LGBT اور ہماری بے حسی … تحریر : انصار عباسی


ہم جنس پرستی یعنی LGBT کی لعنت کو ہمارے معاشرے میں پھیلانے کا دھندہ زوروں پر ہے جسے روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن ہم میں سے اکثر اس سلسلے میں بے حسی کا شکار ہیں۔ ہماری ریاست اور حکومت کو تو جیسے کوئی فکر ہی نہیں، پارلیمنٹ تو ٹرانسجینڈر جیسے متنازع قانون کو پاس کر بیٹھی ہے، میڈیا جس میں کچھ ٹی وی چینلز، ڈرامہ اور فلم شامل ہیں، بڑی بے شرمی اور چالاکی سے ہم جنس پرستی سے متعلق مواد اورLGBT ایجنڈا کی پروموشن میں بلا روک ٹوک مصروف ہیں۔ یہاں تو اگر کوئی LGBT سے جڑا فرد سرکار میں آ جائے تو اس کی بھی خوب پبلسٹی کی جاتی ہے، اسے اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے کوئی بڑا کام کر رہا ہو۔ کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی فلم جسے فلم سے متعلق مغربی تنظیم نے LGBT کی کیٹیگری میں شامل کیا اس کو ہمارے چند ایک چینلز نے خوب پروموٹ کیا۔ اس فلم پر کچھ علاقوں میں پابندی لگائی گئی، جس پر میڈیا کے چند حلقوں نے خوب شور مچایا۔ مغرب میں LGBT کی لعنت کو ناصرف قانونی حیثیت حاصل ہو چکی بلکہ اسے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جا رہا ہے اور انسانی حقوق کے نام پر ہم جنس پرستوں اور ہم جنس پرستی کو خوب بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے بچوں کو بھی وہاں LGBT کا سبق پڑھایا جا رہا ہے، لیکن اب تو ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ کر بھی LGBT کا خطرہ منڈلاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کچھ عرصے سے مغربی دنیا LGBT کو مسلمان ممالک میں پھیلانے کے ایجنڈے پر باقاعدہ کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں مخصوص طبقوں کی فنڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان بھی اس گھناونے ایجنڈے کے نشانہ پر ہے لیکن یہاں LGBT کی لعنت کو روکنے کیلئے ہماری ریاست اور حکومت کو جو کچھ کرنا چاہیے اس کا ایک فیصد بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا جس کی وجہ سے وہ افراد اور گروہ جو ہم جنس پرستی کو پاکستان میں عام کرنا چاہتے ہیں اور اسے معاشرتی طور پر قبولیت دینا چاہتے ہیں انہیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ آج کل ہم جنس پرستی، بے شرمی اور بے حیائی کا ریکارڈ توڑنے والے ایک ڈرامے کی بات ہو رہی ہے جس کے بارے میں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ یہ ڈرامہ تو انڈیا میں چل رہا ہے اور بھارتیوں نے ہی بنوایا ہے لیکن اس کو بنانے والے اور اس میں اداکاری کرنے والے ناصرف پاکستانی ہیں بلکہ اس ڈرامے کو فلمایا بھی پاکستان میں گیا ہے۔ اس پر سوشل میڈیا پر شور مچا تو پیمرا نے کہہ دیا کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پیمرا کو تو ویسے بھی فحاشی و عریانیت کبھی نظر آئی ہی نہیں لیکن اگر قانونی طور پر اس ڈرامے کے حوالے سے پیمرا کچھ نہیں کر سکتا تو ریاستِ پاکستان تو بہت بڑی ہے وہ تو بہت کچھ کر سکتی ہے مگر ریاست پاکستان کے سب ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر اس ملک میں آئین اور قانون کی کوئی حیثیت ہے تو LGBT اور دوسرے بے حیائی کے کاموں میں شامل افراد کو چن چن کر قانون کے سامنے لایا جانا چاہیے، ان کے خلاف مقدمات قائم کر کے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانا چاہیے۔ LGBT کے دھندے میں شامل کچھ افراد بحث کرتے ہیں کہ اگر ہمارے معاشرے میں بے شرمی اور بے حیائی کے کام ہو رہے ہیں تو فلم اور ڈرامہ تو اس کو صرف دکھا رہا ہے۔ یہ فضول کی باتیں ہیں۔ اگر کوئی چھپ کر کوئی بے حیائی کا کام کر رہا ہے تو اسے کیا فلموں اور ڈراموں کا موضوع بنایا جائے اور وہ بھی اس انداز میں کہ ہم جنس پرستی یعنی LGBT جیسی لعنت کو ایک حقیقت اور نارمل عمل سمجھا جانے لگے۔ LGBT والے اور اس لعنت کو پھیلانے والے تو ہم جنس پرستوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں جبکہ کسی بھی ایسے بے حیائی کے کام میں شامل فرد کو ہمارے آئین اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے اور اس برائی کو برائی کے طور ہی دیکھا جانا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ