مصر کا انصاف! : تحریر سہیل وڑائچ


یہ کہانی مصر کی ہے، وہاں کے ماضی کے فرعونوں کی اور آج کے آمروں کی۔ اس کہانی کا تضادستان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ کہانی فرعونوں کے انصاف کی بھی ہے اور آج کے آمروں کے قوانین کی بھی۔ اس کہانی میں دنیا بھر کیلئےسبق پوشیدہ ہے۔

میں کل ہی مصر سے واپس آیا ہوں، قاہرہ کے پڑوس میں غزہ کے قبرستان میں نو بڑے بڑے اہرام ہیں جن میں اپنے اپنے وقت کے فراعین دفن ہیں۔ باپ،بیٹے اور پوتے کے اہرام بھی ساتھ ساتھ ہیں، کبھی جن کا کروفر سنبھالا نہ جاتا تھا،وہاں اب خاک اڑتی ہے۔ ٹوٹی ناک والا ابوالہول پہرےداری کیلئے آج بھی ایستادہ ہے مگر اہراموں سے 80فیصد ممیاں اور سامان اہل مغرب اٹھا کر اپنے اپنے ملکوں میں لے گئے، صرف 20فیصد سامان مصر کے عجائب گھروں میں نظر آتا ہے۔

آج سے 5 ہزار سال پہلے فراعین کے دور میں انصاف کو خدائی وصف سمجھا جاتا تھا، اس دنیا میں انصاف دینے کیلئے خدا کی نمائندگی خود فرعون کرتا تھا اور اپنے ججوں کاتعین بھی خود کرتا تھا۔ آج کی دنیا کا بھی سب سے بڑا منصف خدائے پاک ہے اصل انصاف دینے کا حق اور مرتبہ اسی کے پاس ہے، توقع یہ کی جاتی ہے کہ جج خدا کی طرف سے ودیعت کردہ عہدے پر بیٹھ کر حق و انصاف سے کام لیں گے مگر بدقسمتی سے دنیا بھر کے ججوں میں رعونت تو دیکھنے میں آتی ہے لیکن انکے انصاف کے پیمانے کے پلڑے برابر نظر نہیں آتے۔

سب سے مشہور فرعون رعمیسس دوئم ہو، یا سب سے ظالم خوفو ہو یا پھر 18 سال کی عمر میں مر جانے والا طوطو طومنخ ، سب کے آثار، مجسمے، نیزے بھالے ، رتھیں اور ساز و سامان مل چکا ہے، سب کے زمانے کی کہانیاں تاریخ نویسوں اور مصریات کے ماہروں کو ازبر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت بھی قوانین اور انصاف میں تضادات تھے اور آج کے مصر میں بھی ہیں، حالیہ مصر میں اپنے وقت کے آمر حسنی مبارک کو سزا دی گئی تو بڑی عدالت کے ججوں نے اسے رہا کر دیا بالکل اسی طرح جیسے جنرل مشرف کو پاکستان میں آرٹیکل 6 کے تحت سزا سنائی گئی پھر ہائی کورٹ نے وہ سزا معطل کردی مگر یہاں بالآخر انصاف کا بول بالا ہوا اور یہ سزابحال کر دی گئی۔

مصر اور تضادستان میں آمروں اور ججوں کی کہانی ملتی جلتی ہے۔ جمال عبدالناصر، انوار السادات، حسنی مبارک اور آج کے مدارالمہام ابو الفتاح السیسی وہ چار بڑے نام ہیں جو مقتدرہ کے پس منظر سے آئے اور پھر دائمی اقتدار کے خواہش مند بن گئے۔ تضادستان کو بھی ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاؤں کو بھگتنا پڑا۔ ابوالفتاح السیسی فیلڈ مارشل بھی ہیں اور آج کل صدر بھی۔ ان کا ایجنڈا معاشی ہے اور وہ بھی ملک کو اسی طرح سیدھی پٹڑی پر ڈالنا چاہتے ہیں جس طرح تضادستان میں پس پردہ قوتیں ڈالنا چاہتی ہیں۔

جس طرح تضادستان میں عدلیہ بحالی تحریک چلی تھی، مصر میں بھی ججوں کی تحریک چلی لیکن نہ مصر میں عدلیہ، مقتدرہ کے شکنجے سے باہر آسکی نہ تضادستان میں۔ وہاں کے جمہوری صدر محمد مرسی کو موت کی سزا سنائی گئی ،ابھی وہ جیلیں اور عدالتیں ہی بھگت رہا تھا کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ہماری عدالتوں نے بھی کئی وزرائے اعظم کو عدالت کے چکر لگوائے ہیں یہ کام سہروردی سے شروع ہوا، بھٹو، مائی لارڈ کہتے کہتے عدالتی حکم پر پھانسی پر جھول گئے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی عدالتوں اور جیلوں میں عوامی نمائندگی کی سزا بھگتتے رہے ، اب عمران خان بھگت رہے ہیں اورشاید ابھی آگے آنے والےبھی بھگتیں گے۔

قانون اور انصاف میں فرق ہے، دنیا بھر کے قوانین مختلف ہیں اور ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں، اصل پیمانہ انصاف ہے۔ سقراط کو قانون کے تحت تو سزا ٹھیک ملی ہوگی لیکن کیا دنیا میں اسے انصاف مانا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کو قانون کےتحت ججوں نے مصلوب کرنے کی سزا دی، کیا صدیوں سے اسے کسی نے انصاف مانا ہے؟ گلیلیو کو مذہبی عدالت نے قانون کے تحت سزا سنائی ، کیا وہ انصاف تھا؟ بھٹو کوبھی قانون کے نام پر سزاسنائی گئی کیا اس کو کسی نے انصاف کہا؟ تحریک انصاف کو بھی اس کا سمبل نہ دینے کی سزا قانون کےتحت سنائی گئی مگر کیا یہ انصاف ہے؟ ہرگز نہیں۔ کروڑوں لوگوں سے یہ حق چھیننا کہ وہ اپنے پسند کے انتخابی نشان کو ووٹ نہیں دے سکتے کوئی جابرانہ قانون تو ہوسکتا ہے، انصاف ہر گز نہیں۔قانون اور انصاف کا جب بھی تقابل ہوتا ہے تو تاریخ میں انصاف کا درجہ بڑا ہوتا ہے، قانون کہیں تاریخ کی اندھیری گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔

فراعین کا خیال تھا کہ ابوالہول وہ پراسرار مخلوق ہے جو ان کی پہرےداری پر خدا کی طرف سے متعین ہے۔ یونانیوں میں یہی ابوالہول SPHINX کہلاتا تھا وہ بھی مصری ابوالہول کی طرح شیر کے جسم، انسانی چہرے اور بڑے بالوں والا تھا مگر یونانی مخلوق کے پر بھی تھے۔ مصر ہو یا یونان یا پھرتضادستان ایسا لگتا ہے کہ ہماری چوکیداری اور پہرےداری آج بھی پراسرار مخلوق ہی کر رہی ہے۔ آج کے مصر میں بھی تضادستان کی طرح اپوزیشن کیلئے دائرہ تنگ ہے، میڈیا پر دباؤ ہے۔ مغربی دنیا کے اکثر ممالک بہت پہلے ان پراسرار مخلوقات سے آزاد ہو چکے،ہم ہوں یا مصر والے ابھی تک بھوتوں، ابوالہولوں اور پراسرار مخلوقوں کے قائل بھی ہیں اور کسی حد تک عادی بھی ۔ اصلی جمہوریت لانی ہے یا اصل میں آزاد ہونا ہے تو ان پرانے عقیدوں اور رویوں سے آزاد ہونا پڑے گا۔

مصر ہو یا پاکستان دونوں کی مقتدرہ اہل سیاست پر مکمل اعتبار کیلئے تیار نہیں اسی لئے انہیں مکمل اختیار ہی نہیں دیا جاتا۔ مصر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کی معیشت کو فوج نے بہتر کیا ہے۔ پاکستان کی معیشت بھی حالیہ چند ماہ میں بہتر ہوئی ہے۔ تاہم یاد رکھنا چاہئے کہ اگر معیشت کو استحکام میں بدلنا ہے تو سیاسی استحکام بھی لانا ہوگا اور سیاسی استحکام ایک مکمل جمہوری نظام، منصفانہ انتخابات، ٹرانسفر آف پاور اور پھر عوامی نمائندوں کی کارکردگی پرمنحصر ہے۔ تضادستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی مستقبل کے عدم تعین کا ہے جس دن اس کا تعین ہو جائے گا اس دن راستے نکلنا شروع ہوجائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ