آپ میں سے جو لوگ دیگر افراد کو خوش حال دِکھتے ہیں گزشتہ چند مہینوں سے ایسے تجربے سے یقینا گزرے ہوں گے اور وہ یہ کہ قریبی جاننے والوں میں سے چند نے آپ سے رابطہ کیا۔ اِدھر ادھر کی گفتگو کے بعد تھوڑا حوصلہ پکڑا تو بجلی کا بل یا بچوں کی فیس ادا کرنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے کچھ رقم ادھار مانگ لی۔ میرے ساتھ یہ تجربہ اگرچہ نہیں ہوا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بنیادی طورپر گوشہ نشین ہوچکا ہوں۔ جن لوگوں سے روابط ضروری ہیں ان سے شاید خدانخواستہ مجھے کبھی ادھار مانگنے کی نوبت آسکتی ہے۔گھر میں کام کرنے والوں کو بازار میں میسر اوسط سے زیادہ تنخواہ دینے کی عادت ہے۔ ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت کے مسائل پر توجہ دینا بھی انسانی اعتبار سے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔
میری بیوی کو مگر اپنی فیلڈ میں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی نسبتا بڑی تعداد سے مختلف امور پر سروے کروانے کے لئے چند دنوں یا ہفتوں کے لئے روزانہ اجرت کی بنیاد پر ضرورت ہوتی ہے۔ 2019 سے وہ مجھے مستقل بتائے چلے جارہی ہے کہ اس کے کام میں عارضی طورپر ہائر کرنے کی طلب سکڑ رہی ہے۔ طلب محدود ہونے کے باوجود اس سے رابطہ کرنے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ میری موجودگی میں اکثر اس کا فون بند نہیں ہوتا۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے نوجوان اس سے یہ جاننا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ ان کو دینے کے لئے اس کے پاس کوئی کام ہے یا نہیں۔ انہیں نفی میں جواب دیتے ہوئے وہ تھک کر اداس ہوجاتی ہے اور اکثر کئی فون مزید پریشانی سے بچنے کے لئے اٹینڈ نہیں کرتی۔
پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے چند اضافی روپے کمانے کے امکانات کا محدود سے محدود تر ہونا گزشتہ چند برسوں سے اپنی بیوی کی بدولت میرے مشاہدے میں آیا۔ رواں برس کے آغاز سے اس کے دور پرے کے جاننے والے کئی افراد اچانک گھر کی گھنٹی بجادیتے ہیں۔عموما وہ ہمارے گھر سے اتفاقا گزرنے کا دعوی کرتے ہوئے معذرت کرتے ہیں کہ ملاقات کا وقت طے کئے بغیر گھنٹی بجادی ہے۔ گھر آئے مہمانوں کو چائے پانی پیش کرنا ہماری ثقافتی مجبور ی ہے۔ اس کے دوران ان کے اچانک آنے کا مقصد واضح ہوجاتا۔ انہیں کسی کام کے لئے کچھ رقم ادھار پر درکار ہوتی ہے۔ ان کو درکار رقم کی یکمشت واپسی مگران کے لئے ممکن نہیں ہوتی۔ ماہانہ اقساط میں ادا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ جن اقساط کا وعدہ ہوا وہ شاذہی ادا ہوئیں۔ ہم نے بھی تقاضہ مناسب نہیں سمجھا۔ اب مگر اس قابل نہیں رہے۔ اپنی سفید پوشی برقرار رکھنا بھی دشوار تر ہورہا ہے اور اس کی خاطر عمر کے آخری حصے میں ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے کے علاوہ کئی گھنٹوں کی تیاری کے بعد ٹی وی شوز بھی کرتا ہوں۔
مشقت کے حوالے سے اپنی بیوی کے مقابلے میں زیادہ بدنصیب اس لئے ہوں کہ سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کے لئے مجھے بنیادی طورپر سیاسی موضوعات کو اپنی تحریروتقریر میں زیر بحث لانا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں بیان کردہ خیالات اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے گروہوں کے سوشل میڈیا پر چھائے ایک مخصوص گروہ کو پسند نہیں آتے۔ وہ مجھے لفافی اور ٹوکرے والا پکارتے ہوئے ریٹائر ہونے کے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔
میرے ذاتی مسائل مگر اس کالم کا موضوع نہیں۔ اصل مقصد اپنے تجربے سے اس امر کو اجاگر کرنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے محض اتنہائی غریب افراد ہی نہیں بلکہ متوسط طبقے کے ایک خاطر خواہ حصے کو بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا تقریبا ناممکن محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے۔معاملہ ذاتی مشاہدے تک محدود رہتا تو یہ کالم لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ منگل کی شام مگر ایک تحقیقی ادارے کی جانب سے ہوئے تازہ ترین سروے کے نتائج دیکھے تو حواس باختہ ہوگیا۔
پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں سے نسبتا ایک محدود ا ور عملی اعتبار سے نمائندہ تعداد کو چن کر ان سے مذکورہ سروے کے دوران سادہ ترین انداز میں چند سوالات پوچھے گئے۔ اسی ادارے کی جانب سے گزشتہ برس ہوئے سروے نے بھی یہ ہی سوال اٹھائے تھے۔ انہیں 2024 میں دہرایا گیا تو اکثر جواب گزشتہ برس جیسے ہی ملے۔ ان کی بدولت مگر اپنی معاشی مشکلات میں اضافہ کی شکایت کرنے والوں کی تعداد دل گھبرادینے کی حد تک بڑھ گئی ہے۔ روزمرہ مشکلات سے شاکی افراد کی تعداد میں 14فی صد کا اضافہ ہوگیا ہے۔
میری نگاہ میں مذکورہ سروے کی بنیادی دریافت یہ تھی کہ 100پاکستانیوں میں سے 74(جی ہاں 74)اپنی موجودہ آمدن سے ماہانہ اخراجات پورے کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔گزشتہ برس کے مئی میں ایسے لوگوں کی تعداد 60فی صد بتائی گئی تھی۔ ماہانہ اخراجات کے بوجھ کو ناقابل برداشت محسوس کرنے کے بعد 74فی صد میں سے 60فی صد کی بھاری بھر کم تعداد نے اپنے اخراجات میں کمی لانے کے طریقے ڈھونڈنا اور استعمال کرنا شروع کردئے۔ اس تناظر میں تمام تر حربے استعمال کرنے کے باوجود روزمرہ زندگی سے پریشان ہوئے افراد اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے ان دنوں بے قراری سے جزوی کام ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کے باوجود ادھار رقم مانگنے والے افراد کی تعدادمیں بھی 10 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں 100میں سے 74فی صد افراد اگر خود کو اپنی ماہانہ آمدنی کی بدولت روزمرہ خراجات پورے کرنے کے قابل محسوس نہ کریں۔ اپنے خرچے کم کرنے کے تمام تر حربے اختیار کرنے کے باوجود جزوی طورپر کام کرنے یا دوسروں سے ادھار مانگنے کو مجبور ہوجائیں تو اس معاشرے کو مضطرب معاشرہ ہی تسلیم کرنا ہوگا۔ اس نوع کے معاشرے کو ڈنڈے کے زور پر قابو میں رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ جانور کو بھی ڈنڈا دکھانے سے قبل چارہ کھلانا پڑتا ہے۔ پاکستانیوں کی 74فی صد تعداد کے لئے چارہ کی مقدار مگر دن بدن کم سے کم تر ہورہی ہے۔ توقع ان سے اگرچہ یہ باندھی جارہی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس بھی نہ نکالیں۔ توکل سے کام لیتے ہوئے امید برقرار رکھیں اور مایوسی چونکہ کفر ہے اسے اختیار کرنے سے بازرہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت