بنگلہ دیش کا سبق : تحریر سلیم صافی


جب بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کو قتل کیا جارہا تھا تو حسینہ واجد اور ان کی ایک بہن ملک سے باہر تھیں۔ شاید اللہ نے انہیں شیخ مجیب کی وراثت کے لئے زندہ رکھا تھا۔ حسینہ واجد نے دور طالب علمی میں بھی سیاست کی تھی اور پھر عملی سیاست میں بھی تربیت کے تمام مراحل سے گزریں ۔ وہ جیل بھی گئیں اور لوگوں کو جیلوں میں بھی ڈالا ۔

جیسے تیسے وہ چار مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کو ڈیجیٹلائز کرنے کا وعدہ کیا ۔ غربت کو ختم کرنے کی بات کی ۔ اقتصادی ترقی کا عہد کیا ۔ ان کی حکومت جی ڈی پی میں ترقی اور افراط زر پر کنٹرول کے جو اعداد وشمار پیش کررہی تھی، اس پر بھی لوگ انہیں شاباش دے رہے تھے ۔ ایک وقت تھا کہ وہ بنگلہ دیش میں بھی مقبول تھیں اور پاکستان جیسے ملک میں بھی لوگ بنگلہ دیش کی ترقی کی مثالیں دیا کرتے تھے لیکن پھر وہی ہوا جو اکثر ہوا کرتا ہے۔ شیخ حسینہ نےعوام کی خدمت کی بجائے اپنی خواہشات کی تکمیل کو اپنی منزل بنا لیا۔ وہ تکبر کا شکار ہوگئیں۔ انہوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے مخالفین کو دبانے اور انتقام کی آگ ٹھنڈا کرنے کو ترجیح دی۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی۔ ماضی کی تلخیوں کو دوبارہ تازہ کیا۔ البدر، الشمس اور پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے رضاکاروں (یہی رضاکار کا لفظ ان کے اقتدار کو لے ڈوبا) کو پھانسیاں دیں۔

شیخ حسینہ اتنی سنگدل ہوگئی تھیں کہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کو بھی اپنے ملک نہیں آنے دیا۔ بیگم خالدہ ضیا جیسے سیاسی حریفوں کو بھی جیلوں میں ڈالا ۔ میڈیا پر پابندیاں لگائیں۔ نقادوں کی زباں بندی کی۔ پندرہ سالہ حکومت کے دوران انہوں نے اپنے اقتدار کو ہر حوالے سے محفوظ بنایا تھا لیکن ایک کوٹہ سسٹم ان کے اقتدار کے سورج کو غروب کرنے کا موجب بنا جو ان کے یا کسی اور کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

چونکہ سیاسی جماعتوں کو جبر کے ذریعے غیرموثر کردیا گیا تھا جبکہ غبار نے تو کسی نہ کسی جگہ نکلنا ہوتا ہے اس لئے سیاستدانوں کی بجائے طلبہ میدان میں نکلے۔ انہوں نے کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی۔ کوٹہ سسٹم کے تحت بنگلہ حکومت کی 54 فی صد ملازمتیں مخصوص طبقات میں تقسیم کی جاتی ہیں اور صرف 46 فی صد میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ جب طلبہ نے احتجاج کیا تو شیخ حسینہ واجد نے انہیں کچلنے کا فیصلہ کیا ۔اپنے ریاستی تشدد کو جواز دینے کے لئے شیخ حسینہ نے ان مظاہرین کے لئے رضاکار کا لفظ استعمال کیا اور یہ غلطی ان کے گلے پڑ گئی (رضا کار ان بنگالیوں کو کہا جاتا تھا جنہوں نے تقسیم پاکستان کے وقت پاکستانی فوجیوں کا ساتھ دیا تھا) اور پھر بپھرے ہوئے طلبہ فخریہ انداز میں اپنے آپ کو رضا کار کہنے لگے بلکہ ’’ہم تم کون رضاکار رضاکار‘‘ باقاعدہ نعرے کی صورت اختیارکرگیا ۔

اگلے دن وہ دو قدم آگے بڑھیں اور کہا کہ یہ مظاہرین نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں ۔ ان کے حکم پر پولیس نے مظاہرین پر گولیاں بھی چلائیں اور درجنوں افراد ہلاک بھی کردئیے لیکن جب سیاسی جماعتوں کو اندازہ ہوا کہ طلبہ تحریک بڑھتی جارہی ہے تو انہوں نے بھی طلبہ کا ساتھ دے کر پندرہ سال سے جمع شدہ غصے کو نکالنا شروع کردیا ۔یہ صورت حال دیکھتے ہوئے شیخ حسینہ واجد نے ملک بھر میں کرفیونافذ کردیا لیکن ریٹائرڈ فوجیوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنی فوج پر زور دیا کہ وہ عوام کے خلاف نہ آئیں۔ ایک روز قبل حسینہ واجد کہہ رہی تھیں کہ وہ نہ استعفیٰ دیں گی اور نہ مظاہرین کو کوئی رعایت لیکن پیر کو جب بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ نے کہا کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ رہیں گے تو حسینہ واجد اقتدار اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں۔ انہوں نے ملک چھوڑنے سے قبل ایک خطاب کی خواہش ظاہر کی لیکن انہیں یہ موقع بھی نہ دیا گیا۔ چنانچہ وہ اپنے پسندیدہ ملک بھارت بھاگ گئیں لیکن شاید بنگلہ دیش کے عوام کے غم و غصے سے بچنے کے لئے انڈیا بھی انہیں پناہ نہ دے۔ یوں ان کے پندرہ سالہ طویل اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔

شیخ حسینہ واجد کے انجام سے چند سبق ملتے ہیں بشرطیکہ کوئی حاصل کرنا چاہے۔

1۔اقتدار کی طاقت اور ریاستی جبر کے ذریعے کچھ عرصے کے لئے تو عوام کو دبایا جاسکتا ہے لیکن زیادہ دیر تک ایسا کرنا ممکن نہیں۔

2۔عوامی فلاح و بہبود کی بجائے جو حکمران اپنے اقتدار کو مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کرے گا اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔

3۔ نوجوان اس دور کی اصل طاقت ہیں اور کسی جگہ اگر نوجوانوں کی اکثریت کچھ کرنے کی ٹھان لے تو انہیں روکنا ناممکن ہوتا ہے اور پھر بزرگوں کو بھی ان کی تقلید کرنا پڑتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ