کون بنے گا عوام کا لاڈلا؟ : تحریر تنویر قیصر شاہد


پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی والے یکمشت اور یک زبان ہو کر الزاماتی دعوی کرتے ہیں کہ نون لیگ اور جناب نواز شریف کسی کے لاڈلے ہیں۔

یہ تاثر خود نون لیگ کی حرکات و سکنات کے کارن بھی ابھرا ہے ۔لندن میں کئی برس پر امن، آرام دِہ اور بے فکری کی زندگی گزارنے کے بعد نواز شریف وطن واپس آکر جس طرح مختلف مقاماتِ شوق سے بآسانی گزرے اور خاموش رہ کر بھی اپنی متعینہ منزل کی جانب کامیابی سے بڑھ رہے ہیں، اِس تاثر نے اِسے مزید گہرا کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو جیل میں جس طرح من پسند سہولتیں مل رہی ہیں، اِس بنیاد پر نون لیگ نے دہائی مچارکھی ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی کسی کی لاڈلی ہے ۔

9مئی کے سنگین الزامات کے باوجود پی ٹی آئی کے کسی کارکن اور لیڈر کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ملی ہے، اِس وجہ سے بھی نون لیگ شکوہ کناں ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور خود پی ٹی آئی ہنوز کسی کے لاڈلے ہیں ۔اِسی لیے تو شہباز شریف نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے: لاڈلا نواز شریف نہیں، کوئی اور ہے ۔

ماحول ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کسی کا لاڈلا بننے کی کوششیں بہرحال ختم نہیں ہوئیں ۔ اصل لاڈلا مگر وہی ہوگا جسے عوام 8فروری 2024کے دن اپنے بھاری ووٹوں سے نوازیں گے ۔

پیپلز پارٹی کے نوجوان اور پر جوش چیئرمین ، بلاول بھٹو زرداری، کا دعوی ہے کہ ملک بھر میں عوام کا لاڈلا میں ہی ہوں۔یہ دعوی تو ہر عوامی لیڈر کر سکتا ہے؛ چنانچہ بلاول بھٹو نے کوئی انوکھی بات کی ہے نہ کسی مبالغے سے کام لیا ہے ۔وہ واحد ایسی سیاسی جماعت کے قائد ہیں جنھوں نے، ملک بھر میں، اب تک سب سے زیادہ عوامی اجتماعات سے خطاب کیا ہے ۔ انھیں عوام کا رسپانس بھی ملا ہے ۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حالت پتلی ہے ،مگر اِس کے باوصف بلاول بھٹو کی مساعی دیدنی بھی ہیں اور قابلِ ستائش بھی۔ پیپلزپارٹی نے پچھلے پندرہ برس جس طرح خود کو سندھ کی حکومت کاری تک محدود رکھا ہے،اور اِس دوران پنجاب میں اس کی کوئی خدمت بھی نظر نہیں آتی۔

اِس بنیاد پر پیپلز پارٹی اور اِس کے نوجوان قائد کا پنجاب میں عوام کا لاڈلا بننے کا دعوی ایک خوش کن خواب سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ تا کیا فرسٹریشن میں بلاول بھٹو دعوی کررہے ہیں کہ نواز شریف چوتھی بار لاڈلا بننے کے لیے پاکستان آئے ہیں ؟

یہ کہنا زیادتی ہوگی کہ8فروری کا انتخابی سمندر پار کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو رکاوٹوں اورمصائب کا سامنا نہیں ہے ۔اِس سے بڑی رکاوٹ اور مصیبت اور کیا ہوگی کہ عام انتخابات سے تین ہفتے قبل سپریم کورٹ نے طرفینی وکلا کی زبردست آئینی و قانونی بحثوں کے بعد، نصف شب کے وقت، پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے سے انکار کر دیا ۔

اِس فیصلے سے یقینا ساری پی ٹی آئی ، جو اب بوجوہ وکلا کے حصار اور قبضے میں ہے، میں مایوسی اور بددلی پھیلی ۔بلیکے انتخابی نشان کے حصول کے لیے مقابلہ تو پھر بھی دلِ ناتواں نے خوب کیا۔ ناکامی کے باوجود مگر پی ٹی آئی کے سیکڑوں امیدوار 8فروری کے انتخابات میں آزاد حیثیت میں موجود رہ کر اپنے مخالفین کے سینوں پر مونگ دل رہے ہیں ۔

پی ٹی آئی کو امید ہے کہ وہ آزاد حیثیت میں بھی رہ کر اپنے بانی کے نام پر فتح حاصل کرے گی،اس لیے پی ٹی آئی بھی عوام کی لاڈلی ہونے کی دعویدار ہے؛ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ 13جنوری کی رات جب پی ٹی آئی کو عدالتِ عظمی کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان دینے سے انکار کر دیا گیا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین، بیرسٹر گوہر خان، نے گفتگو کرتے ہوئے دعوی کیا: سپریم کورٹ کی طرف سے ہمیں بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا گیا ۔ کوئی بات نہیں ۔ پاکستان کے 12کروڑ ووٹوں میں10کروڑ ووٹ ہمارے ہیں۔

بیرسٹر گوہر خان کا دعوی پیشِ نگاہ رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ8فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی عوام کی لاڈلی بن کر ابھرے گی ۔

اِس خواب کی تعبیر مگر محال است و جنوں است!لاڈلا بننے کے دعوے اور امید میں نون لیگ کسی سے پیچھے کیوں رہتی ؟ اس کا بھی دعوی اور دھما ہے کہ8فروری کے عام انتخابات میں عوام اسے ہی اپنا لاڈلا بنائے گی ۔ نون لیگ اِس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ان بہت سے ترقیاتی کاموں کی ایک طویل فہرست سامنے لاتی ہے جو جناب نواز شریف کی حکومتوں اور قیادت میں مادی شکل میں سامنے لائے گئے۔

نون لیگ کے یہ دعوے بے بنیاد نہیں ہیں ۔ تقابلی جائزے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نواز شریف صاحب کی قیادت اور حکومتوں میں ، دوسروں کے مقابل، سب سے زیادہ عوامی و قومی خدمت کے پروجیکٹس سامنے لائے گئے ۔

اِن خدمات کے پس منظر میں نون لیگ عوام سے ایک بار پھر درخواست گزار ہے کہ ملک وقوم کو امن، ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہے تو 8فروری کے دن اسے لاڈلا بنایا جائے ۔

اب عوام کی مرضی ہے کہ وہ نون لیگ کو اپنا لاڈلا بنانے میں کسقدر محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتی ہے ۔ عوام مگر جب شہباز شریف کی 16ماہانہ حکومت کی جانب ایک نگاہ مارتی ہے تو عوام کا نون لیگ کے خلاف غصہ دو چند ہو جاتا ہے ۔

شہباز شریف کے 16 اقتداری مہینے عوام پر بھاری گزرے ۔ مگر وہ ، شریف خاندان اور نون لیگ اقتدار کے مزے اڑاتے رہے۔

اب شہباز شریف بذاتِ خود عوام سے ووٹ مانگتے ہیں تو کس بنیاد پر ؟ یہ کیا مذاق ہے کہ پہلے آپ اقتدار میں رہنے کے لیے مہنگائی بڑھاتے رہے بے روز گاری بڑھتی رہی اور پھر اسی عوام کے سامنے ووٹ کے نام پر پھر حکومت بنانے کے لیے جھولی پھیلا دیں؟ واقعہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے اپنے16مہینوں کے دوران نون لیگ کی مقبولیت کا گراف نیچے گرایا۔

اب اگر8فروری کے دن نون لیگ کو کوئی گزند پہنچتاہے تو اِس کی مرکزی ذمے داری شہباز شریف پر عائد ہوگی ۔ پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت نون لیگ کے کئی وفاداروں اور جان نثاروں کو جس بے رخی سے محروم کیا گیا ہے۔

اِس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے ۔ اور شاید نون لیگ کو عوام کا لاڈلا بننے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔مثال کے طور پر دانیال عزیز، طلال چوہدری، احسان افضل،عائشہ رجب،جعفر اقبال ، سعود مجید، دیوان عاشق بخاری ، ندیم خادم، سردار مہتاب عباسی وغیرہ کو جس طرح نون لیگی قیادت نے ٹکٹوں سے محروم کرکے ان کی پارٹی خدمات اور وفاداریوں کی توہین کی ہے، اِس کے منفی اثرات سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے ؟

آخری بات یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی سیاستدان عوامی طاقت اور ووٹوں سے عوام کا لاڈلا بن بھی جاتا ہے تو اسے اِس کی سزا بھی ملتی ہے ۔ جناب زیڈ اے بھٹو ووٹ کی طاقت سے عوام کے لاڈلا بنے اور پھر تختہ دار تک پہنچا دیے گئے ۔

جناب نواز شریف ایک بار دو تہائی اکثریت لے کر عوام کے لاڈلا بنے اور پھر طاقتوروں کے ہاتھوں انھیں قیدو بند اور جلاوطنی کی جو سزائیں ملیں، وہ ہم سب کے سامنے ہیں ۔عوام کے لاڈلوں کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا!

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس