مزاحمتی تحریکوں کے بدلتے رنگ : تحریر مظہر عباس


کسی بھی زندہ معاشرہ میں مزاحمت آکسیجن کا کام کرتی ہے اور پابندیاں ایسی مزاحمتوں کا راستہ روک نہیں سکتیں۔ ہماری پچھلے 75سال سے غلط فہمی یہ رہی ہے کہ اظہار کی آزادی پر پابندی لگا دو، سب کو گرفتار کر لو تو معاملہ ٹھنڈا پڑ کر ختم ہو جائے گا۔ میڈیا کو کوریج کی اجازت نہ دو، بلیک آؤٹ کر دو، سنسر کر دو یا میڈیا کو ہی خرید لو تو مزاحمت دم توڑ دے گی۔ ایسی ہی پالیسیوں نے بنگلہ دیش بنا ڈالا۔ سبق پھر بھی سیکھنے کو تیار نہیں۔ جمہوریت تو اس ملک میں ایک خواب ہی رہی مگر جو دکھاوا تھا وہ بھی اس ہائبرڈ نظام نے ختم کر کے رکھ دیا آج کے سیاستدان کی نہ کوئی ساکھ ہے نہ عوام کی کوئی آس جو کھیل سیاست اور صحافت پر پابندیوں کا 1947کے فوراً بعد شروع ہوا تھا اس کے نتائج اب ظاہر ہورہے ہیں۔ لہٰذا جو آپ کو اس وقت بائبرڈ میڈیا پر نظر آ رہا ہے معاملات اس سے کئی زیادہ سنگین ہیں خاص طور پر بلوچستان اور پختونخوا میں۔ اب بھی وقت ہے تھوڑا ہوش کے ناخن لیں۔

اس وقت ملک میں مزاحمتوں کے مختلف رنگ دکھائی دے رہے ہیں کچھ کو دکھانے کی میڈیا کو اجازت ہے کچھ کو نہیں۔ مثلاً عمران خان، ماہ رنگ بلوچ او ر منظور پشین جن کی جماعتیں بہرحال کالعدم نہیں ہیں مگر ان کی تقاریر یا تصویر پر غیرعلانیہ پابندی ہے۔ ایم کیو ایم (لندن) اور الطاف حسین پر تو 2016 سے پابندی ہے۔ اب یا تو قانون کا سہارا لے کر پابندی لگا دیں کالعدم کر دیں یا یہ میڈیا پر چھوڑ دیں کہ وہ ادارتی فیصلے کرے۔ اب صحافت کا رونا کیا روئیں کہ ہم ایک طرف پابندیوں میں صحافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومتوں سے اشرافیہ سے آزادی صحافت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں تو دوسری طرف صحافت کے نام پر دھندہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ صحافت تو آج بھی اک مشن ہی ہے مگر ان کے لیے جو اس کی حرمت کو سمجھتے ہیں۔ خیر بات کہیں اورنکل جائے گی بات ہورہی تو مزاحمت کی ہے جس کا راستہ پابندیاں نہیں روک سکتیں۔ بہتر ہے معاملات کو سنجیدگی سے سمجھا جائے اور حل کیا جائے۔اس وقت راولپنڈی ، اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی مزاحمت کی ایک شکل ہے۔ جماعت اسلامی نے درست وقت کا انتخاب کیا ہے کیونکہ مہنگائی، ٹیکسوں میں مڈل کلاس کے لئے ہر ماہ بجلی کا بل، بجلی بن کر گر رہا ہے۔ برسوں پہلے ایوب کے زمانے میں چینی کی قیمتوںمیں معمولی اضافے کے خلاف ایسی تحریک چلی کہ وقت کے طاقتور آمر کو استعفیٰ دینا پڑا ۔موجودہ حکمرانوں کو تو خود بھی اپنی مقبولیت اور قبولیت کا پتا ہے۔ جماعت کے موجودہ جوان امیر حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والے حافظ نعیم کراچی کے میئر بننے والے تھے بس ایک ملاقات لاہور جا کر عمران خان سے ان کی پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کیا کر لی کہ میئر سے امیر بن گئے۔

عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں اور ہیں بھی مگر نہ کوئی اس کی مقبولیت سے انکاری ہے نہ اس کی تردید کرتا ہے کہ 8فروری کا مینڈیٹ چوری ہوا تھا۔ تنقید یا تردید کرنے والے بھی اکتفا اس بات پر کرتے ہیں کہ 2018میں بھی یہی ہو ا تھا۔ تاہم 9 مئی 2023کے واقعات نے عمران اور پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا مگر جس طرح اتنے سنگین واقعات پر سیاست کھیلی گئی اس کا سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا۔ تاہم ان سوالات کے جوابات آنے ضروری ہیں کہ نو مئی کیسے ہوا،کیوں ہوا،کس نےکیا؟۔ سوالات کے جوابات میں عدالتوں میں جرم ثابت ہو سزا دیں ورنہ بری کر دیں بس سیاست نہ کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اتنی مقبولیت کے باوجودثابت یہی کیا ہے کہ اس میں تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں۔ ان کے قائدین کو بہرحال حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ ان کی پالیسیوں کی بدولت تحریک انصاف کو عروج ملا اور مل رہا ہے۔

مزاحمت کی ایک انتہائی سنجیدہ اور قابل غور شکل خیبرپختونخوا میں نظر آرہی ہے جہاں پشتون قوم پرستی، ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہے ۔ ایک طرف پی ٹی آئی ہے جو 12سال سے حکومت کر رہی ہے اب تو ہیٹ ٹرک ہو گئی ہے تو دوسری طرف پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین ہیں جو غالباً اس وقت سب سے مقبول پشتون لیڈر ہیں تو تیسری طرف تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسی انتہا پسنداور دہشت کی علامت تنظیمیں ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی مذہبی سیاسی جماعتیں ناکام نظر آتی ہیں۔ ریاستی پالیسی نے باچا خان کی عدم تشدد کی تحریک اور سرخ پوش تحریکوں کو جبر سے دبایا تو آج ہمیں طالبان اور داعش کا سامنا ہے۔ اب اگر ساتھ میں افغانستان ہو اور وہاں طالبان کی حکومت تو معاملہ کتنا سنجیدہ ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کاش ہمارے اصل حکمرانوں نے 1982 میں خان عبدل ولی خان کی بات سن لی ہوتی۔ ’’جو گولی یہاں سے کابل جاتی ہے وہ کہیں پلٹ کر آنا نہ شروع کردے‘‘۔

مزاحمتی تحریکوں میں اکثر نئی نئی آوازیں جنم لیتی ہیں ایسی ہی ایک آواز ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ہے۔ لاپتہ افراد کی تحریک سے اٹھنے والی اس آواز نے خود بلوچ سرداروں کو پریشان کردیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور بیشتر وہاں کے رہنما تو ویسے بھی بلوچ حقوق کے نام پر مال بنا رہے ہیں۔ کسی ایک نے وہاں کے مسائل حل نہ ہونے پر اور سرکاری پالیسیوں کے خلاف استعفیٰ نہیں دیا۔ یہاں علیحدگی پسند بھی ہیں اور قوم پرست بھی۔ یاد رکھیں گوادر میں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا یا مین اسٹریم میڈیا پر پابندی سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

آخر میں بڑے بھائی سے درخواست ہے کہ تحریر ، تقریر یا تصویر پر پابندی سے مقبول لیڈر کی مقبولیت کم نہیں بڑھتی ہے۔ جو اب دلیل سے آئے تو مزا بھی آتا ہے اور رستہ بھی کھلتا ہے۔ مزاحمت پابندی سے نہیں اظہار کی آزادی سے ختم کی جا سکتی ہے۔ بات چیت ہی مسائل حل کر سکتی ہے اگر بات حافظ نعیم یا جماعت سے ہو سکتی ہے تو دیگر سے کیوں نہیں۔

جاگ میرے پنجاب…

بشکریہ روزنامہ جنگ