آج تو منظر ہی بدل چکا ہے، تضادستان کے اندھیرے یکایک چھٹ گئے ہیں، مایوسی اُڑن چھو ہو گئی ہے ،ہر طرف سرخ و سبز جھنڈیاں لگنے لگی ہیں ،کیلے کے پتوں سے آرائشی دروازے بنائے جا رہے ہیں۔ قمقمے اور بلب تیارہیں تاکہ رات کو چراغاں ہو سکے۔ گلیوں، بازاروں اور حتیٰ کہ دیہات تک میں جشن کا سا سماں ہے۔ موسیقار، گلوکار اور ڈھولچی اپنے ساز تیار کر چکے، فضا میں موسیقیت پھیلنے ہی والی ہے لمحوں میں تضادستان کی قسمت بدل چکی بس رانجھے کی ’’ہاں‘‘ کی دیر تھی سب کچھ یک لخت بدلنے لگا ہے۔ بلھے شاہ نے غالباًاسی موقع کیلئےکہا تھا ؎
آو سیؤ رل دیو نی ودھائی/میں ورپایا رانجھا ماہی
اج تاںروزمبارک چڑھیا/ رانجھاساڈے ویہڑے وڑیا
تضادستان کی وارث شاہی ’’ہیر کہانی‘‘ میں خرابی صرف اتنی تھی کہ رانجھا راضی نہیں تھا جونہی رانجھے کا دل نرم ہوا ہے نہ کوئی ایکس رہا ہے نہ کوئی ڈرٹی ہیری اور نہ کوئی ریٹائرڈ جرنیل،سب وِیر بن گئے ہیں۔کیا خوبصورت رت آگئی ہے، انصافی زمانہ پھرسے آنے کو ہے جیلوں کے دروازے ٹوٹنے کو ہیں، ہر سو طیور چہکنے لگے ہیں، بلبلیں نغمہ خواں ہیں، کوئلیں اور طوطے اپنی بولیاں بولنے لگے ہیں مور مائل بہ رقص ہیں اور تو اور شجر بھی خوشی سے لہلہا رہے ہیں۔ زمین و آسمان کی خوشی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف پانی برس رہا ہے تو دوسری طرف قوس قزح نے عالم کو خیرہ کر رکھا ہے، زمانے نے یکایک کروٹ لی ہے بقول بلھے شاہ ؎
الٹے ہور زمانے آئے /تاں میں بھیت سجن دے پائے
بلھیا!حکم حضوروں آیا/تسِ نوں کون ہٹائے
’’تازہ خبر آئی اے /خضر ساڈا بھائی اے ‘‘ کے مصداق سب کچھ بدلنے والا ہے ’’بالکل سچی ‘‘ خبریں دینے والے بیرون ملک بیٹھے یوٹیوبرز نے خبر دی ہے کہ ایک طرف تو رانجھے کیلئے گارڈ آف آنر کی تیاری کی جا رہی ہے تو دوسری طرف پارٹی کی جانب سے ایک بڑی محفل موسیقی ترتیب دی جا رہی ہے جس میں وہ سب گلوکار مدعو کئے جائیں گے جو تبدیلی کی خواہش میں خان کا ساتھ دیتے رہے تھے مگر جب مشکل وقت آیا تو وہ طاقت کی چوکھٹ پر دوزانو ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ پارٹی نے ان تمام گلوکاروں کیلئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں جشن تبدیلی میں مدعو کرنے کا عظیم فیصلہ کر لیا ہے۔
انتہائی اندرونی ذرائع بتا رہے ہیں کہ پہلے انقلابی قدم کے طور پر سیاسی اصطلاحات کے نئے ترجمے اور تشریح کیلئے ایک اعلیٰ اختیار اتی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو تین روز کی قلیل مدت میں اپنا کام مکمل کرے گی کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ ابتدائی فیصلے میں ہی طے کر دے کہ آئندہ سے ملک میں کسی کو آرمی چیف کے خطاب سے پکارنے پر مکمل پابندی ہو گی، ہر خاص و عام کیلئے لازم ہو گا کہ وہ عزت و احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی روایات کے مطابق اس عہدے کو صرف اور صرف’’ سپہ سالار‘‘ کہہ کر پکارے اور لکھے وگرنہ آنے والی حکومت سخت کارروائی کرے گی بالکل اسی طرح جیسے جنرل باجوہ کا کارٹون ایک کتاب کے ٹائٹل پر چھاپنے کو ’’ناہنجار صحافی ‘‘ کی گستاخی جانتے ہوئے اسے ہٹانے پر مجبور کیا گیا تھا، وہی سلسلہ پھرسے شروع کیا جائے گا۔کمیٹی کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ ’’میر جعفر ‘‘ اور ’’میر صادق‘‘ کی حب الوطنی ، ان کے اعلیٰ کردار اور جراتمندی کو واضح طور پر بیان کرے تاکہ ماضی میں ان کے سیاسی استعمال سے جو غلط فہمی پھیلی تھی اس کا خاتمہ ہوسکے ،کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ ’’نیوٹرل‘‘ کے معانی فوراً تبدیل کرے نیوٹرل بمعنی جانور کو اب متروک قرار دیکر لغت سے نکال دینا چاہئے واضح کر دینا چاہئے کہ نیوٹرل ہی تو اصل لوگ ہوتے ہیں ان کی قدرو قیمت پہچاننی چاہئے کمیٹی ایکس ’’X‘‘اور ڈرٹی ہیری (DIRTY HARY) کی مثبت تشریح پر بھی غوروخوض کے بعد اس مسئلے کا حل تجویز کرے گی۔ امکان یہی ہے کہ ایکس کا مطلب ’’عقلمند‘‘ اور ڈرٹی ہیری کا مطلب ’’بہادر‘‘ ہو گا’’لفافہ صحافیوں‘‘ کے بارے میں فی الحال تشریح کا امکان نہیں کیونکہ تبدیلی کے فوراً بعد پھر سے طاقت خان کے ساتھ مل کر ان کی لفظی اور سیاسی ٹھکائی جاری رکھی جائے گی ۔
انتہائی مستند، معتبر، واحد سچے، آزادی کے مجاہد اور جمہوریت کے متوالے، باہر بیٹھے یو ٹیوبرز نے مستقبل کا نقشہ بنا لیاہے اور وہ یوں ہے کہ انصافی بھائی اور عسکری بھائی پھر سے مل کر حکومت کریں گے دوبارہ ایک صفحے پر آکر ’’احتساب‘‘ جاری رکھیں گے جونہی یہ ’’محب الوطن‘‘ مخلوط حکومت کام شروع کرے گی سارے دلدر دور ہو جائیں گے مہنگائی کو سرےسے مکا دیا جائے گا مہنگی بجلی کا ایسا حل نکالا جائے گا کہ دنیا ششدر رہ جائے گی جادو اور روحانی طاقت اور کس دن کام آئے گی ۔اوورسیز اورعسکری بھائی تضادستان سےاپنے گلے شکوے دور کر دیں گے راوی چین ہی چین لکھےگا، دودھ اور شہد کی نہریں دوبارہ بہنے لگیں گی ڈالروں اور یوروکی اس قدر بارش ہو گی کہ تضادستان دنیا کا امیر ترین ملک بن جائے گا یہاں اس قدر ترقی ہو گی کہ پہلے کی طرح بیرون ملک سے آکر لوگ یہاں نوکری کیا کریں گے، تعمیرات کا سلسلہ پھرسے شروع ہو گا 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ جھاڑ جھنکاڑ کے بعد پھر سے نکال کر اس پر عملدرآمد کیا جائے گا ۔لفافہ صحافی سوال کریں گے کہ وہ تحفظ آئین، جمہوری جدوجہد، عدلیہ کی آزادی جیسےمطالبات اور ان پر عملدرآمد کا کیا ہوگا تو انہیں یہ مسکت جواب دیا جائیگا کہ یہ سب مطالبات ہمارے اقتدار میں آنے کے بعد سے بے معنیٰ ہو چکے ہیں ایسے فضول سوال کرکے ملک کو ترقی کی پٹڑی سے اتارنے کی کوشش نہ کی جائے۔ تضادستان میں رہنے والے سب لوگوں کی باجی علیمہ خان نے آج جیل خان کی طرف سے جنرل عاصم منیر کے نام ایک کھلا پیغام جاری کیا ہے جسے زیتون کی شاخ لہرانے یعنی امن کی سبز جھنڈی باہر نکالنے سے تشبیہ دی گئی ہے، باجی علیمہ خان نے جنرل صاحب کو کہا ہے کہ آپ نیوٹرل ہو جائیں یہ بیان بھی اسی تبدیلی کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز عمر ایوب خان کے جیل سے باہر آکر دیئے گئے بیان سے ہوا تھا بس اب پلک جھپکنے کی دیر ہے کہ ’’دیو‘‘ اتریں گے نون اور پیپلز پارٹی کو اٹھا کر حکومت سے باہر لے جائیں گے اور انصافیوں کو اقتدار کے تخت پر بٹھا کر یہ جن دست بستہ ان کے پیچھے کھڑے ہو جائیں گے۔
کئی تشکیک پسند اور ’’شک‘‘ کے عادی مجرم ابھی تک کنفیوژڈ ہیں کہ یہ انقلاب کیسے آگیا؟دل کیسے بدل گئے؟راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ دشمنیاں محبتوں میں بدل گئیں دوریاں قربتوں کی جگہ لے گئیں پہلے تو کوئی جیل خان کو اسیری سے نکالنے پر تیار نہ تھا اور نہ ہی کوئی مصالحت کیلئے عسکری بھائی کی ناراضی مول لینے کو تیار تھا۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ بندگلی سے جیل خان کیسے نکل آیا ہے یکایک یہ سب کچھ بدل کیوں رہا ہے نونی اسکا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں فی الحال بڑا مسئلہ معیشت کا ہے انصافی جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ ایک ’’خواب‘‘ ہے دراصل یہ سارا خواب انہوں نے سوتے ہوئے دیکھا ہے آنکھوں کو ملکر انہیں اچھی طرح کھولیں پھر دیکھیں حقائق بالکل مختلف ہیں یہ لوگ گاڑی مس کر چکے اب ان کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بھاگ کر اسی ٹرین کو پکڑ لیں جس کا ڈرائیور نونی ہے نہ کوئی نئی ٹرین آنی ہے اور نہ اس ٹرین نے کہیں راستے میں رکنا ہے، انصافی کچھ دیر صبر کریں سب واضح ہو جائے گا مقتدرہ کچی گولیاں نہیں کھیلتی نہ ’’X‘‘ نے بدلنا ہے نہ ڈرٹی ہیری بدلے گا نہ جنرل صاحب مہربان ہونگے بالآخر انصافیوں کو ہی سسٹم ماننا پڑیگا اسی سے شاید کوئی راستہ نکل آئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ