ایسے الیکشن کے مذاق کی کیا ضرورت ہے!! اس تماشے سے جمہوریت کا کیا تعلق!!
مجھے تو دکھ اس بات کا ہے کہ آئین اور جمہوریت کے نام پر قوم کے کوئی پچاس ارب روپے انتخابات کے نام پرضائع کیے جا رہے ہیں جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ جس طرح ہو رہا ہے اس کا تعلق نہ جمہوریت سے ہے نہ ہی آئین و قانون سے۔
میں 9 مئی کے حملوں کے خلاف ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو جو لوگ ان حملوں میں شریک تھے اُن کو ماسٹر مائنڈ سمیت سزا دی جائے، اُنہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہ دی جائے لیکن پوری کی پوری سیاسی جماعت کو ہی الیکشن سے مائنس کرنے کیلئے جو جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ نہ درست ہے اور نہ ہی اُس کا کوئی سیاسی، قانونی اور اخلاقی جواز۔
آزاد حیثیت میں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اگر انکے ساتھ یہی کرنا تھا تو پھر الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہ دیتے۔
ٹی وی چینلز نواز شریف، مریم نواز، بلاول وغیرہ کی تمام تقریریں لائیو دکھا رہے ہیں لیکن تحریک انصاف والوں کیلئے کارنر میٹنگ بھی ممکن نہیں۔ اگر پوری جماعت کو ہی ریاست مخالف سمجھا جا رہا ہے تو پھر ایسی جماعت پر پابندی کا قانونی راستہ نکالنا چاہیے تھا۔
آئین و قانون کی نظر میں تحریک انصاف ایک قانونی جماعت ہے جسے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی وجہ سے انتخابات میں بحیثیت سیاسی جماعت حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں لیکن اُن کے متعلق اب کہا جا رہا ہے کہ اُن میں سے جو الیکشن جیت بھی لیں گے اُن کی اکثریت کو ن لیگ، پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی میں دباؤ یا لالچ کے ذریعے شامل کروایا جائے گا۔
بڑے فخر سے کہا جا رہا ہے کہ زرداری صاحب تو اس کام میں ماسٹر ہیں، جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ماضی میں بھی یہ کام کیا اب بھی کریں گے، جبکہ ن لیگ بھی یہی امید لگائے بیٹھی ہے کہ ایسے آزاد اراکین اسمبلی اُنکےساتھ ہی ملیں گے۔ یعنی الیکشن جعلی، پھر جعلی الیکشن کے نتیجے میں آزاد اراکین کی خریدفروخت اور پھر اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت، یہ ہے ہماری جمہوریت۔
یہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ سب دھاندلی ہے لیکن اسکے باوجود سب الیکشن کا یہ ڈرامہ سجانے پر مصر ہیں۔ ایسی جمہوریت سے پاکستان کو کیا ملے گا، ایسے الیکشن نے اس ملک کو کیسا سیاسی استحکام دینا ہے۔
جو لوگ چور دروازے سے اور آزاد اراکین کی خرید و فروخت کی آس لگا کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں اُن سے بہتری کی کیا امید لگائی جا سکتی ہے۔
سیاسی انجینئرنگ اگر کل غلط تھی تو آج کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ ایسے ماحول میں جب سب کچھ ہی گڑ بڑ ہے انتخابات کی شفافیت اور آزادانہ ہونے کی بات ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔
آئین بروقت انتخابات پر زور دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صاف اور شفاف انتخابات کی بھی بات کرتا ہے۔ اگر انتخابات وقت پر نہ ہوں تو کہا جاتا ہے کہ آئین شکنی ہو گئی، لیکن اگر الیکشن کے نام پر ڈرامہ ہو تو اسے آئین شکنی کیوں نہیں کہا جاتا۔
خانہ پُری یا رسم ادا کرنے کی بات ہے تو پھر ایسے الیکشن ضرور کروا لیں ورنہ حقیقت میں جو ہو رہا ہے وہ آئین اور جموریت کے نام پر دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ