عادل : تحریر محمد اظہر حفیظ


میری امی جی کہانی سناتیں تھیں ۔ ایک تھا عادل بادشاہ ۔ اس کی رعایا اس سے بہت ہی خوش تھی۔ میری عادت تھی سوال کرنے کی۔ امی جی عادل بادشاہ کیا ہوتا ہے۔امی جی کہتیں ایسا بادشاہ جو عدل کرے انصاف کرے۔ لیکن میں نے کہانیاں تو بہت سنیں تھیں پر کبھی عدل کرنے والا بادشاہ دیکھا نہیں تھا۔
1981میں ہم پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد لائلپور سے راولپنڈی ہجرت کر آئے۔ جیسے میرے والدین ہندوستان کو یاد کرتے تھے روتے تھے بلکل ایسے ہی میں بھی اس ہجرت کویاد کر کر روتا ہوں۔ راولپنڈی میں مدرسہ ملیہ اسلامیہ ہائی سکول میں داخلہ بہت مشکل سے ملا۔ آج چھٹی جماعت اور نئے سکول کا پہلا دن تھا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب کلاس مانیٹر سے ملاقات ہوئی۔ اسکا نام عادل تھا۔یعنی عدل کرنے والا۔ مجھے وہ عادل بادشاہ والی سب کہانیاں جو امی جی نے سنائی تھیں یاد آگئیں۔ میری کوشش تھی کہ میری اس بادشاہ صفت انسان سے دوستی ہوجائے۔ عادل بادشاہ کی کہانیوں میں ایک بادشاہ اورنگزیب بھی تھا جو گزر بسر کیلئے ٹوپیاں بناتا تھا۔ یہ سب سنی ہوئی کہانیاں میرے لاشعور میں زندہ تھیں ۔ سکول سے نکلے تو میں بھی عادل کے ساتھ گھر کو چل پڑا۔ ہم دونوں نیو کٹاریاں راولپنڈی میں رہتے تھے۔ پر وہ نیوکٹاریاں مارکیٹ میں ہی ایک سائیکل ٹھیک کرنے والے کی دکان پر رک گیا۔ اس نے مجھے اللہ حافظ کہا اور خود دکان کے اندر چلا گیا۔ پر میری دلچسپی تو عادل کی زندگی میں تھی کہ بادشاہوں کی تربیت کیسے ہوتی ہے جس سے وہ عدل کرتے ہیں۔ اس نے کپڑے تبدیل کئے اور سائیکل ٹھیک کرنے لگ گیا۔ میں رشک کرنے لگا یار کیا زندگی ہے عادل بادشاہ کی ۔ زندگی گزارنے کیلئے سائیکل مرمت کرتا ہے اور ان کے پنکچر بھی لگاتا ہے۔ وقت گزرتا گیا دسویں جماعت پاس کرکے ہم کالج چلے گئے اور عادل دسویں میں فیل ہوگیا۔ اب عادل سے ملاقات نہیں ہوتی تھی پر تشنگی رہتی تھی کہ دیکھوں تو سہی عادل کیسے عدل کرتا ہے۔ میں کالج سے لاہور نیشنل کالج آف آرٹس پڑھنے چلاگیا ۔ عادل سے رابطہ بلکل کٹ گیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے واپس میں اسلام آباد آیا تو میں نے انٹیریئر کے پراجیکٹ شروع کردییے۔ اس میں ہر نوعیت کے کنسٹرکشن کے کام ہوتے تھے۔ ایک دن موبائل کی بیل بجی میں نے فون سنا۔ اسلام علیکم ۔ جی وعلیکم سلام یار حفیظ می کی پہچانیا۔ عادل پیا گل کرنا۔ مجھے پوری فلم یاد اگئی۔ ہور سناو بادشاہو کی ہو رھیا اے۔ عادل جی دوکان کیوں بند کردی۔ یار حفیظ سائیکل دا دور نئیں رہیا۔ ہن سائیکل صرف انتخابی نشان ہی رہ گیا اے۔ اچھا تو پھر سیاست میں آگیا ہے کیا۔ نہیں یار دوکان بند کی اور میں نے الیکڑیشن کا کام سیکھ لیا۔اج کل یہی کام کررہا ہوں۔ دوستوں سے پتہ چلا تم ٹھیکے داری کرتے ہو۔ سوچا سلام دعا کرلوں۔ کوئی کام وام ہوتو بتانا۔ مجھے بڑا اچھا لگا کہ عادل بادشاہ ہوکر بھی الیکڑک کا کام کرتا ہے۔ یہ ہے رزق حلال کی برکت۔
جب تھوڑا ہوش سنبھالا تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اب پاکستان میں سب کے سب بادشاہ عادل تو نہیں رہے پر کام الیکٹرک کا ہی کرتے ہیں۔
میری امی جی اب میرے پاس نہیں ہیں اللہ پاس چلی گئیں ہیں۔ لیکن میں اب جب بھی قبرستان جاؤں گا دعا کرنےکے بعد امی جی کو بتاؤں گا امی جی آپ درستگی کرلیں ۔ اب عادل بادشاہ نہیں ہوتے بلکہ الیکٹرک پاور پلانٹ کے مالک بادشاہ ہوتے ہیں۔ بجلی کے پلانٹ چلیں یا نہ چلیں انکی بادشاہت چلتی رہتی ہے۔ یہ ایسے پلانٹ ہیں جو بند ہوں یا چلتے ہوں پیسے کماتے رہتے ہیں بادشاہت بڑھاتے رہتے ہیں۔پہلے ایک ملک کا ایک عادل بادشاہ ہوتا تھا اب پاکستان کے اندر کئی الیکٹرک بادشاہ ہیں جن کی اپنی اپنی بادشاہت ہے۔ امی جی ان میں عادل بادشاہ کوئی بھی نہیں ہے سب ظالم بادشاہ ہیں۔ اللہ انکی بادشاہی قائم رکھے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے پاس ہمارے بچوں کو سنانے کیلئے کسی بادشاہ کی کوئی کہانی بھی نہیں رہی۔ کیونکہ نہیں پتہ چل رہا کہ عادل کہاں ہے اور عدل کہاں ہے۔ امی جی حیات ہوتیں تو شاید میری راہنمائی کرتیں میرے لیے دعا کرتیں۔
سنا تھا ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔پر اب پتہ چلا ماں کے چلے جانے پر ٹھنڈی چھاؤں کے بھی بل آتے ہیں جوکہ شاید پرانے وقتوں کے عادل بادشاہ بھی ادا نہ کر سکتے ۔
پچھلے وقتوں میں سنتے تھے ظالمو قاضی آرہا ہے۔ اب سن رہے ہیں قاضی ریٹائر ہورہا ہے۔ پہلے عدل ریٹائر ہوا اور اب قاضی بھی۔ خلقت خدا اب عدل کیلئے کس کے پاس جائے۔ رب دیاں رب جانے۔