اڈیالہ جیل‘‘ کے قیدی کی صدا : تحریر مظہر عباس’’


بانی تحریک انصاف عمران خان فوج سے مذاکرات چاہتے ہیں وہ مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو اگر ریلیف مل سکتا ہے تو صرف وہیں سے۔ وہ 9مئی کا دفاع بھی اپنے انداز میں کرتے ہیں کبھی یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے تو ’’پرامن‘‘ احتجاج کی کال دی تھی۔ دوئم، GHQکے سامنے احتجاج کا بھی وہ دفاع کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا اختلاف شخصیات سے رہا ہے ادارے سے نہیں کیونکہ وہ فوج کی بہت عزت کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے یہی بیان یا اس سے کچھ زیادہ وہ عدالت میں کہیں اگر ان پر مقدمہ چلتا ہے۔

بظاہر وہ فوج سے بات چیت براہ راست کرنا چاہتے ہیں جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پی پی یہاں تک کے ایم کیو ایم (پاکستان) کے ساتھ وہ خود تو بات نہیں کرنا چاہتے تاہم انہوں نے یہ ٹاسک اپنے کل کے مخالف اور آج کے اتحادی پشتون ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو سونپ دیا ہے۔ عمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر فوج سے ان کی بات چیت شروع ہوتی ہے تو انہیں پھر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی ضرورت نہیں رہے گی۔

دراصل ’اڈیالہ جیل‘ میں سال مکمل کرنے والے قیدی نمبر 804، اپنے تئیں اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس وقت ملک میں دو ہی ’’سیاسی قوتیں‘‘ ہیں پی ٹی آئی اور فوج ،ایسے میں اچکزئی صاحب کی کامیابی کے امکانات بہت معدوم ہیں اور نظر نہیں آ رہا کہ بانی پی ٹی آئی کے اس رویے کے بعد ’’مشن اچکزئی‘‘ کامیاب ہو سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ فوج کیا چاہتی ہے ،اب تک ان کے اور عمران کے درمیان صرف 9مئی ہی نہیں ہے بلکہ ’’اعتماد سازی‘‘ کا بھی شدید فقدان ہے اور انہوں نے چند ماہ پہلے بھی اور حال ہی میں بھی یہ بات واضح کردہ تھی کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور سیاست دان اپنے معاملات آپس میں بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ یہ بڑا واضح موقف چند ماہ پہلے سامنے آیا جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔

اڈیالہ جیل سے مسلسل فوج سے مذاکرات کی بات سے حکومتی حلقوں میں بھی خاصی بے چینی پائی جاتی ہے کہ یہ اچانک بانی پی ٹی آئی صرف اور صرف فوج سے بات کرنےپر کیوں تیار ہیں۔ موجودہ حکومت کی ساکھ جو 8فروری کے بعد ہی سوالیہ نشان رہی ہے خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور وزیر اعظم شہباز شریف مسلسل پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 9مئی کے حوالے سے خاص طور پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

’سانپ،سیڑھی‘ کے اس کھیل میں آخری فتح کس کی ہو گی کہنا مشکل ہے تاہم پی ٹی آئی کی ساری نظریں اور امیدیں سپریم کورٹ سے ہیں۔ کوئی اکتوبر میں کسی خوش خبری کا منتظر ہے اور کوئی دسمبر میں ’تبدیلی‘ آتی دیکھ رہا ہے۔ اس ملک کا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ جدوجہد یا تو اقتدار میں آنے کے لئے یا پھر اقتدار بچانے کے لئے ہے، کوئی 2025میں نئے انتخابات دیکھ رہا ہے تو کوئی عدلیہ اور پارلیمنٹ میں تصادم۔ موجودہ چیف جسٹس آئندہ ماہ غالباً 16ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور جسٹس منصور علی شاہ بحیثیت چیف جسٹس حلف اٹھائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے کے خلاف اپیل کب سنی جائے گی۔ ابھی تو صرف دو ججوں کا اختلافی نوٹ آیا ہے انتظار ہے مزید ججوں کے فیصلے کا کیونکہ بہرحال اپیل پر فیصلہ ہی سیاست کو ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پی ٹی آئی کا اختلاف اپنی جگہ مگر وہ ایک بہتر روایت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اپنے یعنی چیف جسٹس کے از خود نوٹس کو سرنڈر کرنا اور مخصوص نشستوں کے معاملے کو بھی فل کورٹ کا سننا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نےجسٹس بندیال کی عدلیہ کی طرح صرف مخصوص بینچ والا معاملہ نہیں ہونے دیا۔

’’ایک ملین ڈالر‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر 9مئی پر غیر مشروط معافی نہیں مانگی جاتی اور عمران پر مقدمہ چلتا ہے تو معاملات کہاں تک جائیں گے۔ اڈیالہ جیل سے صدا ہے کہ ’مذاکرات‘ شروع کئے جائیں دوسری طرف خاموشی ہے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں اب تک کوئی مثبت پیغام نہیں آیا اور پیغام نہ آنے سے فوج کے خلاف سوشل میڈیا ایکٹو ہو جانےکا امکان ہے۔

اس ملک کی سیاست’شطرنج کے کھیل‘ کی طرح ہے۔ چیس بورڈ سجا ہوا ہے، بادشاہ، وزیر اور مہرے آمنے سامنے ہیں۔ عمران خان اس پوری صورتحال میں اپنے لئے ریلیف نئے انتخابات کی صورت میں چاہتے ہیں جواب ’ناں‘ میں آنے کی صورت میں وہ غصہ میں بھی نظر آتےہیں۔

آج بھی بادشاہ اک ہی ہے باقی سب وزیر یا مہرے۔ اب اگر اڈیالہ میں رہنے والا خان بھی اور حکمراں اتحاد بھی ’بادشاہ‘ ایک ہی کو سمجھتے ہیں تو پھر ’بادشاہت‘ تو اسی کی ہوئی ،باقی آپ کی مرضی ہے اسے جمہوریت کہیں یا کچھ اور ……

بشکریہ روزنامہ جنگ