سو سنار کی ایک لوہار کی!! : تحریر سہیل وڑائچ


نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟جہاں زیادہ ’’سیانے‘‘ جمع ہوں وہاں جمہوری شعور کو کون اہمیت دیتا ہے؟ قلم مزدور کو طاقت ور سائیس کب گھاس ڈالتے ہیں؟ وہی ہوا جس کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ ’’ایک اور سقوط ڈھاکہ‘‘ لکھ کر ڈرایا کہ مصالحت نہ کی تو سانحہ ہوسکتاہے۔ ’’کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا‘‘ کے ذریعے پیغام دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد طاقت والوں کے پاس سرجھکانے کے علاوہ کوئی اور پرامن راستہ نہیں ہے باقی راستے خونیں غیرآئینی اور نقصان دہ ہیں ۔ میری ان گزارشات کے بعد کچھ توقعات تھیں اور کچھ خدشات، یا تو طاقت ور یہ مشورہ مان لیں گے اور مصالحت کا راستہ نکل آئے گا بادل نخواستہ ہی سہی مقبولیت والے کو قبول کرلیں گے او ر یوں راوی چین لکھے گا۔ یہ توقع نقش بر آب ثابت ہوئی اور خدشہ درست نکلا کہ کیونکہ منصوبہ بندی یہ ہو رہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔

طے یہ ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو نہ مانا جائے اور اسے بے اثر کردیا جائے، تحریک انصاف اور اس کے لیڈر جتنے بھی مقبول ہیں فی الحال انہیں قبول کرنے کے بارے میں دور دور تک کہیں ایسی سوچ بھی نہیں پائی جا رہی، ججوں کی سوچ میں تبدیلی اور عوامی دباؤ نے اہل طاقت کو بجائے قائل کرنے کے اس بات پر آمادہ کردیا ہےکہ انہیں اور بھی زیادہ طاقت سے اس ’’فتنے‘‘ کا استرداد کرنا ہے۔ امریکی کانگریس کی قرار داد ہو یا یورپ سے ہیومن رائٹس کے حوالے سے اٹھنے والی آوازیں، انہیں درخور اعتنا نہ سمجھنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نامہ بر معتبر تھا اس لئے آنے والے ٹاکرے کے خوف سے رات بھر نیند نہ آئی۔ نامہ بر ناراض تھا کہ ’’ناہنجار‘‘ صحافی بھی شہرت کے بھوکے ججوں کی طرح’’ قومی مفاد‘‘ بھول کر انصافی بینڈ ویگن میں بیٹھنا چاہتے ہیں ناہنجار لفافے نے دلائل دینے کی کوشش کی، ماضی کی مثالیں دیں، المیہ مشرقی پاکستان سے پہلے باہمی تصادم کے نقصانات کے حوالے دیئے نامہ بر نےکہا جواب واضح ہے فتنے کو ختم کرکے دم لیں گے۔ قمر بدایونی نے نامہ بر کے جواب پر کہا تھا۔؎

نامہ بر تو ہی بتا، تو نے تو دیکھے ہوں گے

کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں

نامہ بر کا جواب سخت اور خوف ناک تھا۔ نامہ بر سے کہنے کی کوشش کی کہ مارشل لا کی گنجائش نہیں بین الاقوامی حالات اور ملک کی کمزور معیشت مارشل لا کے نفاذ کے حق میں نہیں، نامہ بر نے قہقہہ لگایا اور یقین دلایا مارشل لا کا نہ امکان ہے اور نہ دور دور تک اس حوالے سے کوئی سوچ پائی جاتی ہے، ڈرتے ڈرتے ہاتھ باندھے ہوئے عرض کی اب آپ اس قدر کمزور ہیں کہ لوگ آپ کی طاقت اور قوت نافذہ کے آگے سجدہ ریز ہونے سے مکمل انکاری ہیں۔ عرض کی بہتر ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لیں، سرجھکائیں، اپنے حریف کو اقتدار اور اختیار دیں خود کو غیر متنازع بنائیں یہ کوشش کی گئی تو شاید تضادستان بھی چل پڑے۔ نامہ بر نے ڈرپوک صحافی کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا مارشل لا نہیں لگ رہا آئین کے اندر رہ کر ہی مقتدرہ نے ’’سیاسی ججوں‘‘ اور سیاسی انصافیوں سے موثر طور پر نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

طاقت تو طاقت ہی ہوتی ہے وہ نہ تو سنتی ہے اور نہ بولتی ہے، اس کی زبان بھی طاقت ہوتی اوراس کا عمل بھی طاقت۔ نامہ بر کو ناہنجار لفافے صحافی پر سب سے زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ یہ کم عقل صحافی ان کو ’’سرنڈر‘‘ کے مشورے کیوں دے رہا ہے۔ ڈرتے ڈرتے اپیل کی یہ سرنڈر نہیں باعزت واپسی کا راستہ ہے، نامہ بر نے کہا ’’سرنڈرکا لفظ ہماری لغت میں نہیں، ڈھاکہ ہزار میل دور تھا وہاں ٹینک نہیں جا سکتے تھے، راستے میں دشمن کا علاقہ تھا، فکر نہ کریں کوئی جانی نقصان نہیں ہوگا، سرنڈر ریاست نہیں سرنڈر باغی افراد کرتے ہیں ریاست اپنی جگہ ڈٹ کر کھڑی ہے جو سیاسی لیڈر چاہے کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو وہ ریاست کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا اور اگر اس کے خلاف ریاست کو نقصان پہنچانے کا الزام ہو پھر تو لازماً اسے ہی سرنڈر کرنا پڑے گا‘‘۔ فقیر پر تقصیر نے عرض کی عوام غصے میں ہیں، جج ناراض ہیں سرمایہ کاری آ نہیں رہی، بیرونی دباؤ بڑھ رہا ہے، مہنگائی نے چیخیں نکلوا دی ہیں ایسے میں خان اور مقتدرہ ’’سرنڈر‘‘ ’’سرنڈر‘‘ نہ کھلیں ایک دوسرے کو راستہ دیں ۔ نامہ بر نے مڑ کر کہا اسے راستہ دیا تو وہ انتقام لے گا ہم پر وار کرے گا ہم اس کو جانتے ہیں اسے ذرہ برابر رعایت ملی تو وہ ہم پرچڑھ دوڑے گا ،اسلئے NO RISKاور نو کمپرومائز…۔

’’ناہنجار لفافی‘‘ کی زبان تالو میں نہیں ٹکتی، ڈرپوک ہے مگر پھر بھی ڈرتے ڈرتے سب کچھ کہہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انصافی گالیوں کی ٹھوکریں مارتے ہیں، مقتدرہ

ڈراتی رہتی ہے، نونی ناراض رہتے ہیں، پیپلئے سن کر اور پڑھ کر تالیاں تو بجاتے ہیں مگر پاگل سمجھ کر کسی مشورے پر عمل نہیں کرتے۔ نامہ بر اڑن کھٹولے میں ہوا کے دوش پر آیا جب اس نے واضح پیغام دیا کہ نوکمپرومائز تو ناہنجار لفافی یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ ’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘۔ عمر ایوب خان نے جیل سے باہر کھڑے ہو کر جنرل کا نام لینے کے بجائے ان کے عظمتوں والے عہدے ’’سپہ سالار‘‘ سے کیوں پکارا۔ ہر وقت غصے میں رہنے والی ہم سب کی باجی نے جیل سے باہر آ کر زیتون کی شاخ کیوں لہرائی؟ ہمیشہ سرخ جھنڈی دکھا کر چلتی ٹرین کو روکنے اور بحران کو حل نہ کرنے والوں نے سبز جھنڈی کیوں دکھانا شروع کر دی؟نامہ بر نے لمحہ بھر کیلئے کچھ سوچا، آنکھوں میں چمک آئی، ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ آگئی مگر اس نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ نامہ بر کے ایک سو جھوان دوست نے فٹ کہا مسئلہ فوجی تحویل کا ہے، سپریم کورٹ کے ان سیشن ہونے سے پہلے قیدی نمبر 804کو حکومتی تحویل سے لے کر فوجی تحویل میں لے جانے کی تیاری ہے۔ ناہنجار لفافی کے اندر کا بچہ جمہورا جاگا اور اس نے کہا ایسا کہاں ممکن ہے؟ اتنی بھی اندھیر نگری نہیں طاقتور سوشل میڈیا، جاگتی بین الاقوامی دنیا اور چوکنے اوورسیز پاکستانی تو آسمان سر پر اٹھالیں گے۔ نامہ بر ہلکا ہلکا مسکراتا رہا، بولا کچھ نہیں۔ نہ اس نے ہاں کی اور نہ اس نےناں کی۔ ناہنجار لفافی کو اس ملاقات کے بعد یقین ہوگیا کہ اگلے چند دنوں میں کچھ بڑا ہونے والا ہے اور یہ جو کچھ بھی ہونے والا ہے ناہنجار لفافی کے اندر بیٹھے بچہ جمہورےکیلئے وہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ جمہوریت، آئین اور سویلین اداروں کی بالادستی کو جھٹکا لگنے والا ہے، عدالتوں کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگانے کیلئے مکمل تیاری ہو چکی ہے۔

نامہ بر آندھی کی طرح آیا اور طوفان کی طرح واپس چلا گیا ناہنجار لفافی آنکھیں ملتا، خواب سے بیدار ہواتو یہ سوچتا رہ گیا کہ احمد فراز کی طرح کم از کم امید تو نہیں توڑنی چاہئیں۔؎

اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں

یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ

نامہ بر کے جاتے ہی بگولہ اڈیالوی نے آ ڈیرہ جمایا اور کہا سب کچھ سیٹ ہے نئے غیر متنازعہ وزیر اعظم کی سربراہی میں ایک قومی حکومت بننے والی ہے جس میں انصافی، نونی اور پیپلئے تینوں شامل ہوں گے جیل خان نے رضا مندی ظاہر کردی ہے بس قومی حکومت کے وزیراعظم کے نام پر بات چل رہی ہے۔ ناہنجار کی ہنسی نکل گئی ابھی دھماکے کی خبر ملی تھی اور اب تضادستان کو گل و گلزار بنانے کی افواہ ہے۔ افواہیں سننے میں کوئی حرج نہیں مگر واقعات کی رفتار سےہی حقیقت کو جانا جا سکتا ہے، صلح صفائی نہیں فی الحال صرف لڑائی ہو رہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ