان بنانے کا فیصلہ کیا جس کے ذریعے وطن عزیز میں صدارتی نظام کا راستہ ہموار کرنا تھا۔
جنرل باجوہ اور فیض کی سیاست میں کھلم کھلا مداخلت اور بلیک میلنگ کے سب سے بڑے گواہ وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ جب باجوہ آرمی چیف اور فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو میں نے اس وقت یہ کہنا شروع کیا تھا کہ ان دونوں نے 2018ء کے انتخابات سے قبل شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی۔
شہباز شریف کو میرے اس دعوے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن انہوں نے کبھی تردید نہ کی۔ باجوہ اور فیض کی بلیک میلنگ کے دوسرے بڑے گواہ آصف علی زرداری ہیں۔
فیض حمید کی کوشش تھی کہ جس طرح نواز شریف کو طبی بنیادوں پر پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا، اسی طرح زرداری صاحب بھی پاکستان سے چلے جائیں۔ زرداری صاحب نے انکار کر دیا تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
باجوہ اور فیض نے ملکر 2018ء کے انتخابات سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی بنائی۔ اس پارٹی میں قومی مفاد کے نام پر سیاستدانوں کو جمع کیا گیا۔ اس پارٹی کو صوبے اور مرکز میں بہت سی نشستیں دلوائی گئیں اور پھر اسی پارٹی کو عمران خان پر دباؤ ڈالنےکیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ عمران خان وزیراعظم تو بن گئے تھے اور میڈیا پر باجوہ کی تعریفیں بھی بہت کرتے تھے لیکن اندر سے باجوہ کو ناپسند کرنے لگے تھے۔
23مارچ 2019ء کو عمران خان کی حکومت نے میجر جنرل فیض حمید کو ہلال امتیاز (ملٹری) دلوایا تو یہ واضح ہو چکا تھا کہ فیض حمید کو آئندہ بھی اہم کردار ملنے والا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد وہ صرف دو ماہ ایڈجوٹنٹ جنرل رہے اور پھر وہ آئی ایس آئی کے سربراہ بن گئے۔ انہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل باجوہ اور عمران خان دونوں کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا۔ ایک طرف انہوں نے اپنے سے سینئر جرنیلوں کو فارغ کرنے کیلئے باجوہ کو ایکسٹینشن دلائی اور دوسری طرف عمران خان کو اپوزیشن، عدلیہ اور میڈیا سے لڑاتے رہے۔
فیض حمید ’’انڈر ورلڈ ڈان‘‘ کی طرح کام کرتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جھوٹ، مکاری اور منافقت تھی۔ وہ خود بھی یہ کام کرتے اور دوسروں سے بھی یہی کام کراتے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے کئی ناقدین سے وہ کہا کرتے تھے کہ آپ فوج پر تنقید جاری رکھیں لیکن مجھ سے دوستی کرلیں۔ مقصد یہ تھا کہ جنرل باجوہ پر تنقید کرو لیکن مجھے کچھ نہ کہو۔
آج کل آپ کو بہت سے صحافی جنرل فیض کے بارے میں تحقیقات پر تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہیں جو خلوتوں میں جنرل فیض کی خوشامد کیا کرتے تھے اور فیض اس خوشامد کی بھی خفیہ ریکارڈنگ کرلیتے تھے۔ جو صحافی قابو نہیں آتا تھا اس پر جھوٹے مقدمات بنتے اور جھوٹے الزامات لگائے جاتے۔ جھوٹے الزامات کیلئے ایک ٹی وی چینل کے دو اینکرز کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ ان دونوں نے مجھ سمیت کئی صحافیوں، سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کی اہم شخصیات پر بار بار توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا۔
مئی 2021ء میں مجھ پر پابندی لگائی گئی تو اسی چینل کا مالک مجھے کہنے لگا کہ آپ میرا چینل ٹیک اوور کرلیں۔ اس چینل کی انتظامیہ میں فیض حمید کے خاص لوگ اہم عہدوں پر فائز تھے اور فیض حمید نے اس چینل کے نام پر بھی ایک بڑا غبن کیا۔
فیض حمید کی شخصیت کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگست 2022ء میں اس نے آرمی چیف بننے کیلئے شہباز شریف کی منت سماجت شروع کی اور عمران خان کیخلاف کچھ اہم مواد حکومت کو فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ فیض حمید خوشامد میں اتنے گر گئے کہ انکے اگلے پچھلےسارے بھرم ٹوٹ گئے۔ جب وہ آرمی چیف نہ بن سکے تو انہوں نے سازشیں شروع کردیں اور ان سازشوں کا بھانڈہ بھی تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں نے پھوڑا جنہیں فیض حمید بلیک میل کر رہے تھے۔
سچ یہ ہے کہ فیض حمید کسی کے دوست نہیں تھے۔ وہ صرف اپنے دوست تھے۔ وہ دن دور نہیں جب کچھ معززین انکی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں پوری دنیا کو سنائیں گے اور پاکستانیوں کو پتہ چلے گا کہ بےچارے سیاستدان تو اس انڈر ورلڈ ڈان کے سامنے کچھ بھی نہیں تھے، یہ ڈان تو ان سیاستدانوں کو بھی لوٹتا رہا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ