عورتیں وراثت کیلئے دست عیسیٰ کیسے تھامیں : تحریر کشور ناہید


یوں تو ہر روز ہر شہر کی خبر ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے بیوی کو کبھی پستول سے تو کبھی چھریوں کے وار کرکے خاموش کردیا۔ ویسے تو اب بیٹے بھی باپوں کو وراثت کیلئے رستے سے ہٹانے کی خاطر خود ہی مار دیتے ہیں۔ جو خواتین اپنے حق ِوراثت یا حق خلع کیلئے عدالت تک پہنچنا چاہیں تو قدم باہر نکالنے سے پہلے بیشتر واقعات میں ان کا شوہر یا سسر مار دیتا، جلا دیتا یا گلا گھونٹ کے کام تمام کردیتاہے، ہر گاؤں اور ہر شہر میں پڑھے یا ان پڑھ کی تمیز نہیں۔ بس چھٹکارا حاصل کرکے، اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ خلع مانگنے والی عورتوں کو پیرکاٹ کر کہتے ہیں۔ اب جاؤ عدالت، بڑی خلع لینے کی جرأت کررہی تھیں۔ عموماًعورتیں اپنے خاندان یا سسرال سے وراثت اول تو مانگنے کی جرأت ہی نہیں کرتیں اور اگر اکیلی بیٹی ہو تو اس سے معافی نامہ وراثت کے بارے میں لکھوا لیا جاتا ہے۔دوسری جانب کچھ شوہر بھی زبردستی جائیداد اپنے نام لکھوا لیتے ہیں۔

اب بھی پچاس فیصد خواتین کو مذہبی گرفت میں رکھ کر منصفین بھی مسئلے کو طول دے رہے ہیں۔ مثلاً میری دوست دو بہنیں ہیں۔ بارہ چودہ برس ہوئے والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ ضیا کے زمانے میں قانون کی رو سے وہ دونوں بہنیں جب تک اپنے قریبی بھائیوں کو حصہ نہ دیں یا ان سے معاف نہ کروالیں،انہیں حق ملکیت نہیں ملے گا ایسا کیے جانے کے بعد بھی نہیں عدالت مانتی۔ کہتے ہیں کہ اپنے کزن جنہوں نے لکھ کر دیا ہے۔ جب تک وہ ہمارے سامنے پیش ہوکر بیان نہیں دیتے تب تک آپ دونوں بہنوں کو ملکیتی حقوق نہیں مل سکتے۔ اب وہ کزن کوئی آسڑیلیا میں ہے اور کوئی جاپان میں۔ نوکریاں کرتے ہیں۔ صرف ایک بیان جج کے سامنے آکر دینے کی نہ سکت رکھتے ہیں اور نہ نوکری سے چھٹی مل سکتی ہے۔ وہ ایک دفعہ نہیں، کئی دفعہ اسٹامپ پیپر پر خود کو الگ رکھنے اور رشتے کی بہنوں کو ان کا حق دلانے کیلئے اپنی سی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک مثال باقی سب الجھنوں کو آشکارا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ ایک بہن امریکہ سے پیشی کیلئے اور ایک اسلام آبادسے مگر جناب ِ منصف مذہبی حوالوں سے تاریخ پہ تاریخ ڈالے جارہے ہیں۔

بہرحال، اب جو پورے ملک میں پولیس سے لیکر آگ بجھانے والی کیپ پہن کر عورتیں اپنی مرضی سے سامنے آرہی ہیں۔ انگلیاں تو اب بھی اٹھتی ہیں۔ میری شادی 1961 میں میری مرضی اور بغیر جہیز کے سزا کے طو رپر کردی گئی تھی۔ شکر ہے میرے دونوں بیٹے برسرروزگار ہیں۔مگر جب بھی انہیں کوئی رقم چاہئے تو پاکستان کا قانون، پاکستان میں رقم آنے کی تو بڑی خوشی سے اجازت دیتا ہے مگر رقم باہر بھیجنے کی کوئی صورت اور قانون اجازت نہیں دیتا۔ اس میں بھی ترمیم ہونی چاہئے۔

آئیے اب ایک ماحولیاتی مسئلہ، پاکستان میں اس دفعہ بے تحاشہ بارشوں سے غریبوں کے کچے گھر، گندم کے گودام اور تیار فصلیں تباہ ہوتی نظر آرہی ہیں۔ پاکستان کے آدھے سے زیادہ دور دراز علاقوں میں پانی میلوں دور کنویں یا نہر سے لانا پڑتا ہے۔ میں نے افریقہ میں دیکھا ہے کہ وہاں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے طریقے حکومتی سطح پر اختیار کیے جاتے ہیں۔ اردن جیسا خوبصورت ملک ،وہاں پانی ہے ہی نہیں۔ حکومتیں سبیل کرتی ہیں۔ ہم ہر روز ایک نیا اعلان سنتے ہیں۔ ابھی وہ اعلان بھولا نہیں کہ ایک اور اعلان، یہ کہہ کر غربت مٹانی ہے۔ مگر روز آٹا اور روٹی مہنگی اور اب تو کوئی سرکار کی بات ہی نہیں سنتا۔ جس کے جو جی میں آتی ہے وہ کرتا ہے،دن دہاڑے عام اور خاص شخص کی تمیز کیے بنا۔ ہر ہاتھ میں پستول پتہ نہیں کیسے آگئی ہے۔ ایئرپورٹ پہ پہلے نئے آنے والوں کو لوٹا جاتا تھا۔ اب سڑک چوراہا، کچھ بھی محفوظ نہیں۔ پہلے دہشت گردوں کو بنوں کے علاقے لاکر باقاعدہ بسایا گیا۔ انکو ایک ہی کام آتا تھا۔ قتل اور ڈاکے، وہ اپنا کام پولیس کے سپاہیوں کی آنکھوں میں دھول ڈال کر کرلیتے ہیں۔ کے پی کے وزیراعلیٰ جرگہ بلاتے ہیں۔ جس قانون کو وہ صحیح سمجھیں وہی لاگو ہوجاتا ہے۔ جرگے کے قوانین کیا ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں اذیت پرستی کی تازہ مثال، راول ڈیم میں کسی مکروہ شخص یا لوگوں نے زہر ڈال دیا۔ بیچاری مچھلیاں جن کو آج کل بچے پیدا کرنا ہوتے ہیں ان کو ہزاروں کی تعداد میں مردہ حالت میں دیکھ کر کسی کو غصہ بھی نہیں آیا، ملال ہوتا ہے اور پوچھنے کو دل کرتا ہے کہ آپ کو کیا خوشی ملی اتنی ساری مچھلیوں کو فنا کردینے سے۔ ہمارے بہت سے غریب مرد اور عورتیں،ٹھیلوں پہ یہی مچھلیاں فروخت کرکے، اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔

پہلے نفرتیں، ہم جیسے غریب اور جاہل لوگوں سے منسوب کی جاتی تھیں۔ مگر اب تو وجہ بے وجہ لندن ہو کہ امریکی ریاستیں، کوئی جوان ہاتھ میں گن لیے، خود کو توپ سمجھتے ہوئے، اپنے اندر کی نفرتوں کو اس طرح نکالتےہیں کہ امریکہ وبرطانیہ کی حکومت مسلسل کوشش امن کررہی ہیں۔

ایک ماہ سے بنگلہ دیش میں نوجوان کوٹہ سسٹم کے خلاف پہلے آواز بلند کرتے رہے۔ پھر گولیاں کھاتے اور بلڈنگیں جلاتے رہے۔ یہ وہی وزیراعظم تھیں جو پاکستان کے خلاف زہر اگلتی رہتی تھیں۔ جس طرح صدام کے مجسمے توڑے گئے تھے، اس طرح مجیب الرحمان کے مجسمے ریت کیے جارہے تھے، یہ ایسی جمہوریت کے نام پر 15 سال سے بزرگوں کو پاکستان کا نام لینے پر پھانسی چڑھا کر خوش ہوتی تھیں۔ اب توقع کرنی چاہئے کہ بہاریوں کو اب تو آزادی ہوگی کہ وہ جہاں چاہیں رہیں۔ ساری دنیا جمہوریت کے ختم ہونے پر خوش تو نہیں مگر جمہوریت کے نام پاکستان کی طرح مقتدرہ حکومتوں سے وہ سب منوالے جو ان کے خیال میں روا ہے۔

آج کا فرعون پہلے یوکرین والا تھا اور اب اسرائیل والا۔ ان دونوں کو حمایت اور فوجی مدد امریکہ دیئے جارہا ہے۔ انہیں خبر نہیں کہ ہم بھی تو امریکی چمچے بن کر، غربت کی اس منزل پہ ہیں کہ حکومت روز بینکوں سے قرض لیکر جھوٹ کو سچ بنارہی ہے۔ کاغذ کی ناؤ کب تک ٹائی ٹینک بنی رہے گی۔ ایران حافظ ورومی کی سرزمین، خدا کرے کہ دشمن کی بنادیں ہلادے، خدا کرے کہ فلسطینی پناہ گیروں کو جائے امان میسر ہوسکے اور بنگلہ دیش میں بھی فوجی حکومت نہ آئے۔ عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر یونس ملک کو آگے لیکر جائیں۔ فوج بس سرحدوں کو محفوظ بنائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ