یہ کون سا پاکستان ہے؟ یہ کم از کم علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان تو نہیں ہے۔تحریک پاکستان کی اصل طاقت کوئی جرنیل یا جاگیردار نہیں بلکہ عام مسلمان تھے۔ لیفٹ اور رائٹ دونوں سوچوں کے لوگ تحریک پاکستان میں ساتھ ساتھ تھے۔ پاکستان بن گیا تو لیفٹ اور رائٹ نے ناصرف ایک دوسرے سے بلکہ آپس میں بھی لڑنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ فیض احمد فیض نے ڈاکٹر ایوب مرزا کو انجمن ترقی پسند مصنفین سے اپنے علیحدہ ہونے کی کہانی سنائی یہ پوری کہانی ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی…‘‘ کے نام سے مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ کتاب ’’فیض احمد فیض ‘‘میں موجود ہے۔ فیض کے بقول 1949ء میں احمد ندیم قاسمی انجمن کے سیکرٹری تھے۔ حکم ہوا کہ علامہ اقبال کو تباہ اور عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور ن۔ م راشد کو ختم کردیا جائے۔ فیض صاحب نےاس حکم کوبک بک قرار دے کر مسترد کردیا۔ ایک دن قاسمی صاحب نے انجمن کےاجلاس میں علامہ اقبال کے خلاف ایک مقالہ پڑھا۔ فیض نے اس مقالے کو انتہا پسندی قرار دیا اور انجمن کو اقبال دشمنی سے منع کیا۔ ان کی نہ مانی گئی تو وہ انجمن سے علیحدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی کی مرتب کردہ کتاب ’’فیض شناسی‘‘ میں فیض صاحب کے 22 انٹرویو شامل ہیں۔ ایک انٹرویو میں فیض نے علامہ اقبال کو اس دور کا آخری مفکر قراردیا ہے۔ آغا ناصر اپنی کتاب ’’ہم جیتے جی مصروف رہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ انہیں پتہ چلا کہ فیض احمد فیض صاحب علامہ اقبال کے فارسی کلام کے مجموعے ’’پیام مشرق‘‘کی کچھ منتخب غزلوں کا اردو ترجمہ کررہے تھے۔ آغا ناصر اور احمد فراز راولپنڈی کلب میں فیض صاحب کو ملے اور کہا کہ آپ تو خود اقبال کے ہم پلہ شاعر ہیں آپ کو اقبال کے فارسی کلام کا ترجمہ نہیں کرنا چاہیے۔ آغا ناصر لکھتے ہیں پہلے تو فیض صاحب ہماری رائے کو ہنسی مذاق میں ٹالتے رہے جب ہم باز نہ آئے تو انہوں نے کہا کہ آپ فضول باتیں کر رہے ہیں۔ اقبال کی اصل شاعری فارسی میں ہے اور یوں بھی ’’پیام مشرق‘‘ تو ہمارے مطلب کی شاعری ہے۔ فیض صاحب نے اقبال کے فارسی کلام کا ترجمہ مکمل کرکے سب سے پہلے آغا ناصر کوسنایا۔ فیض کےترجمے کا ایک نمونہ ملا حظہ فرمائیں۔
تو خورشید اور میں سیارہ تیرا
مجھے روشن کرے نظارہ تیرا
میں تجھ سے دور رہ کر نامکمل
کہ تو قرآں ہے میں سیپارہ تیرا
فیض نے ترقی پسندی کے نام پر اقبال کی مذمت سے انکار کیا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب احمد ندیم قاسم بھی اقبال کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 1985ء میں انہوں نے پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب ’’اقبال کا فکری نظام اورپاکستان کا تصور‘‘ کے دیباچے میں لکھا کہ علامہ اقبال سلطانیٔ جمہور اور آزادی ضمیر کے علمبردار تھے کہ یہ دراصل اسلامی تصورات ہیں اور انہی کی بازیافت اقبال کا منشور حیات ہے کیونکہ اقبال ملوکیت اور مذہبی پیشوائیت کے خلاف تھے۔ علامہ اقبال کا کمال یہ ہے کہ ان کی عظمت پر فیض احمدفیض جیسا لیفٹسٹ اور مولانا مودودی جیسے رائٹسٹ بھی اتفاق کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے 1941ء میں جماعت اسلامی بنائی تھی اور علامہ اقبال 1938ء میں فوت ہوگئے تھے۔ مولانا نے 1938ء میں علامہ اقبال پر ایک خوبصورت مضمون لکھا جس میںبتایا کہ ایک مرتبہ حکومت ہند نے علامہ اقبال کو جنوبی افریقہ میں اپنا سفیر بنانے کی پیشکش کی لیکن شرط یہ تھی کہ انہیں سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کے ساتھ شریک ہونا ہوگا۔ اقبال نے خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ مجھے یہ عہدہ قبول نہیں۔ یہ مضمون منیر احمد منیر کی کتاب ’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘‘ میں موجود ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر سید ظفر الحسن کے نام مولانا مودودی کا ایک خط شامل ہے جس میں انہوں نے علامہ اقبال کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ مولانا مودودی اقبال کو ایک بڑا شاعر اور اچھا مسلمان تو سمجھتے تھے لیکن 1937ء میں اقبال پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔ مولانا مودودی نے سیاست پر اقبال سے گفتگو کی لیکن وہ مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔ پاکستان میں علامہ اقبال کے ساتھ سب سےبڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ انہیں صرف ایک شاعر کے طور پر پیش کیاگیا، جس نے پاکستان کا خواب دیکھا۔ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری دو برسوں میں قائد اعظم کی فرمائش پر پنجاب میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کیلئے جو محنت کی اس سے صرف نئی نسل نہیں بلکہ وہ سینئر سیاستدان بھی بے خبر ہیں جو آج بھی مسلم لیگ کے مختلف دھڑوںکے ’’قائد‘‘ کہلاتے ہیں۔ جرنیلوں اور جاگیرداروں کی ملی بھگت سے آج پاکستان میں جو جمہوریت مسلط ہے اس میں قائد اعظم کے پائے کا کوئی قانون دان یا اقبال جیسا کوئی شاعر مسلم لیگ کا عہدیدار بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ عاشق حسین بٹالوی نے 1959ء میں لندن میں بیٹھ کر ’’اقبال کے آخری دوسال‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں بتایا گیا کہ جداگانہ طرز انتخاب پر دو سال کے مختصر عرصے تک اختلافات کا شکار رہنے کے بعد اقبال اور قائد اعظم ایک دوسرے کے قریب کیسے آئے؟دسمبر 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد پیش کرنے کےکچھ عرصہ کے بعد علامہ اقبال 1931ء میں لندن آئے تو ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں قائد اعظم نے علامہ اقبال کی ستائش میں ایک فصیح تقریر کی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم چند سال کیلئے لندن میں مقیم تھے۔ 1932ء میں علامہ اقبال پھر لندن گئے اور اس مرتبہ بھی قائد اعظم سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔جب قائد اعظم واپس ہندوستان تشریف لے آئے تو اپریل 1936ء میں لاہور آئے۔ قائد اعظم لاہور میں علامہ اقبال کو ملنے پہنچے تو شاعر مشرق نے دھوتی اور بنیان پہن رکھی تھی۔ خوش پوشاک قائد اعظم نے دھوتی اور بنیان میں ملبوس اقبال سے کہا کہ مسلم لیگ کو آپ کی مدد چاہیے۔ اقبال بیمار بھی تھے اور تنگ دستی کا بھی شکار تھے کیونکہ بیماری کے باعث وکالت چھوٹ گئی تھی۔ اقبال نے قائد اعظم سے کہا کہ میں کروڑ پتی سیٹھ تو نہیں لیکن عوام کو مسلم لیگ کے قریب لا سکتا ہوں۔ یہ سن کر قائد اعظم نے کہا کہ مجھے صرف عوام کی مدد درکار ہے۔ اس کےبعد علامہ اقبال کو مسلم لیگ کے پارلیمینٹری بورڈ میں شامل کیاگیا۔ 12مئی 1936ء کو پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم نو کی گئی جس میں علامہ اقبال صدر، غلام رسول خان سیکرٹری اور عاشق حسین بٹالوی جائنٹ سیکرٹری بنائے گئے۔ علامہ اقبال نے 1937ء کے انتخابات کیلئےپنجاب میں مسلم لیگ کا مجلس احرار اور اتحاد ملت سے اتحادکرایا۔ صرف چند ماہ کی بھاگ دوڑ کے بعد مسلم لیگ نے پنجاب میں سات امیدوار کھڑے کئے جن میں سے دو جیتے۔ مسلم لیگ کا حمایت یافتہ ایک آزاد امیدوار سیف الدین کچلو بھی کامیا ب ہوا۔ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر جیت کر راجہ غضنفر علی خان یونینسٹ پارٹی میں چلے گئے اور پیچھے صرف ملک برکت علی رہ گئے۔ بیماری سے ہلکان علامہ اقبال کو مسلم لیگ کی تنظیم سازی کیلئے فنڈز کی ضرورت تھی۔ عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہی کہ علامہ اقبال ہمیں پنجاب کے بڑے بڑے جاگیرداروں کے پاس فنڈز کیلئےبھیجتے وہ یونینسٹ پارٹی کے خوف سے فنڈز نہیں دیتے تھےلیکن علامہ اقبال کی وجہ سے عام مسلمانوں میں مسلم لیگ کو بہت پذیرائی ملی اور اسی لئے 23مارچ 1940ء کا اجلاس لاہور میں ہوا لیکن اس وقت اقبال دنیا میں نہیں تھے۔ علامہ اقبال کی یہ محنت 1946ء کے الیکشن میں سامنے آئی جب مسلم لیگ پنجاب میں اکثریتی پارٹی بن گئی۔ غور کیجئے! صرف کوئی قائد اعظم ہی یہ سوچ سکتاتھا کہ علامہ اقبال جیسا کوئی شاعر پنجاب میں مسلم لیگ کو کھڑا کرسکتا ہے۔ آج کی مسلم لیگ کے تمام گروپوں سمیت ریاست پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم کی سوچ سے کوسوں دور جا چکی ہے اور کچھ دانشور قوم کو متحد کرنے کی بجائے اقبال اور قائداعظم کے اختلافات تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ احمد سعید کی کتاب ’’اقبال اور قائداعظم‘‘میں ایک خوبصورت واقعہ درج ہے۔ 1940ء میں قائد اعظم نے لاہور میں یوم اقبال کی ایک تقریب میں کہا کہ اگر مجھے سلطنت مل جائے اور کہا جائے کہ اب سلطنت اور اقبال میں سے کسی ایک کو منتخب کرو تو میں اقبال کو منتخب کروں گا۔ آج ہمیں دھوتی اور بنیان والااقبال تلاش کرنا ہے جو قائد اعظم کا ہیرو تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ