کئی اہلِ دل ملک کے حالات سے اس قدر دل گرفتہ ہو چکے ہیں کہ انہیں مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، میری عاجزانہ رائے اس سے بالکل مختلف ہے۔ مجھے پاکستان کے 24کروڑ عوام کے جمہوری شعور اور آگے بڑھنے کے جذبے پر مکمل یقین و اعتماد ہے۔ میرے خیال میں ہم سے ایک غلطی بار بار ہو رہی ہے جس کی وجہ سے حالات نہیں بدلتے اور اہلِ دل کو مزید مایوسی ہوتی ہے ۔میرے خیال میں ہماری قومی اور اجتماعی غلطی یہ ہے کہ ہم کبھی کسی جرنیل کو، کبھی کسی جج کواور کبھی کسی سیاستدان کو مسیحا بنا لیتے ہیں اور پھر اس مسیحا سے توقع لگا لیتے ہیں کہ وہ ملک کا نظام بدل دے بلکہ انقلاب لے آئے لیکن آج تک ہم نے جتنے بھی لوگوں کو مسیحا کا درجہ دیا ہےوہ سارے کے سارے ناکام ہوئے یا پھر ناکام کردیئے گئے، یوں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے دکھوں کا علاج کسی مسیحاکے پاس نہیں بلکہ نظام میں ہے مگر ہم مسیحا کے دیوانے ہیں ،نظام کو عزت دینے اور اس کوبہتر کرنے پر نہ زور دیتے ہیں اور نہ توجہ۔
امریکہ کی تاریخ دیکھ لیں، وہاں پچھلے سو سال سے کوئی مسیحا نہیں آیا جونیئر بش جیسے عام سمجھ بوجھ کے لوگ بھی صدر بن کر ملک کو اچھی طرح چلا لیتے ہیں کیونکہ امریکہ کو مسیحا نہیں نظام چلاتا ہے۔ برطانیہ میں چرچل کے بعد کون سا بڑا سیاست دان آیا ہے جو مسیحا یا ہیرو کا درجہ رکھتا ہو لیکن ان کا نظام بہترین ہے اور آئے دن اس میں مزید نئی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیںجن سے عوامی فلاح کا راستہ اورزیادہ ہموار ہوتا ہے۔ فرانس میں ڈیگال اور شیراک کے بعد کون سا ہیرو یا مدبر اقتدا رمیں آیا ہے لیکن ان کا نظام بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے اور تو اور بھارت میں جواہر لعل نہرو کے بعد کون سا ویژنری یا مسیحا آیا جو انقلاب لایا ہو۔ من موہن سنگھ اور مودی نے معاشی نظام میں تبدیلیاں کرکے ملک کو چلایا ہے۔ ان مثالوں سے سبق ملتا ہے کہ ہم مسیحا کے انتظار کو چھوڑیں اور اپنے نظام کو بہتر کرنے کیلئے اکٹھے ہوں ۔فرض کریں کرپشن کا مسئلہ ہے تو قوم اتفاق کرے کہ کن قوانین سے اسے روکا جاسکتا ہے؟ پریشر گروپس،صحافی، شہری اور اہلِ سیاست طے کریں کہ عوام کو بہتر سہولتیں کیسے دی جاسکتی ہیں اور پھر اس حوالے سے قانون سازی تجویز کی جائے، دنیا میں بہتری ایسے ہی آئی ہے۔ اوپر کے ترقی یافتہ ممالک میں نہ کوئی انقلاب آیا ہے نہ کوئی مسیحا۔ہاں ان ملکوں کے نظام میں بتدریج ایسی تبدیلیاں لائی گئی ہیں کہ ان ملکوں کا فوکس ہی بدل گیا ہے۔
یاد کریں ہم نے عدلیہ میں سے ایک مسیحا افتخار چودھری کی شکل میں دیکھا تھا توقع تھی کہ افتخار چودھری بحال ہوں گے تو ریاست ماں جیسی ہو جائے گی مگر نتیجہ کیا نکلا کہ وہ جب عوامی دباؤ کے ذریعے بحال ہوئے تو انہوں نے عدلیہ میں اصلاحات کی بجائے ذاتی مفادات اور تعصب کا کھیل شروع کردیا ریاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی، منتخب صدر اور وزیراعظم کو بے بس کردیا، حد تو یہ ہے کہ ان سرکش می لارڈ نے ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج کر آئین کی نئے سرے سے تشریح شروع کردی۔ آج کل بھی ہمارا خیال ہے کہ کوئی جج سرکش گھوڑے پر بیٹھ کر سارے نظام کو لپیٹ دے، اپوزیشن کبھی عوامی انقلاب کی توقع لگاتی ہے اور کبھی بغاوت کے گرد سازشی تانا بانا بنتی ہے۔ یہ سارے راستے ہم آزما چکے ہیں ان کا نتیجہ ہمیشہ منفی نکلتا ہے، جمہوریت اور پارلیمانی نظام مزید کمزور ہو جاتا ہے، ہماری ساری جدوجہد آئین اور قانون کےگرد گھومنی چاہیے، آئین کی حکمرانی ہو اور پارلیمان کے ذریعے عوامی فلاح کو مدنظر رکھ کر دن رات قانون سازی کی جائے، عدلیہ آئین کی من مانی تشریح کی بجائے عوامی حقوق اور عوامی فلاح کو سامنے رکھے، کوئی جج مسیحا یا ہیرو بننے کی کوشش نہ کرے، اسی طرح ہم نے جرنیلوں سے بھی جھوٹی امیدیں وابستہ کیں ایوب خان کا مارشل لا لگا تو اکثریت کاخیال تھا اب انقلاب آ جائے گا مگر اس فوجی مسیحا نے شخصی اقتدار اور آمریت کا راستہ اپنایا مشرقی پاکستان کی محرومیوں کا مداوانہ کیا، قائداعظمؒ کی بہن فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا۔پھر جنرل ضیاءالحق اسلامی مسیحا بن کر سامنے آئے انہوں نے مذہبی انتہا پسندی اور سیاسی فاشیت کو فروغ دیا انہی کی وجہ سے مسئلہ افغانستان ہمارے گلے کا ڈھول بنا ہوا ہے ۔جنرل مشرف لبرل مسیحا بن کر سامنے آئے مگر ایک من پسند پارٹی بنا کر قانون و انصاف کا خون کرتے رہے۔ انقلابی جرنیل بھی مسیحا نہ بن سکے۔ دنیا میں اب یہ سوچ متروک ہو چکی ہے مگر ہم ابھی ایسے ہیرو کی تلاش میں ہیں جو آ کر سارے دلدر دور کر سکے مگر یہ ایسے ہی جیسے کسی ایسی دوا کی تلاش جس سے سب امراض کا علاج ہو سکے۔جو ظاہر ہے ناممکن ہے۔
سیاستدانوں کو دیکھ لیں ہم نے ہر ایک سے نظام میں تبدیلی کی توقعات لگائیں، کیا کسی نے نظام کو ذرہ برابر تبدیل کرنے کی کوشش کی؟بدقسمتی سے آج کے جتنے بڑے سیاسی نام ہیں کسی کا ویژن ہی نہیں کہ کس قانون میں کیا تبدیلی کرنی ہے جس سے عوام کا فائدہ ہو۔صرف دو بڑے لوگ نظام میں اہم تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوئے ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرے فوجی آمر جنرل مشرف۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لیبر لاز، امیگریشن لاز، قانون مزارعہ جات، قانون کرایہ داری، شناختی کارڈ کا اجرا، پاسپورٹ تک ہرشخص کی رسائی، طالب علموں کیلئے کرایہ میں رعایت، نئی یونیورسٹیوں کے قیام وغیرہ جیسے اہم اقدامات کیےلیکن بدقسمتی سے بھٹو حکومت کے تیسرے ستون بلدیاتی انتخابات کا کوئی موثراور قابل عمل منصوبہ نہ دے سکے اس کا کریڈٹ جنرل مشرف کو جاتا ہے جنہوں نے پہلی بار بااختیار بلدیاتی نظام بنایا اس میں بہت خرابیاں تھیں مگر نوآبادتی دور کے بعد وہ اس قانون سے بڑی تبدیلی لے آئےلیکن وقت کے ساتھ یہ نظام بھی ختم ہوگیا۔ نواز شریف اور بھٹو دونوں نے تاریخ میں پہلی اور دوسری بار خارجہ پالیسی کی تبدیلی کی کوشش کی۔ نواز شریف نے معیشت میں بھی اصلاحات کیں ۔ دوسری طرف آج کے سب سے پسندیدہ لیڈر عمران خان ہیلتھ کارڈ لے کر آئے لیکن خارجہ پالیسی اور عمومی عوامی قوانین میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لاسکے۔ گو ان کا نعرہ تو تبدیلی کا تھا مگر انہوں نے قوانین میں تبدیلی کی پہلے سے تیاری نہ کی تھی ۔ یہ ساری سیاسی کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنےکسی لیڈر کو اس وقت تک ہیرو یا مسیحا نہ سمجھیں جب تک وہ عوامی فلاح کیلئے نظام میں تبدیلیاں نہیں کرتا۔ میری ناقص رائے میں ہم عمومی باتوں پر ہی غور کرتے ہیں اور انہی پر بات کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم اپنے لیڈروں اور ہیروز سے کیوں نہیں پوچھتے کہ آپ ریونیو کے قوانین، پٹواری اورتھانیدار کی حکمرانی، تپتی گرمی میں لائنوں میں لگ کر بل ادا کرنے کا معاملہ حل کیوں نہیں کرتے۔ چاہےحکمران کوئی بھی ہو،جج ہو یا جرنیل اسے مسیحا کا روپ دھارنے کی بجائے نظام کے اندر رہ کر اس کی اصلاح کرنی چاہیے دنیا میں ایسے ہی تبدیلی آئی ہے یہاں بھی ایسے ہی آئے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ