زندگی کے چون برس مکمل ہونے کو ہیں۔ بہت سے دھرنے دیکھے، بھگتے اور بھول گئے۔
میری زندگی کی بہت بڑی کمزوری ہے کہ میں کبھی ان دھرنوں کا حصہ نہیں بن سکا۔ میں نے یہ دھرنے قریب سے دیکھے، محسوس کیے اور فوٹوگراف کیے۔
طاہر القادری صاحب کا دھرنا، عمران خان صاحب کا دھرنا، خادم حسین رضوی صاحب کا دھرنا اور مولانا فضل الرحمن صاحب کا دھرنا۔
ان سب دھرنوں میں قدرے بہتر اور منظم دھرنا طاہر القادری صاحب کا تھا۔ جن مقاصد کیلئے یہ دھرنے دئیے گئے وہ میرا نہیں خیال کہ تکمیل تک پہنچ۔
نہ تو عمران خان صاحب چار حلقے کھلوا سکے اور نا ہی طاہر القادری صاحب ماڈل ٹاؤن کے قاتل گرفتار کروا سکے۔ اور نہ ہی
خادم حسین رضوی صاحب فرانس کے سفارت خانے کو بند کرواسکے۔ دھرنا مولانا فضل الرحمن صاحب کا دھرنا بھی کافی منظم تھا لیکن وہاں پر بھی خواتین رپورٹرز کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا گیا۔
حافظ نعیم الرحمن صاحب نے بھی چند روز پہلے ایک دھرنے کا آغاز لیاقت باغ راولپنڈی سے کیا۔
ان کے تمام مطالبات عوامی تھے نہ کہ سیاسی۔
ان کے ممبرز خرچہ کررہے تھے ۔ ایک طرف دھرنا تھا اور دوسری طرف ٹریفک رواں دواں تھی۔ یہ ایک مختلف دھرنا ہے۔ مطالبات میں بجلی کی قیمت ، عوام پر ٹیکسز میں کمی اور آئی پی پی کی درستگی پر زور ہے۔
میں سیاسی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا۔ پر یہ دھرنا مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میرے اور میری عوام کے دل کی آواز ہے۔
ایک صحافی نے شکایت کہ کہ میرے ساتھ بدتمیزی کی گئی ہے فورا جماعت کے لوگوں اور امیر صاحب نے معذرت کی اور آنے والے وقت میں اس کیلئے احتیاط کا حکم بھی کیا گیا۔
مختلف شہروں سے ہوتا ہوا یہ دھرنا راولپنڈی میں جمع ہوا۔ اس دھرنے کے شرکاء کی ایک مختلف بات یہ تھی کہ یہ راستے میں جہاں کھانے کیلئے رکے تو انھوں نے حفاظت پر معمور پولیس والوں کو بھی کھانے میں شامل کیا۔
کل فوٹوگرافی سے متعلق کچھ سامان چاہیے تھا۔ دھرنے سے تقریباً پانچ سو گز دور فوٹوگرافی کے سامان کی مارکیٹ ہے۔ پرانے تجربے کی بنیاد پر فون کیا کہ مارکیٹ بند ہوگی کیونکہ پچھلے دھرنوں کے دوران ہم نے بینک اے ٹی ایمز کو بطور واش استعمال ہوتے دیکھا تھا۔ لیکن مارکیٹ کی تمام دکانیں پُرسکون طریقے سے کھلی تھیں کاروبار کم تھا کیونکہ میری طرح سب کا خیال تھا کہ مارکیٹ بند ہوگی۔ مختلف دکانوں سے چیزیں خریدیں اور گھر کا رخ کیا۔ دھرنا لیاقت باغ سے مریڈ چوک تک جاری تھا ۔ لیکن آس پاس کوئی بھی بدتمیزی یا ہلڑبازی نہیں تھی۔ معمول کے مطابق سب کام جاری تھے۔ جماعت اسلامی اگر اپنے ان عوامی مسائل کے مطالبات کو حل کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔ تو یہ جماعت اسلامی کو پاکستان عوام میں بہتر مقام دلوا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی ہر مشکل وقت میں پاکستانی عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے وہ سیلاب ہو یا کرونا یا کوئی اور قدرتی آفات جماعت اسلامی عوام کی مدد میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لوگ ان سے ہر طرح کی مدد حاصل کرتے ہیں پر ووٹ انکو نہیں دیتے۔ زیادہ تر شہروں میں لوگ انکی جنازہ بس سروس کو استعمال کرتے ہیں۔میں نے بہت سی دوسری سیاسی جماعتوں کے بانی ارکان کی میتوں کو بھی جماعت کی ایمبولینس سروس میں دیکھا۔ کیونکہ فلاحی کام اور سیاست شاید الگ راستے ہیں ۔ تحریک انصاف کے بانی نے شوکت خانم ہسپتال بنائے لیکن پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، جمیت علماء اسلام ، نیشنل عوامی پارٹی ، بلوچستان عوامی پارٹی ، تحریک استقلال ، عوامی نیشنل پارٹی اور باقی سب جماعتیں اپنی جماعت کی طرف سے اس طرح کے فلاحی پراجیکٹ شروع نہیں کرسکیں جس طرح منظم طریقے سے جماعت اسلامی کئی دھائیوں سے کررہی ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود جماعت اسلامی کبھی بھی انتخابات میں وہ عوامی مقبولیت حاصلِ نہ کرسکی جو اس کا حق تھا۔ نئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن صاحب ایک متحرک امیر ہیں پچھلے سب امیر جماعت اسلامی صاحبان کی نسبت ۔ انھوں نے کراچی میں جماعت کی پوزیشن کو کافی مستحکم کیا دیکھتے ہیں پورے پاکستان کی ذمہ داری وہ کس احسن طریقے سے نبھاتے ہیں۔ کیونکہ ایچسن کالج لاہور نے پاکستان کو بہت قیادت مہیاء کی۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ سے تنقید کا نشانہ بننے والے مدارس پاکستان کو کیسی قیادت مہیاء کرتے ہیں ۔ افواج پاکستان اور جماعت اسلامی کے سربراہ دونوں ہی حافظ قرآن ہیں۔ امید واثق ہے پاکستان میں بہتری آئے گی۔ حکمران تو پہلے بھی بہت سے آئے لیکن وہ آنکھوں سے حافظ تھے قرآن کے نہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان اور دین اسلام کی حفاظت فرمائے آمین نیک اور صالح حکمران عطا فرمائے آمین عوام پاکستان اور تمام مسلمانوں کی زندگیوں میں آسانی والا معاملہ فرمائیں آمین ۔