جانے کئی دہائیوں سے ہم دائروں میں سفر کررہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ مگر مسئلہ یہ ہوجاتا ہے کہ وحشت ودہشت کے جس مقام سے ہم گزرچکے ہوتے ہیں عین اسی مقام پر لوٹتے ہیں تو وحشت ودہشت مزید ناقابل برداشت ہوجاتی ہیں۔ کئی مہینوں تک ہم اس مقام پر حواس باختہ ہوئے حالت سکوت میں گھرے نظر آتے ہیں۔
مذہبی جذبات بھڑکاتے ہوئے لوگوں کو قتل پر اکسانا بھی ایسا ہی ایک مقام ہے۔ رواں صدی کی پہلی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے خلاف نفرت انگیز مہم بھڑکائی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) ان دنوں تخت لاہور پر قبضہ کی جنگ میں مصروف تھیں۔ مذکورہ مہم کو مسلم لیگ (نون) نے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے احمقانہ مفاد پرستی کے ساتھ استعمال کیا۔ بالآخر گورنر پنجاب اپنے ہی ایک وردی پوش اور سرکار کے فراہم کردہ محافظ کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔
مکافاتِ عمل کی حقیقت کا مگر مسلم لیگ (نون) کو 2017 کے آغاز میں شدت سے سامنا کرنا پڑا۔ انتخابی قوانین کو سادہ اور آسان بنانے کے لئے ایک قانون متعارف کروانے کی کوشش ہوئی۔ مذکورہ قانون کی تیاری کے دوران میں ایک متحرک پارلیمانی رپورٹر تھا۔ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر مصر ہوں کہ جو قانون تیار ہورہا تھا اس کا کسی عقیدے یا مسلک سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ محض ایک سادہ حلف نامہ تھا جو انتخابی عمل کے مختلف مراحل میں سے ایک مرحلے کے دوران جمع کروانا تھا۔ اس پر دستخط کرتے ہوئے کسی مسلمان کے بدعقیدہ ہوجانے کا امکان ہی نہیں تھا۔
تلخ حقیقت یہ بھی رہی کہ مذکورہ قانون جن دنوں سینٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں کے زیر غور تھا تو ان کمیٹیوں کے اراکین میں مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کے علاوہ تحریک انصاف کے اراکین بھی شامل تھے۔ وہاں سے یہ قانون بلاحیل وحجت منظور ہوگیا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے ایک بقراطِ عصر جو خود کو دورِ حاضر کا شورش کاشمیری اور عطا اللہ شاہ بخاری ثابت کرنے کو بے چین رہتے ہیں مذکورہ قانون کی مگر ایسی تاولیل گھڑنے میں کامیاب ہوگئے جو مجوزہ حلف نامے کو بدعقیدگی کا اظہار ثابت کرتی تھی۔ان کی بھڑکائی آگ کو مذہب کے نام پر بنائی ایک سیاسی تنظیم نے شدت پسند تحریک کو تیز ترکرنے کیلئے استعمال کیا۔
اب کی بار تحریک انصاف نے مسلم لیگ (نون) کی مشکلات کے بارے میں وہی رویہ اختیار کرنے کو ترجیح دی جو اس جماعت نے سلمان تاثیر کے بار ے میں اختیار کیا تھا۔ نفرت کی آگ بھڑکی تو اس کی وجہ سے نواز شریف پر لاہور کی ایک مشہور مذہبی درس گاہ کی تقریب خاص میں جوتا اچھالا گیا۔ خواجہ آصف کے چہرے پر ان کے آبائی شہر میں سیاہی پھینکی گئی۔ ان دنوں کے وزیر داخلہ احسن اقبال پر لیکن قاتلانہ حملہ ہوا۔ ان کی خوش قسمتی کہ گولی ان کے ہاتھ پر لگی اور وہ محفوظ رہے۔ نواز شریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال مذہبی اعتبار سے روایتی اور قدامت پسند گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ احسن قبال کی والدہ جماعت اسلامی کی متحرک کارکن بھی تھیں۔ جس درس گاہ میں نواز شریف پر جوتا اچھالا گیا اس کی توسیع میں شریف خاندان نے صدق دل سے معاونت بھی فراہم کی تھی۔ اس کی دیرینہ عقیدت مگر کسی کام نہ آئی۔
دین کے نام پر ابھارے جذبات سے مشتعل ہوئے افراد خواجہ آصف اور احسن اقبال کی مسلکی حوالوں سے خاندانی شناخت بھی بھول گئے۔ بالآخر مسلم لیگ (نون) کو اپنے وزیر قانون کی قربانی دے کر جند چھڑانا پڑی۔ نواز شریف اس سے قبل پانامہ دستاویزات کے بہانے بھڑکائے عدالتی عمل کے اختتام پر انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہل ٹھہرائے جاچکے تھے۔ ان کی جگہ وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھے شاہد خاقان عباسی نام نہاد حلف نامہ میں ترمیم کے نام پر بھڑکائی تحریک کے روبرو بے بس ولاچار نظر آئے۔ بالآخر ریاست کو شرمناک انداز میں بلوائیوں سے تحریری صلح نامہ کرنا پڑا۔
تاریخ بڑی ظالم شے ہے۔ ایک انتخابی حلف نامہ میں ترمیم کے حوالے سے بھڑکائی تحریک کے آگے سرنگوں ہونے کا معاملہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کے روبرو پیش ہوا تو انہوں نے اس کے پس منظر پر توجہ دیتے ہوئے ریاست کے طاقت ور ترین اداروں کے رویے پر تلخ سوالات اٹھائے۔ اس امر پر اصرار کیا کہ معاملہ کوبھلایا نہ جائے۔ اس امر کا سراغ لگایا جائے کہ بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر چلائی تحریک کے روبرو حکومت وریاست کو سرنڈر کیوں ہونا پڑا۔ ان کے مشورے کو حکومت وریاست نے قابل غور ہی تصور نہ کیا۔ رات گئی بات گئی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
مسلم لیگ (نون) کے بعد مگر تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اسے بھی اسی جماعت نے مذہبی جذبات بھڑکاتے ہوئے زیر کرنے کی کوشش کی۔ بطور وزیر اعظم عمران خان مگر سیم پیج کی سہولتوں سے فیض یاب ہورہے تھے۔ لاہور سے چلے مظاہرین کو جہلم پر روک دیا گیا۔ وہ معاملہ تھم جانے کے چند ہفتوں بعد مگر راولپنڈی کے فیض آباد چوک پر ایک بار پھر دھرنا ہوا۔ اسے بھی ریاستی قوت کے جارحانہ استعمال سے کنٹرول کرلیا گیا۔
گزشتہ چند مہینوں سے ہم بتدریج دوبارہ اسی مقام پر لوٹ رہے ہیں جہاں سلمان تاثیر کے قتل سے قبل حواس باختہ ہوئے کھڑے تھے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو رواں برس کا سلمان تاثیر بنانے کی کوشش ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (نون) ایک بار پھر وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار ہے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ ماضی کی طرح مذہب کے نام پر بھڑکائے جذبات کے آگے ڈھیر ہوئی نظر نہیں آئے گی۔ امید کے اظہار کے سوا دائروں میں سفر سے مفلوج ہوئے ذہن میں اس موضوع کی بابت مزید ایک لفظ بھی نہیں آرہا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت