آئی پی پیز کی کہانی اس وقت سے شروع ہوئی جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ”میرے گائوں میں بجلی آئی ہے“ کے ترانے کے اشتہارات چلارہی تھی ۔ پہلی بار ان کے دور میں حکومتی وسائل سے بجلی بنانے کی بجائے پیپلز پارٹی نے پرائیویٹ پارٹیوں کو بجلی پیدا کرنیکی اجازت دی اور ان سے بجلی خریدنے کے ایسے معاہدے کئے جو اس وقت وبال جان بنے ہوئے ہیں ۔لیکن یہ ”اعزاز“ صرف پیپلز پارٹی کو حاصل نہیں ہوا بلکہ 2002ءمیں جنرل مشرف کے وقت میں بھی یہ کام ہوا جبکہ 2015ءمیں میاں نواز شریف کی حکومت میں بھی چینی کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کئے گئے۔
• 1994ء میں بینظیر حکومت نے تیل، کوئلہ اور گیس کی بنیاد پر آئی پی پیز تیار کرنے کے لیے سرمایہ کار دوست پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے 16 آئی پی پیز قائم کیے گئے۔
• 2002ءمیں نئی حکومت نے ایک نئی پالیسی اپنائی جس کے تحت مزید 12آئی پی پیز نے کام شروع کیا۔• 2015ءمیں پاکستان نے ایک نئی پاور پالیسی اپنائی جس کے تحت مزید 13آئی پی پیز قائم کیے گئے جن میں سے زیادہ تر چینی کمپنیوں کی جانب سے قائم کیے گئے۔
• 2018ءتک 40سے زائد آئی پی پیز پاکستان میں کام کر رہے تھے۔اصل میں 50ارب روپے کی تعمیر کردہ آئی پی پی کو مجموعی طور پر 400ارب روپے کی ادائیگیاں مل چکی ہیں۔
مالی سال 2023-2024ء کے دوران حبکو (HUBCO) اور کیپکو (KAPCO) (سرکاری ملکیت) سمیت دو پاور پلانٹس کو 46 ارب روپے ادا کیے گئے ہیں، جن میں ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی گئی۔ 15 فیصد لوڈ فیکٹرز پر بجلی پیدا کرنے کے لئے تین پلانٹس کو 370 ارب روپے ادا کیے گئے۔ گزشتہ مالی سال میں آئی پی پیز کو 1.93 کھرب روپے ادا کیے گئے تھے۔
ایف پی سی سی آئی(FPCCI) کے قائم مقام صدر کے مطابق آئی پی پیز اس وقت 150ارب روپے ماہانہ کیپسٹی پیمنٹ وصول کر رہے ہیں۔ اس میں غیر آپریشنل اور جزوی طور پر آپریشنل دونوں پلانٹس کو ادائیگیاں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال (2024-2025ء) کے لیے آئی پی پیز کو 2,091 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹ کرنی ہیں۔ نیوکلیئر پلانٹس کیلئے سب سے زیادہ کیپسٹی پیمنٹ کا تخمینہ 465.7ارب روپے لگایا گیا ہے۔ پن بجلی گھروں کی کیپسٹی پیمنٹ کا تخمینہ 446.4ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ درآمدی کوئلہ پاور پلانٹس کے لیے 395.4ارب روپے درکار ہوں گے۔ تھر کول پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹ کے لیے 256ارب روپے اور ایل این جی پاور پلانٹس کو 168ارب روپے کی ضرورت ہے۔ ونڈ (Wind) پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹ کیلئے 168ارب روپے اور فرنس آئل پاور پلانٹس کو 81ارب 33کروڑ روپے درکار ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ گیس پاور پلانٹس کے لیے کیپسٹی پیمنٹ کا تخمینہ 61ارب 21کروڑ روپے جبکہ سولر پاور پلانٹس کیلئے 41 ارب 63 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔آخر میں، بگاس (گنے کی باقیات) سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کے لئے صلاحیت کی ادائیگی کا تخمینہ 6.9 بلین روپے لگایا گیا ہے۔
آئی پی پیز کے بڑے نجی مالکان: منشا گروپ 4 آئی پی پیز کا مالک ہے۔ حبیب اللہ گروپ کے پاس 6آئی پی پیز ہیں جن میں سے 3علیحدہ اور 3مشترکہ طور پر ہیں جن میں سے ایک غیر ملکی فرم چائنا پاور انٹرنیشنل اور 2مقامی فرم حبکو اور اینگرو کے پاس ہیں۔ میاں محمد عبداللہ کے سیفائر گروپ کے پاس الگ سے 5 آئی پی پیز اور غیر ملکی فرم اینجی فرانس کے پاس دو آئی پی پیز ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کے پاس 3آئی پی پیز ہیں۔حسین داؤد گروپ 3 آئی پی پیز کے مالک ہیں۔ شمیم خان 2 آئی پی پیز کے مالک ہیں۔ ندیم بابر 2آئی پی پیز کے مالک ہیں، ایک علیحدہ اور دوسرا محمود گروپ کے ساتھ مشترکہ طور پر۔ سلیمان شہباز شریف گروپ ایک آئی پی پی (چنیوٹ پاور لمیٹڈ) کے مالک ہیں جبکہ رزاق داؤد گروپ ایک آئی پی پی (روش پاور پلانٹ) کا مالک ہے۔ سیفائرگروپ اور حبیب اللہ گروپ کی طرح نظام انرجی ایک غیر ملکی فرم سیکٹیک سولر ناروے (Sactec Solar Norway)کے ساتھ 2 مشترکہ آئی پی پیز چلاتی ہے۔
بجلی پیدا نہ کرنے والے آئی پی پیز : ڈاکٹر گوہر اعجاز نے انکشاف کیا کہ بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود ایک پاور پاور پلانٹ کو جنوری سے مارچ 2024تک ایک ارب 28کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ اسی طرح ایک اور کمپنی کو 33ارب روپے موصول ہوئے جبکہ ایک اور کمپنی کو بھی تقریبا 30رب روپے ادا کیے گئے، دونوں نے اس عرصے کے دوران بجلی پیدا نہیں کی۔
مزید برآں، پنجاب میں قائم ایک اور کمپنی نے جنوری سے مارچ تک تقریبا 10ارب روپے وصول کیے، اور سندھ میں قائم ایک کمپنی نے بغیر کسی بجلی کی پیداوار کے تقریبا 930ملین روپے وصول کیے۔ایک اور کمپنی کو 670 ملین روپے ادا کیے گئے جبکہ ایک اور کمپنی کو ان تین ماہ کے دوران بجلی کی پیداوار کے بغیر 590ملین روپے موصول ہوئے۔ چار پاور پلانٹس کو ماہانہ 10ارب روپے مل رہے ہیں جبکہ بجلی کی فراہمی صفر ہے۔
دوسری طرف آئی پی پیز مالکان کاموقف یہ ہے کہ انہوں نے sovereign)) سورن گارنٹی کے تحت معاہدے کئے ہیں جس وقت یہ معاہدے گئے تھے اس وقت پاکستان کو بجلی کی شدید ضرورت تھی اور کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے تیار نہ تھا۔ ان کمپنیوں نے اس وقت سرمایہ کاری کی جب رسک تھے اب جب اس کاروبار سے منافع ہورہا ہے تو اعتراض کیوں کیا جارہا ہے؟۔ اس میں کوئی بد دیانتی نہیں او ریہ سب کچھ طے شدہ معاہدوں کے تحت ہی ہورہا ہے جس کے سب فریق پابند ہیں۔
تاہم موجودہ صورتحال سے بالکل واضح ہے کہ حکومت ہر ماہ بجلی کے بل میں غریب سے پیسے لے کر امیروں کو دے رہی ہے۔ یقینا غلطی کے اصل ذمہ دار وہ حکمران ہیں جنہوں نے یہ معاہدے کئے لیکن اب انہیں حرف آخر سمجھنا بھی دانشمندی نہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو صرف بیس فی صد آئی پی پیز غیرملکی کمپنیوں کے ہیں۔ باقی سب پاکستانی سرمایہ دار ہیں۔ ان پاکستانی سرمایہ داروں سے بات کرکے سمجھا دیا جائے کہ اگر پاکستان رہے گا تو ان لوگوں کی دولت بھی رہے گی۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کسی وقت بھی یہ بجلی کا بل حکومت کے گلے کا طوق بن جائے اس لئے آئی پی پیز کے مالکان ان کھربوں میں سے چند ارب واپس قوم کو لوٹا دیں جو انہوں نے حکومت سے کمائے ہیں۔ نہیں تو کسی وقت عوام اٹھ کر حکمرانوں اور ان آئی پی پیز کے مالکان کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ