قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی : تحریر وجاہت مسعود


(گزشتہ سے پیوستہ)

قرارداد مقاصد کی بحث بنیادی طور پر مطالبہ پاکستان کی سیاسی نوعیت اور پاکستانی ریاست کے موجودہ تشخص میں پائی جانیوالی خلیج سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی ضمن میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ذکر بھی چلا آیا۔ معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی کے احباب سید مودودی کے تاریخی مؤقف کا حوالہ دینے پر خورسند نہیں ہوئے۔ تاریخ کا دریا اپنے بہاؤ میں متنوع منطقوں سے گزرتا ہے۔ تحریک پاکستان کے بارے میں سید مودودی کے ارشادات تاریخ کا حصہ ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی مسئلہ کشمیر، انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے اور محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب میں بطور خاتون حصہ لینے سے مشرقی پاکستان کے بحران تک، مولانا مودودی کے مؤقف میں تبدیلی تاریخی حقیقت ہے۔ سید مودودی بنیادی طور پر مفکر تھے اور اپنی اصولی سوچ کے بیان میںبڑی حد تک بے لچک تھے۔ دوسری طرف سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی میں سیاسی سوچ رکھنے والے حلقے کو مولانا کے مؤقف کی تعبیر میں مشکل درپیش رہی ہے۔ اس ضمن میں میاں طفیل احمد کی کتاب ’جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد ‘خرم بدر کی مؤلفہ کتاب ’سید مودودی کی سیاسی زندگی‘ اور عاصم نعمانی کی تالیف ’سید مودودی پر جھوٹے الزامات اور انکے مدلل جوابات ‘کا مطالعہ مفید ہو سکتا ہے۔ سید مودودی کی تصنیف ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ کو قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی مناسب قطع برید کے ساتھ تین کی بجائے دو جلدوں میں ’تحریک آزادی ہند اور مسلمان ‘ کے عنوان سے شائع کرتی رہی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے اپنے مضمون ’مولانا مودودی اور تحریک پاکستان‘ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عمل کے ایک خط پر مولانا کا جواب مقتبس کیا ہے ۔ ’آپ حضرات ہرگز گمان نہ کریں کہ میں کسی قسم کے اختلافات کی وجہ سے حصہ لینا نہیں چاہتا ۔ دراصل میری مجبوری یہ ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حصہ لوں تو کس طرح؟ ادھوری تدابیر میرے دل کو بالکل اپیل نہیں کرتیں۔ نہ داغ دوزی(Patch work ) سے ہی مجھ کو کبھی دلچسپی رہی ہے۔ اگر کلی تخریب اور کلی تعمیر پیش نظر ہوتی تو میں بہ دل و جان اس میں ہر خدمت انجام دینے کیلئے تیار تھا‘ ( ترجمان القرآن ۔شمارہ جولائی۔ اکتوبر 1944ء)۔ اسی تسلسل میں جنگ پبلشرز سے شائع ہونیوالی سردار شوکت حیات کی کتاب ’گم گشتہ قوم‘ کا صفحہ 95دیکھئے۔ ’قائداعظم نے پٹھان کوٹ میں مولانا مودودی سے بھی ملنے کیلئے حکم فرمایا تھا۔ مولانا بنیادی طور پر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جو اس وقت انڈین نیشنل کانگرس کے حامی تھے۔ جب میں نے انہیں قائداعظم کا پیغام پہنچایا کہ وہ پاکستان کیلئے دعا کریں اور ہماری حمایت کریں تو انہوں نے جواباً کہا کہ وہ کیسے ناپاکستان کیلئے دعا کر سکتے ہیں۔ مزید برآں پاکستان کیسے وجود میں آسکتا تھا جب تک تمام ہندوستان کا ہر فرد مسلمان نہیں ہو جاتا۔ پاکستان کے متعلق مولانا مودودی کا رویہ ہمیشہ مخالفانہ ہی رہا۔ بعد ازاں یہی مولانا میری مدد کے طلبگار ہوئے کہ انہیں اس علاقے کے غیر مسلموں سے بچایا جائے۔ میں اس وقت پنجاب میں وزیر تھا۔ چنانچہ میں نے فوج کی مدد سے انہیں بحفاظت پٹھان کوٹ سے پاکستان پہنچایا‘۔

قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کے ترجمان ہفت روزہ ’کوثر‘ نے 16نومبر 1947ء کو لکھا۔’ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا اجتماعی نظام جن اصولوں پر قائم ہو رہا ہے ان اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم کسی قدر و قیمت کا مستحق نہیں سمجھتے‘۔ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی (لاہور ) کے اجتماع میں فرمایا۔ ’’ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے‘‘۔ (بحوالہ روزنامہ انقلاب 9اپریل 1948ء )۔ترجمان القرآن نے جون 1948ء کے اداریے میں لکھا۔ ’’یہ عین وہی لوگ ہیں جو اپنی پوری سیاسی تحریک میں اپنی غلط سے غلط سرگرمیوں میں اسلام کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرے ہیں۔ انہوں نے قرآن کی آیتوں اور حدیث کی روایتوں کو اپنی قوم پرستانہ کشمکش کے ہر مرحلے میں استعمال کیا ہے۔ کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اسکے اقتدار پر قابض ہو جائے‘‘۔ مولانا مودودی نے 9اگست 1948 ء کو جھنگ میں کہا ’’لیگ کی جنگ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی۔ مسلم لیگ نے اب تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا خطہ اسلئے حاصل کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر اسلامی خلافت چلائی جائیگی بلکہ یہ قومیت کی جنگ تھی۔ قومیت کی جنگ کو اسلام کی جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیگ کی قراردادوں کا جائزہ لیجیے۔ لیگ نے آج تک تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو گا۔‘‘نوائے وقت کے مدیر حمید نظامی سید مودودی کے ان خیالات کا ردعمل دینے میں پیش پیش تھے ۔ ’’ہم ان لوگوں کے حامی نہیں جو محض اپنی لیڈری چمکانے کے لیے شریعت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ (بہتر ہو گا کہ) شہر بہ شہر جلسوں میں قائداعظم کو گالیاں دینے اور سوقیانہ تقریروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلامی نظام حکومت کا ایک خاکہ مرتب کیا جائے۔‘‘ (اداریہ نوائے وقت 4جولائی 1948ء )۔31جولائی 1948ء کو حمید نظامی نے لکھا ۔ ’’حضرت مولانا مسلمانوں کو یہ بتا دیں کہ آپ کا ٹھوس سیاسی پروگرام کیا ہے۔ اپنا پروگرام نہ بتانا اور نعروں سے مسلمانوں کا دل بہلانا یا قائداعظم کو احمق، غلط کار اور دین میں ہلکا ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہنا ہرگز آپ کے شایان شان نہیں۔ قائداعظم کا ریکارڈ قوم کے سامنے ہے۔ آپ کو ابھی قوم نے آزمانا ہے۔ آپ قائداعظم کو ہزار گالیاں دیجئے۔ مسلمان آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کیلئے تیار نہیں ہونگے۔‘‘ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ