اگلے ہفتے 5اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمہ اور اس ریاست کے دولخت کرنے کے وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کے فیصلہ کے پانچ سال مکمل ہو جائینگے۔ اس مناسبت سے تو پہلے سے ہی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قدم سے کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں روا ں ہو گئی ہیں، امن و امان قائم ہوگیا ہے اور پاکستان کو مسئلہ کشمیر سے ایسے باہر کردیا گیا ،جیسے مکھن میں سے بال نکالا ہو۔ ان کے حواری اس پر تالیاں بھی پیٹ رہے ہیں۔ اس بار جشن کچھ زیادہ ہی ہے، کیونکہ پچھلے سال سپریم کورٹ نے بھی اس پر مہر لگادی، مگر حکومت سے وعدہ لیا تھاکہ ستمبر تک ریاستی اسمبلی کے انتخابات کروائے جائیں گے۔ مگر بھار ت کی مقتدر شخصیات نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پانچ سال قبل لئے گئے اس فیصلہ نے ریاست جموں و کشمیر کو ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ اس رپورٹ کے خالق 20 مقتدر شخصیات میں پانچ سابق سینئر جج، سابق سیکرٹری خارجہ و داخلہ سمیت چار اعلی افسران، فوج سے سبکدوش ہوئے چار اعلی افسران اور تاریخ دان رام چندر گوہا ہیں۔ ان افراد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو موخر کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا قدم انتہائی غیر معمولی ہوگا، کیونکہ ماضی میں اس سے بھی خراب حالات میں انتخابات کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت نے انتخابی حلقوں کی جیری مینڈرگ کرکے یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انتخابات ہوں، تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک کلیدی پارٹی کے روپ میں جموں وکشمیر میں ابھر سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اننت ناگ-راجوری لوک سبھا حلقہ کی ایسی حد بندی کر دی گئی کہ اس میں جموں کے پونچھ اور راجوری کے اضلاع کو شامل کرکے تقریبا 1.09 ملین سے 1.83 ملین، گجر اور پہاڑی مسلمانوں کو اس حلقہ میں شامل کردیا گیا۔ اس عمل سے جموں لوک سبھا حلقہ سے 740,000 مسلم ووٹروں کو ہٹا دیاگیا۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کے جگل کشور نے جموں میں 135,498 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ رپورٹ کے مطابق اگر پچھلی حد بندی پر انتخابات ہوئے ہوتے، تو ان کا جیتنا مشکل تھا۔ اسی طرح مسلم اکثریتی وادی کشمیر جہاں ریاست کی 56.15 فیصد آبادی رہتی ہے کے حصہ میں اسمبلی کی 47 نشستیں اورہندو اکثریتی جموں کی43.85 فیصد آبادی کو 43 نشستیں دی گئیں۔ ایسی حد بندی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کو پامال کردیتی ہے۔ فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر سے وابستہ مقتدر شخصیات کی رپورٹ میں ابھی حال ہی میں لیفٹیننٹ گورنر کو قبل از انتخاب مزید اختیارات دینے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے اگر انتخابات کی صورت میں منتخب حکومت برسر اقتدار آتی بھی ہے، و ہ لاچار اور بے بس ہوگی۔ اس حکم نامہ کی رو سے پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔ تقرریوں اور تقرری سے متعلق تمام امور کیلئے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی۔ اس کے فیصلوں پر وزرا کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکتی ہے۔ لیفٹنٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزرا کے شیڈول اور/یا میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔یعنی وزرا اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔ ان شخصیات نے جن میں سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس روما پال، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ، جسٹس اے پی شاہ اور اوڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس بلال نازکی اور جموں کشمیر ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس حسنین مسعودی شام ہیں ، نے ریاستی درجہ کی جلد بحالی پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے قواعد بتاتے ہیں کہ یونین انتظامیہ اس کے بجائے دہلی کی قسم کے ہائبرڈ میکانزم پر غور کر رہی ہے۔ جب سپریم کورٹ نے دسمبر 2023 میں ریاست کا درجہ دینے کی ٹائم لائن پر پوچھا تو سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا، ‘مکمل ریاست کا درجہ حاصل کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے ۔ مگر یقین دلایا تھا کہ حکومت جموں و کشمیر کو ایک مکمل ریاست بنانے کے لیے بتدریج آگے بڑھ رہی ہے۔مگر حال ہی میں ، وزیر داخلہ امیت شاہ کا پارلیمنٹ میں یہ بیان کہ سیکورٹی فورسز 2026 تک مکمل طور پر جموں و کشمیر میں شورش پر قابو پاکر غلبہ حاصل کریںگے سے لگتا ہے کہ ریاست کا درجہ دینے کا عہد بھی موخر کیا جاسکتا ہے۔ اگر جمہوری طور پر منتخب حکومت کو اپنے افسران کو کنٹرول کرنے اور ان کا احتساب کرنے کی اجازت نہیں ہے، تو اسکے وجود کا ہونا یا نہ ہونا ایک ہی بات ہے۔ فورم کے اراکین ، جن میں سابق سیکرٹری داخلہ گوپال پلئے ، کشمیر کی سابق مذاکرات کار رادھا کمار اور سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راو بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ ، 2020 سے دسمبر 2023 کے درمیان UAPA یعنی ا نسداد دہشت گردی قانون اور بد نامہ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 2,700 سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، ان میں سے 1,100 کو’اوور گرانڈ ورکرز’ یا عسکریت پسندوں کے سہولت کار کے طور پرکیس درج کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ججوں کی جانب سے 2023-2024 میں گرفتاریوں کو منسوخ کرنے اور/یا ضمانت دینے کارجحان بڑھ گیا ہے، جس سے کسی حد تک امید کی کرن روشن ہو گئی ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق، 19 جنوری 2024 تک بھارت میں 7 صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ ان میں سے 4 کا تعلق جموں و کشمیر سے تھا۔ دو کے خلاف UAPA اور دو کے خلاف PSA کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) نے اعلان کیا تھا کہ فروری 2024 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عوامی سماعتیں ہوں گی، لیکن سماعتیں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئیں۔ اکتوبر 2019-دسمبر 2022 کے درمیان جموں و کشمیر سے NHRC کے پاس رجسٹرڈ 1,164 مقدمات پر کارروائی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے، اور نہ ہی ان 765 شکایات پر جو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے پاس زیر التوا تھیں جب اسے 2019 کے تنظیم نو کے قانون کے بعد ختم کیا گیا تھا۔(جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز