اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل کی جانب سے قومی احتساب بیورو(نیب)ترامیم کیس براہ راست دکھانے کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی نے 4-1کے تناسب سے کیس کی سماعت براہ راست دکھانے کی استدعا مسترد کی۔جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔جبکہ دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اورسابق وزیر اعظم عمران خان کو بات کرنے کی اجازت دی گئی توانہوں نے بتایا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اورانہیں اپنے وکلاء سے ملاقات کرنے میں بھی مشکلات کاسامنا ہے،انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں،ایک پارٹی کونشانہ بنایا جارہاہے، نیب ترامیم کیس قوم کے لئے انہتائی اہمیت کاحامل ہے۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک چیز جو مجھے اکثریتی اوراقلیتی فیصلے میں نظرنہیں آئی کہ قانون سازی کون کرسکتا ہے، اگر فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں کرپشن نہیں آتی توکیا وفاق اس حوالہ سے قانون سازی نہیںکرسکتا؟ وقافی حکومت کے وکیل کا توبڑاآسان کام ہے کہ آپ کہیںاقلیتی فیصلے کواکثریتی فیصلہ بنادو۔ مسلح افواج کے عہدیدارآئینی عہدیدارنہیں جبکہ ججز آئینی عہدیدار ہیں۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں ججز کونیب قانون سے استثنیٰ حاصل ہے ،ججز کوئی پبلک آفس ہولڈنہیں کرتے اورسروس آف پاکستان میں نہیں۔ وفاق صوبوں کے معاملات کے حوالہ سے قانون سازی نہیں کرسکتا۔
جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا پرویز مشرف کیس میں فیصلہ ہے کہ جنرلز کواستثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ آئین کاآرٹیکل 209جج کو مس کنڈکٹ پر فارغ کرنے سے متعلق ہے اگر جج نے کرپشن کی ہے تواس کو کیسے نیب قانون سے استثنیٰ حاصل ہے، کوئی مقدس گائے نہیں اورکوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ نیب کیسز میں ریمانڈ کی مدت 40روز کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، جس طرح ریمانڈ کی مدت بڑھائی گئی ہے کیا یہ کسی شخص کے لئے خاص طور پر کیا گیا ہے۔وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کر لئے جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے مخدوم علی خان کے دلائل کی حمایت کردی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ تاریخ کااعلان ججز کی دستیابی پر کیا جائے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس امین الدین خان،
جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قراردینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف دائر نظرثانی درخوستوںپر سماعت کی۔مدعا علیہ نمبرسابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک اڈیالہ جیل راولپنڈی سے عدالت میں پیش کیا گیا۔جبکہ دوران سماعت اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان،ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان،ایڈیشل اٹارنی ملک جاوید اقبال وینس، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالداسحاق،ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل، وفاق کے وکیل مخدوم علی خان، فاروق حمید نائیک پیش ہوئے۔ جبکہ دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما سینیٹرشبلی فراز،سینیٹر سید علی ظفر، رکن قومی اسمبلی انجینئر علی محمدخان،سینیٹر سیمی ایزدی،اعظم خان سواتی، فیصل جاوید خان اوردیگر پی ٹی آئی رہنمابھی موجود تھے۔سماعت کے آغازپر چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ وہ دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے۔
اس پر مخدوم علی خان کا کہناتھاکہ وہ ایک گھنٹہ لیں گے۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے روسٹرم پرآکراستدعا کی کہ انہوںنے کیس کی کاروائی براہ راست دکھانے کے حوالہ سے درخواست دائر کی ہے۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تکنیکی معاملہ ہے اورعوامی مفاد کامعاملہ نہیں، آخری سماعت پر براہ راست کوریج نہیں ہوئی تھی، براہ راست کاروائی دکھانے کے حوالہ سے آخری سماعت پر کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی تھی، کسی عام آدمی نے کیس میں درخواست دائر نہیں کی، مہربانی کرکے بیٹھ جائیں۔ اس پرجسٹس اطہر من اللہ کا کہنا کہ کیس کی کاروائی براہ راست دکھائی جائے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کاکہناتھا کہ میری درخواست پر فیصلہ کیا جائے،598کیسز نیب سے دیگر عدالتوں میں منتقل ہوئے جس میں 150ارب روپے کی کرپشن کا معاملہ ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مہربانی کرکے کیس کے حوالہ سے دلائل نہ دیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا ایڈووکیٹ جنرل کے پی کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھا کہ وہ صرف کیس کی براہ راست کاروائی دکھانے کے معاملہ پر توجہ مرکوز رکھیں اوردیگر مسائل پر بات نہ کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے اس کی کاروائی براہ راست دکھانی چاہیئے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ سپریم کورٹ کو یہ تاثر دینا چاہیئے کہ وہ منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور آزاد انہ عدالت ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے اعلان کیا کہ ججز واپس جارہے ہیں اورمعاملہ پر مشاورت کے بعد واپس آتے ہیں۔تقریباً 1گھنٹہ مشاورت کے بعد ججز جب کمرہ عدالت میں واپس آئے تو چیف جسٹس کا کہناتھا سب لوگوں کو انتظارکرنا پڑا اس پر ہم معذرت خواہ ہیں، ہم جلد بازی میںکوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے سب سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیااور 4-1کے تناسب سے کاروائی براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہناتھا کہ مدعا علیہ کو عدالت کاروائی تک رسائی برقراررہے گی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ جو لوگ آج ایک طرف ہیں کل وہ دوسری طرف چلے جاتے ہیں، میں ٹی وی، سوشل میڈیا اوراخبار بھی دیکھتا ہوں،وزیر اعظم نے کالی بھیڑوں کی بات کی ہے، نیب قانون سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ کو متاثر کرتا ہے، اپنا جھگڑا پارلیمنٹ میں نمٹائیں۔اس پر اٹارنی جنرل نے پیش ہوکرکہا کہ وزیر اعظم نے حاضر سروس ججز کو کالی بھیڑیں نہیں کیا ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کو کالعدم قراردینے کے لئے فیصلے میں آئین کے کون سے آرٹیکلز کاحوالہ دیا گیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھاکہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھاکہ کرپشن کی حد مقررکربھی دی جائے تو پھر کیسز متعلقہ عدالتوں میں قانون کے مطابق جائیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ 5، 5 لاکھ روپے کے مقدمات بلوچستان ہائی کورٹ میں چلتے رہے، پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے، سپریم کورٹ تو صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے؟ اس پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ نیب ترامیم سے جرائم کی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے دریافت کیا کہ کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ کیا نیب سیکشن 9 اے 5 میں تبدیلی کر کے میاں نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ میاں نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی، نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت خیبرپختونخواہ اپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی؟ وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت ایسا کرسکتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی نے احتساب ایکٹ بنایا تھا تاہم جب انہیں احساس ہوا کہ اس سے نقصان ہورہا ہے توانہوں نے اسے کالعدم قراردے دیا۔ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وزراء پریس کانفرنسز کرکے نیب قانون کے خلاف بیانات دیتے رہے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ میں اس حد تک رکھنا چاہتا ہوںکہ پارلیمنٹ آئینی طور پر کرسکتی ہے کہ نہیں۔چیف جسٹس کا مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ کا توبڑاآسان کام ہے کہ آپ کہیںکہ اقلیتی فیصلے کواکثریتی فیصلہ بنادو۔مخدوم علی خانکاکہناتھاکہ پارلیمنٹ کو رقم کی مقدارکم یازیادہ کرنے کااختیار حاصل ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ ہم نے رقم کاتعین کردیا ہے اور پارلیمنٹ اس کو زیادہ نہیں کرسکتی۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیا کوئی مثال دے سکتے ہیں کہ کوئی رکن پارلیمنٹ پرنسپل اکاوئنٹس آفیسر ہو ،اگر کوئی کرپشن ہوتی ہے تویہ سیکرٹری کے زریعہ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو مجھے اکثریتی اوراقلیتی فیصلے میں نظرنہیں آئی کہ قانون سازی کون کرسکتا ہے، اگر فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں کرپشن نہیں آتی توکیا وفاق اس حوالہ سے قانون سازی نہیںکرسکتا؟چیف جسٹس کاکہناتھاکہ نیب قانون کرپشن کے حوالہ سے اس کاقانون میں کہاں ذکرہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ وفاق صوبوں کے معاملات کے حوالہ سے قانون سازی نہیںکرسکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے اقلیتی فیصلے میں لکھا ہے کہ ججز اور جنرلز بھی نیب قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں کیا اس نقطہ کی حمایت کرتے ہیں یامخالفت کرتے ہیں۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہناتھاکہ میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا پرویز مشرف کیس میں فیصلہ ہے کہ جنرلز کواستثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کاکہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 209جج کو مس کنڈکٹ پر فارغ کرنے سے متعلق ہے اگر جج نے کرپشن کی ہے تواس کو کیسے نیب قانون سے استثنیٰ حاصل ہے، کوئی مقدس گائے نہیں اورکوئی قانون سے بالاتر نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ججز کونیب قانون سے استثنیٰ حاصل ہے ،ججز کوئی پبلک آفس ہولڈرنہیںکرتے اورسروس آف پاکستان میں نہیں۔ مخدوم علی خان کا کہناتھاکہ نیب قانون میں ترامیم2022میں ہوئی تھیں جنہیں چیلنج کیا گیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھاکہ کیاآرٹیکل14کے مطابق نیب نے ارکان پارلیمنٹ کی تکریم کاخیال رکھا ،کیا ججز اورجنرلز کو کرپشن پر بھی قابل احتساب ٹھرایا گیا ہے، یا توسارا قانون کالعدم قراردیں، مسلح افواج کے اہلکاروں کو کیسے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے کیا یہ امتیازی سلوک نہیں کہ صرف ارکان پارلیمنٹ کوقابل احتساب ٹھرایا جائے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مسلح افواج کے عہدیدارآئینی عہدیدارنہیں جبکہ ججز آئینی عہدیدار ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ ارکان پارلیمنٹ آئین کے مطابق جو کرنا ہے کریں۔مخدوم علی خان کا کہناتھا کہ 24کروڑلوگوں کے منتخب نمائندوں نے قانون پاس کیاہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مخدوم علی خان سے استفسارکیاکہ کیاوہ حال ہی میں جاری نیب صدارتی آرڈیننس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کا دفاع بہت مشکل ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ریمانڈ کی مدت بڑھائی گئی ہے یہ میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے،جس طرح ریمانڈ کی مدت بڑھائی گئی ہے کیا یہ کسی شخص کے لئے خاص طور پر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کسی فرد واحد نے پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو انڈرمائن کیا ہے۔
مخدوم علی خان کاکہناتھاکہ 2022میں ہونے والی پہلی ترمیم میں نیب کیسز میں جسمانی ریمانڈ کی مدت 90روز سے کم کرکے 14روز کی گئی تھی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ جو قانون سازی آئین کے آرٹیکل 89کے مطابق نہ ہووہ اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ اس آرڈیننس کے بعد ہوسکتا ہے کہ مدعا علیہ نمبر1اپنا نقطہ نظر تبدیل کرلیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ نیب کیسز میں ریمانڈ کی مدت 40روز کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ اس موقع پر مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کر لئے۔ اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر کہا کہ وہ مخدوم علی خان کے دلائل کی حمایت کرتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے مثال دی کہ وزیر اعظم نے کالی بھیڑوں کا ذکر کیا ہے میں اچھا گمان رکھنے ہوئے ہم اس کو چھوٹی کالی مکھی تصور کرسکتے ہیں۔
اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اورایک درخواست گزار کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھاکہ سینیٹ اجلاس چل رہا تھا اور پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے نیب ترمیم کے حوالہ سے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا۔چیف جسٹس کا فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ صدارتی آرڈیننس پر کس نے دستخط کئے ہم نام لیکر شرمندہ نہیں کرنا چاہتے۔ فاروق نائیک کاکہناتھا کہ انہیں دلائل کے لئے ایک گھنٹہ چاہیئے ہو گا۔ فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ میرے پیچھے آئی بی والے لگے ہیں اوردومرتبہ مجھے جہاز سے آف لوڈ کیا گیا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ ایسی باتیں نہ کریں ہوسکتا ہے آپ کے خلاف سینیٹ میں تقریریں ہوجائیں۔
اس موقع پر عدالت کی جانب سے عمران خان کے لئے مقرر کئے گئے سینئر وکیل خواجہ حارث احمد کاکہنا تھا کہ وہ تین گھنٹے دلائل دیں اور بتائیں گے کہ ان ترامیم کابنیادی انسانی حقوق سے کیاتعلق ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا مسٹر خان آپ مجھے سن سکتے ہیں، آپ دلائل دیں گے یا خواجہ حارث کے دلائل پر ہی انحصار کریں گے کیونکہ تکنیکی مسئلہ ہے۔ عمران خان کاکہنا تھاکہ وہ دلائل دینے کے لئے آدھا گھنٹہ لیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ8 فروری کو ملک میں سب سے بڑا ڈاکا ڈالہ گیا۔اس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ بات اس وقت نہ کریں، ہم ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری دو درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں وہ آپ کے پاس موجو د ہیں۔چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کیا کہ اس میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ عمران خان نے بتایا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ حامد خان ایک سینیئر وکیل ہیں انہوں نے ملک سے باہر جانا تھا تو ان کو ان کی مرضی کی ایک مقدمے میں تاریخ دی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلہ میں خواجہ حارث سمیت 6وکیل عمران خان کی جانب سے پیش ہوئے، اب ہم نے خواجہ حارث کو وکیل کیا ہے انہوں نے فیس لینے سے انکار کیا ہے۔ عمران خان کاکہناتھا کہ خواجہ حارث سے ملنا چاہتا ہوں، یہ ملک کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان سے خواجہ حارث جب ملنا چاہیں مل سکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کیا جائے، 50 لوگ ساتھ لے کر نہ جائیں ایک دو وکیل جب چاہیں عمران خان سے مل سکتے ہیں۔چیف جسٹس کا عمران خان کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھاکہ ہم وکیل سے ملنے کاآرڈر آپ کے سامنے کریں گے فکر نہ کریں۔ عمران خان کاکہنا تھا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوہی ہیں، یک پارٹی کونشانہ بنایا جارہا ہے۔
چیف جسٹس کاعمران خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چلیں وہ کسی اوردن بات کیجیئے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو مواد بھی فراہم کیا جائے گا اور وکلا سے ملاقات بھی ہوگی، اگر آپ قانونی ٹیم کی خدمات لیں گے تو پھر آپ کو نہیں سنا جائے گا۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل فوری طور پرعمران خان کی خواجہ حارث اور ان کی ٹیم سے ملاقات کروائیں اوراگر کوئی مسئلہ ہوتوخواجہ حارث ، اٹارنی جنرل سے رابطہ کریں اوراس کاثبوت رکھیں ۔ جسٹس اطہر من اللہ کاخوشگوار موڈ میں اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ اٹارنی جنرل اس بات کو یقینی بنائیں کہ خواجہ حارث کو قید نہ کیا جائے۔ عدالت نے حکم دیا کہ خواجہ حارث ،عمران خان کو کیس کاریکارڈ فراہم کریں گے ۔ بعد ازاں عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاریخ کا اعلان ججز کی دستیابی کے شیڈول کو دیکھ کر کریں گے۔