اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ بننے کا مقابلہ آخر کب تک؟ : تحریر انصار عباسی


اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار ختم ہونا چاہیے۔ یہ ہے اصول کی بات جو ہم سب کرتے رہتے ہیں اور اکثر جو تجزیوں او رتبصروں میں کہی سنی جاتی ہے۔ آئین و قانون کے تحت بھی ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں ۔ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے پیچھے ہٹ جائے اور سیاست دانوں کوسیاست کرنے دے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ہماری جمہوریت لولی لنگڑی ہی رہی اور اس نے عوام کو کچھ نہ دیا۔ یہ سب سچ ہے لیکن اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو روکنے میں واقعی سنجیدہ ہیں بھی یا نہیں۔؟

تاریخی طور پر اس معاملہ کو سمجھا جائے تو یہ طاقت کی ایک ایسی لڑائی ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہا جبکہ سیاستدان اور سول حکومتیں اس لڑائی میں ہمیشہ ہارتی ہی رہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہائیبرڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہمارے سیاستدانوں نے ہمیشہ اقتدار میں آنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کو استعمال کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا حصول ہمارے سیاستدانوں کی سیاست کا ہمیشہ سے محوررہا۔ اگر ایک سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر ہوتا ہے تو اس کیلئے سیاست اور اقتدار کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مخالف سیاست دان کبھی کبھار سویلین بالادستی کی بات کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید کرتے ہیں لیکن بار بار دیکھا گیا کہ اصل کوشش ان مخالف سیاستدانوں کی بھی یہی ہوتی ہے اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر کو اسٹیبلشمنٹ سے دور کیا جائے اور خود کو اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر بنایا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے نیچے آنے کی ریس نے ہمارے سیاستدانوں کو سیاست کے اصل مقصداور عوامی خدمت سے دور کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں، کبھی ایک سیاسی جماعت کی حکومت تو کبھی دوسری سیاسی جماعت کی حکومت لیکن عوام کی خدمت، سروس ڈلیوری، پرفارمنس، بہترین گورننس اور سسٹمز کی مضبوطی، ایک کبھی نہ پورا ہونے والا خواب ہی رہا۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے، عمران خان نے بھی ساڑھے تین سال حکومت کی، پیپلزپارٹی کو بھی حکومتیں ملیں لیکن ایسا کیوں ہے کہ کوئی ایک بھی اسلام آباد جیسے شہر میں سی ڈی اے جیسے محکمے کو ٹھیک نہ کر سکا، پولیس کا نظام ہو، محکمہ مال، بجلی یا گیس کنکشن لینے کا معاملہ ہو یا بچے کی پیدائش یا کسی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ،ہر جگہ رشوت اور سفارش کا راج ہے۔ دوسرے شہروں، صوبوں اور دور دراز علاقوں میں سرکاری محکموں کا تو حال بہت ہی برا ہے۔ اب نظام کو درست کرنا ہے تاکہ عوام کو سہولتیں ملیں، ان کے سرکاری محکموں میں کام جائز طریقہ سے باآسانی ہوں، پولیس، کچہری انصاف دینے میں فعال ہوں، یہ وہ کام ہیں جس کیلئے پیسہ نہیں بلکہ نیت اور نظام بنانے کا عزم درکار ہے لیکن کوئی نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ عوام دھکے کھا رہے ہیں اور سیاست دانوں کے بار بار کے وعدوں سے تنگ ہیں۔ سیاستدان پرفارمنس اور اچھی حکمرانی کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ہی خواہاں رہتے ہیں۔ سیاستدانوں میں مقابلہ اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا بننے کا رہتا ہے۔ نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے اور اب جس طریقے سے وہ لندن سے واپس آئے اور چوتھی بار وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں اس کا سویلین سپریمیسی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں۔ عمران خان جیل میں ہیں اور جب سے ان کو نکالا گیا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراو کی پالیسی اختیارے کیے ہوئے ہیں لیکن ان کی ساری لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ہے۔ وہ ساستدانوں سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کر کے اپنے معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول بچارے کا تو گلہ ہی یہ ہے کہ اس میں کیا کمی ہے کہ اسے لاڈلہ نہیں بنایا جا رہا۔ باقی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ایک طرف رکھیں، پاکستان کی بڑی تین سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی یہ فیصلہ کیوں نہیں کرتیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان میں سے نہ کبھی کوئی سیاسی معاملہ پر بات کرے گا نہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار حاصل کرے گا اور نہ ہی لاڈلہ بنے گا۔ لیکن مجھے ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ