اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر آئین میںخیبر پختونخوا کی بجائے کے پی لکھا ہے توپھر ٹھیک ہے،ہم صوبے کوعزت دے رہے ہیں اوروکیل کے پی کہہ کر عزت نہیں دے رہے، اس طرح توپھر پاکستان کے لئے پی، پنجاب کے لئے پی اورسندھ کے ایس استعمال کرلیں۔ وکیل یادرخواست واپس لے سکتے ہیں یا دلائل دے سکتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مئوکل کیس چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔وکیل جب غلط بیانی کریں تومسکرائیں اور معذرت نہ کریں۔
دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے بار، بار بولنے پر چیف جسٹس نے وکیل پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہرچیز ڈامہ بن گئی ہے۔جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی اجنبی کو جاکرادائیگی کردیں اور کہیں آپ زمین کے مالک ہیں۔ جوخریدتا ہے وہ پہلے دیکھتا ہے کہ جس سے خرید رہاہوں وہ خود مالک ہے کہ نہیں، میں زمین کامالک نہیں اور میں زمین بیچ دیتاہوں اوردوگواہ آکر کہہ دیتے ہیں کہ میں زمین بیچی توکیا میں ایسا کرسکتا ہوں۔اگر فیکٹس کے تعین کامعاملہ سپریم کورٹ میں آجائے گا تو پھر تھوڑا مسئلہ ہوجائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ خان آفریدی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سوموار کے فائنل اور سپلیمنٹری کازلسٹ میں شامل 11کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے سیاب خان مرحوم کے لواحقین کی جانب سے مسمات وصال بیگم اوردیگر کے خلاف دائر وراثت کے معاملہ پردائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے محمد ارشد یوسفزئی بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل کیس چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل یادرخواست واپس لے سکتے ہیں یا دلائل دے سکتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مئوکل کیس چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ جسٹس یحییٰ افریدی کاکہنا تھا کہ وکیل کو کہنا چاہیئے کہ میں درخواست واپس لینا چاہتا ہوں۔ عدالت نے زورنہ دینے کی وجہ سے درخواست خارج کردی۔ بینچ نے ایم ایس سرتنگی مائننگ کمپنی کی جانب سے ایم ایس کان مائننگ انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بنیادی فیکٹس بتادی، کیا تنازعہ تھا، کوئی ازدواجی جھگڑا تھا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ نیفرائٹ دھات کاجھگڑا تھا، یہ دھات آرائشی مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، یہ دھات زیادہ چین کوبرآمد ہوتی ہے کیونکہ چین میں اس دھات کی مذہبی اہمیت ہے۔ وکیل کی جانب سے کہا گیاکہ یہ کیس کے پی سے تعلق رکھتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا صوبہ کانام نہیں۔اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ خیبرپختونخوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر آئین میںخیبر پختونخوا کی بجائے کے پی لکھا ہے توپھر ٹھیک ہے،ہم صوبے کوعزت دے رہے ہیں اوروکیل کے پی کہہ کر عزت نہیں دے رہے، اس طرح توپھر پاکستان کے لئے پی، پنجاب کے پی اورسندھ کے ایس استعمال کرلیں۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے پاس لائسنس ہے کہ نہیں، سرکارکے بارے میں بتائیں،قبیلہ کے بارے میں نہ بتائیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئندہ یورآنر اور مائی لارڈکہنا ختم کردیں اور صرف کیس چلائیں، پلیز یور آنر کہنا بند کردیں آدھاوقت تومائی لارڈ، یورآنر کہتے رہیں گے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہاں کھڑے ہوکرتیاری کررہے ہیں، کیس کے بنیادی فیکٹس نہیں پتا، قانون بتائیں۔ بینچ نے محمد اسلم کی جانب سے محمد اسلم اوردیگر کے خلاف زمین کے قبضہ کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس یحییٰ خان آفریدی کاکہنا تھا کہ اگر فیکٹس کے تعین کامعاملہ سپریم کورٹ میں آجائے گا تو پھر تھوڑا مسئلہ ہوجائے گا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ بینچ نے ہمایوں کی جانب سے مسمات نصیب زیبا اوردیگر کے خلاف مکان کی خریداری کے معاملہ پر دائر 2درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے ارشد محمود بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ یہ کیس سوات ، خوازہ خیلہ سے متعلق ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہناتھا کہ بیٹے کا ٹائٹل کہاں سے آیا، اس شخص کاٹائٹل کہاں سے آیا اورانہوں نے آگے بیچا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ شیررحمان نے مکان اپنی زندگی میں ہی نصیب زیبا کو تحفہ میں دے دیا تھا۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ جس نے بیچی وہ انکارکررہے، کیسے ادائیگی کی، کیش دیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہنا تھا کہ پہلے اس کا ٹائٹل دکھائیں گے جس سے خریدی ، بیٹے کاجوحصہ بنتا ہے وہ بیچ سکتا ہے ۔جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہنا تھا کہ جوخریدتا ہے وہ پہلے دیکھتا ہے کہ جس سے خرید رہاہوں وہ خود مالک ہے کہ نہیں، میں زمین کامالک نہیں اور میں زمین بیچ دیتاہوں اوردوگواہ آکر کہہ دیتے ہیں کہ میں زمین بیچی توکیا میں ایسا کرسکتا ہوں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ان کے مئوکل نے 25مارچ2015کو 30لاکھ روپے میں مکان خریدا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کتنے پیسے دیئے۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ 30لاکھ روپے تھے سارے اداکردیئے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میوٹیشن نہیں کروائی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہناتھا کہ خاتون کے کتنے بچے ہیں۔ اس پروکیل کاکہنا تھا کہ خاتون کے شوہر نے 4شادیاں کررکھی تھیں اوراس کے کافی بچے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 4بیویوں میں سے کتنا حصہ بنتا ہے۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ رقم کی ریکوری کادعویٰ کردیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس سے مکان خرید رہے ہیں وہ مالک نہیں ، جس سے خریداکیااُس کو گواہی کے لئے بلایا۔ اس پر وکیل کاکہناتھا کہ بلایاتاہم وہ گواہی دینے نہیں آیا۔ اس دوران درخواست گزار کی جانب سے بولنے پر چیف جسٹس نے وکیل پر شدید برہمی کااظہار کیا اور کہا کہ ساتھ مئوکل کھڑے ہوکربولے جارہے ہیں اوروکیل روک نہیں رہے ، وکیل کی طرح کام کریں، ہر چیزڈرامہ بن گئی ہے۔چیف جسٹس نے درخواست گزار کوبیٹھنے کی ہدایت کی جس کے بعد وہ جاکرکرسی پر بیٹھ گئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ جمیل اعظم سے انہوں نے مکان خریدا تھا اورگواہ ان کے ہی جاننے والے تھے ہمارے جاننے والے نہیں تھے۔وکیل کاکہنا تھا کہ ہم نے چاروں گواہ پیش کئے اورانہوں نے کہا کہ ہم نے ادائیگی کی۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب غلط بیانی کریں تومسکرائیے اور سوری نہ کہیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کچھ توسچ بتادیں، عدالت کے وکیل ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہناتھا کہ کوئی آزاد گواہ نہیںجس نے کہ آپ نے پیسے دیئے، آپ لگتا ہے کرایہ دار ہیں، جو گواہی لائے ہیں وہ آزاد گواہ نہیں، ہمیں دونوں گواہ سچے نہیں لگے، سارے گواہ درخواست گزار کے جاننے والے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہنا تھا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی اجنبی کو جاکرادائیگی کردیں اور کہیں آپ زمین کے مالک ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جمیل اعظم نے 100فیصد انکار کیا ہے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ مدعا علیہ نے 25مارچ 2015کو مکان خالی کروانے کے حوالہ سے دعویٰ دائر کیا جس میں مدعاعلیہ کامیاب رہے اوردرخواست گزار کے حوالہ سے کرائے اور خریداری کے حوالہ سے خلاف فیصلہ آیا۔ مدعا علیہ نمبر2نے مکان کی فروخت اور رقم کی وصولی کے حوالہ سے معاہدے پر دستخط سے انکار کیا۔ ایک گواہ درخواست گزار کے کزن جبکہ دوسرے پراپرٹی ڈیلر ہیں جوانہیں 30سال سے جانتے ہیں۔ عدالت نے درخواستیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردیں۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ پیسوں کی ریکوری کے حوالہ سے دعویٰ دائر کرنے کے لئے ہماری اجازت کی ضرورت نہیں جاکرریکوری کادعویٰ دائر کریں۔