اسماعیل ہنیہ کی شہادت، عزیزِ جہاں ٹھہرا، دنیا تیسری عالم گیر جنگ کی دہلیز پرہے ۔تاریخ میں کتنی بارمتحارب فوجوں کی حکمت عملی یکساں ہو۔ ایسا پہلی دفعہ کہ روس، ایران، حزب اللہ، حماس بمقابلہ اسرائیل ،ا مریکہ ، دونوں فریق ایک عرصہ سے خطہ کو ایسی ہی جنگ کی طرف لانا چاہتے تھے۔ کیا گریٹر اسرائیل بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے؟ سارے اسلامی ممالک سوائے ایران و ترکی، اسرائیل آگے سر تسلیم خم یا مرعوب یا اندرون خانہ سہولت کار بن چکے تھے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ماسوائے ایران و ترکی، کل حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہیں۔ جہاں جہاں مسلم عوام کو احتجاج کی سہولت، جوق در جوق لاکھوں سڑکوں پر موجود ہیں ۔ پاکستان کا مذمت کرنے میں محتاط الفاظ کا چناو، سفارتی منافقت ہی کہلائے گا ۔ اسماعیل ہنیہ، حماس کے عرصہ سے گفت و شنید اور پرامن معاملہ فہمی پر یقین رکھنے والا رہنما ، مذاکرات کا کوئی موقع نہیں گنواتے تھے ۔ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں وہ مذاکرات کی میز ہی سے تو اٹھ کر گئے تھے ۔اسرائیل نے تاک کر شہید کر ڈالا۔ اسرائیل کے دو مقاصد، اولا ! مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کو قتل کرکے مذاکرات سے گلو خلاصی تھی۔ دوئم ! اسماعیل ہنیہ کو بطور ایرانی مہمان قتل کر کے ایران کو خطہ میں جنگ پھیلانے کا پابند کرنا تھا ۔ اسرائیل دونوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے ۔ بمطابق اسرائیلی خواہش ، ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے باقاعدہ طبلِ جنگ بجا دیا ہے ۔ ایران اور حزب اللہ منصوبہ بندی کے تحت جنگ کو محدود رکھنا چاہتے تھے کہ جنگ پھیلانے کا فریضہ اسرائیل سر انجام دے۔ مذاکرات کا ہر موقع خلوص دل سے حماس نے زیراستعمال میں رکھا۔ چند ماہ پہلے ہی تو اسماعیل ہنیہ نے من وعن امریکی امن فارمولا بھی تسلیم کر لیا تھا ۔ اسرائیل کے پاس بہترین انٹلیجنس موساد، اسماعیل ہنیہ کو ایران میں قتل کرنا یا دنیا میں کسی بھی ملک میں کسی کو بھی قتل کرنا ،انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔حماس کے القسام بریگیڈ کے حملہ سے پہلے عرب و عجم کا یہی کچھ نقشہ تھا ۔ خلیجی ممالک باجماعت اسرائیل کے آگے دیدہ دل فرش راہ تھے ۔پاکستان بھی پچھلے 20 سال سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا حیلہ بہانا تلاش کر رہا تھا ۔ 7اکتوبر القسام بریگیڈ نے اسرائیل پرقیامت ڈھائی تو اسرائیل نے اسے نعمت غیر مترقبہ جانا کہ گویا لڑائی شروع کرنا میرے دل میں بھی ۔کم وبیش 15/18 سال پہلے ہی حماس القسام بریگیڈ نے آپریشن طوفان الاقصی کی تیاری شروع کر رکھی تھی ۔ اندازہ لگانے میں حق بجانب کہ اس دوران شام کی خانہ جنگی، خصوصا روسی شمولیت کے بعد کثیر تعداد میں جدید جنگی سازو سامان بھی حزب اللہ اور القسام بریگیڈ کے حوالے ہو چکا ہوگا ۔ ایران سے مالی و عسکری مدد 40سال سے جاری وساری تھی ۔ القسام بریگیڈ نے جہاں زیرزمین سرنگوں کا جال بچھایا ، وہاں جدید اسلحہ اور ڈرونز بمع میزائل کا ذخیرہ بھی موجود تھا۔ قابل ستائش! آپریشن میں شہری ہلاکتیں نہ ہوئیں جبکہ جوابا اسرائیل نے غزہ پٹی کو ملبہ کا ڈھیر بناڈالا، 50,000 سے زائد شہری شہید، 1لاکھ سے زیادہ شہری زخمی ۔ اگرچہ روس یوکرین جنگ کا آغاز فروری 2023 میں، آج کے حالات سے اسکو نتھی رکھنا ہوگا۔ اسرائیلی منصوبہ بندی ہی ،جنگ کا ایک مقصد روس کا مکو ٹھپنا تھا ۔ شام خانہ جنگی میں روس کی انٹری، شام کا کنٹرول سنبھالنا، اسرائیل کا وجہ نزاع تھا۔ یوکرینی صدر ZELENSKY نجیب الطرفین صہیونی اور اسرائیلی کھلونا ہے، اسکو استعمال کرنا تھا۔ یوکرین میں تدبیریں الٹی ہوئیں، روس نے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں ۔یوکرین میں امریکہ اپنی تاریخ کی عبرتناک شکست سے دوچار ہے ۔ 80 کی دہائی میں روس ٹکڑے ٹکڑے، چین کسی کھاتہ میں نہیں۔ اگلی2 دہائیاں ، امریکہ نے ہر مد میں یک وتنہا ایسی عالمی طاقت کہ تاریخ انسانی میں اسکی مثال نہ ملے۔ یہ وہ حالات ، ایران میں اسلامی انقلاب آیا ۔ آفرین ایران یک و تنہا انقلاب سے پہلے ہی امام خمینی نے فلسطین کی آزادی کا تہیہ کرڈالا ۔ اسرائیل کو نیست و نابود کرنیکا عز م جتلایا۔ ایسے وقت جب فلسطینی تنظیم PLOاسرائیل امریکہ کی غلام بن چکی تھی ، امام خمینی نے 1981میں 27رمضان کو ہرسال یوم القدس منانے کا اعلان کیا۔ پوری مسلمان دنیا میں ماسوائے اخوان المسلمین، جماعت اسلامی جیسی اسلامی تحریکیں ، کوئی حکومت یا سیکولر جماعتیں فلسطین کو آزاد کرانے میں مخلص نہ تھیں۔ حماس کا وجہ وجود ہی PLOکا ردِعمل تھا۔ 1987 میں اخوان المسلمین پر مشتمل حماس کی بنیادمیں ایرانی حمایت شامل تھی۔ کئی ٹکڑوں میں بٹی فلسطینی جدوجہد کو یکجا کرکے پہلی انتفادہ کا آغاز کیا ۔ 17سال بعد 2003 سے دوسری انتفادہ شروع کر ڈالی ۔بچوں کے اسرائیلی فوج پر پتھراو سے شروع ہونے والی یہ تحریکیں 7اکتوبر کو اسرائیل پر ڈرون حملے اورمیزائل برسانے میں کامیاب ہوئی۔ بانی حماس شیخ احمد یاسین سے لیکر اسماعیل ہنیہ تک اسرائیل حماس کے درجنوں انتہائی اہم لیڈر شہید کر چکا ہے ، حماس کے عزم میں لغزش نہ آئی۔ اسرائیل کی ساری طاقت اور گھمنڈ کا انحصار امریکہ پر جبکہ دوسرے طرف امریکہ اپنی تاریخ کے بد ترین انتظامی ، اقتصادی ، عسکری ، سفارتی بحران سے دوچار ہے ۔ جنوبی چینی سمندر میں چین کے ہاتھوں جبکہ مشرقی یورپ میں( یوکرین میں) روس کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہے۔ اسرائیل حماس جنگ آج باقاعدہ خطہ کو لپیٹ چکی ہے۔ اسرائیلی خواہش کو ایران پورا کرنے پر آمادہ ہو چکا ہے۔ حزب اللہ سے جھڑپیں شروع ہو چکی ہیں ۔روس پہلے ہی یمنی حوثیوں کو نیوکلیئر ہتھیار دینے کا عندیہ دے چکا ہے۔ ترکی پہلے سے ایسی جنگ میں شمولیت کا عندیہ دے چکا ہے۔ آنیوالے دنوں میں روس نے ایران وترکی کو بھی ایٹمی اسلحہ سے لیس رکھنا ہے۔ جواب میں اسرائیل کی نمبر ایک شخصیت کو قتل کرنے کی کوشش ہوگی ،ساتھ ہی اسرائیل کے تیل اور تجارت کو روکا جائیگا۔ آبنائے ہرمز، باب المندب اور بحیرہ روم جیسی اہم تجارتی بندرگاہیں، ایران، یمنی حوتی اور ترکی کے قبضہ میں ہیں۔ اسرائیل کی مدد اور تجارتی راستہ کھلوانے کیلئے امریکہ نے جنگ میں کودنا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ! پوری دنیا کے نامور دفاعی تجزیہ نگار اس جنگ میں اسرائیل کے مکمل خاتمہ پر متفق ہیں ۔ اسماعیل ہنیہ ! شہید کبھی نہیں مرتا جبکہ تیرا مشن زندہ تابندہ ،تکمیل کے قریب ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ